Thank You Se Fuck You Tak
تھینک یو سے فک یو تک

لیکچر ختم ہوا اور میں کمرہ جماعت سے باہر نکل آیا۔ اسٹاف روم میں پہنچ کر یاد آیا کہ روسٹرم پر موبائل اور بٹوا بھول آیا ہوں۔ واپس کمرہ جماعت کی طرف آرہا تھا کہ سامنے سے ایک لڑکا اپنی طرف آتے دکھائی دیا۔ اُس کے ہاتھ میں موبائل اور بٹوا تھا۔ میں نے دونوں چیزیں وصول کیں اور جواباً شکریہ ادا کیا۔ لڑکے نے میری تحسین جوابی کا مکرر جواب یوں دیا کہ فک یو۔ میں ششدر رہ گیا کہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے اور یہ فقرہ کہنے کی اِس میں ہمت کیسے ہوئی وغیرہ وغیرہ۔
اسٹاف روم میں خاموش سکتے کے عالم میں بیٹھ گیا۔ ساتھ بیٹھے کولیگ نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔ اس قدر خاموش ہو کر اُداس سے کیوں بیٹھ ہو۔ کچھ ہوا ہے کیا۔ گھر میں سب ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ سب ٹھیک ہے۔ بس یہ معاملہ ہوا ہے۔ وہ بھی حیران ہوا۔ اُس نے کہا کہ میرے ساتھ آؤ۔ ہم اُس لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ اُس نے یہ فقرہ کیوں کہا ہے اور اسِ فقرے کے کہنے سے اس کا کیا مطلب ہے اور اس کے پس منظر میں اس کے ذہن میں کیا تھا۔
میں نے کہا کہ رہنے دو۔ یہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اصرار کرکے مجھے اپنے ہمراہ اُس کمرہ جماعت میں لے گیا جہاں وہ لڑکا بیٹھا تھا۔ ہم دونوں کلاس میں پہنچے تو پتہ چلا کہ اُس لڑکے ہمارے آنے سے پیشتر اپنے سبھی دوستوں سے یہ بات شئیر کی ہے کہ میں نے سر کو یوں کہا اور پھر سر نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ گویا اُس علم کے طالب کے نزدیک یہ کام کوئی بڑا معرکہ مار لینے کے مترادف تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ پریشان ہوا اور کچھ کرنے کی کشمکش میں تھا کہ ہم نے اُسے آواز دی اور پیش دلان میں لے گئے۔
میرے کولیگ نے پوچھا کہ تم نے یہ جملہ کہا ہے اور کیوں کہا ہے۔ علم کے رسیا نے جواب دیا کہ بس میرے ذہن میں آیا اور میں نے کہہ دیا۔ میرے کولیگ نے کہا کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ تم اُستاد کے سامنے اس طرح کا غیر اخلاقی اور بیہودہ فقرہ کہو اور مزید یہ کہ تم نے اپنے دوستوں سے بھی اس کا ذکر کر دیا۔ تمہیں شرم آنی چاہیے۔ تم یہ ہو، وہ ہو اور فلاں فلاں۔ لڑکے نے معذرت کی اور ہم واپس اسٹاف روم آگئے۔ گویا بات ختم ہوگئی۔ یہ بات ختم نہیں ہوئی بلکہ مجھے آئینہ دکھایا گیا کہ میں جو پڑھا رہا ہوں اور جس شعبہ سے وابستہ ہوں وہ فک یو والا کام ہے اور اس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
مغربی معاشروں میں یہ رجحان بہت عام ہے کہ نوجوان طالب علموں کو جب کسی چیز کی سمجھ نہیں آتی تو وہ فک یو کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں جس طرح پنجابی بہن۔۔ والا فقرہ کہہ کر اپنا غبار نکالتے ہیں۔ یہ رجحان اُن مغربی معاشروں میں ایک معمول کا معاملہ اور کومن پریکٹس ہے نہ کہ عزت، دین اور سماج کا کوئی گھمبیر اور تعزیز آمیز مسئلہ۔ اس واقعے سے ایک بات تو سمجھ آگئی ہے کہ بچے اب ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے۔ سوشل میڈیا کی غلیظ حرکات و سکنات نے اس نسل کو جتنا خراب کرنا تھا، کر دیا ہے۔ مزید کسر سیاست دانوں نے نکال دی ہے۔ اس خرابی اور اخلاقی تنزل کے تابوت میں دیگر سیاسی راہنماؤں کے ساتھ آخری کیل عمران خان صاحب کی گالم گلوچ اور الزام و بہتان کی سیاست اور روئیے نے ٹھونکا ہے۔
عمران خان نے جہاں سیاست دانوں کے چھپے ہوئے گند اور گندے ذہن کو طشت از بام کیا ہے وہاں دیگر خفیہ طاقتوں اور برسراقتدار شخصیات کی جملہ منفی سرگرمیوں اور افلاکی وسعتوں کی اقتداری رسائیوں کو بھی منظرِ عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے یا اس کے بر عکس۔ اس کے بارے میں میں جو بھی رائے دوں، وہ دونوں طرح کا تاثر رکھتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا نے گذشتہ دس برس میں پاکستانی سماج کو جس ڈگر پر لا کھڑا کیا ہے وہاں سے واپسی کا سفر اب صدیوں میں طے ہوگا۔ شرم، لحاظ، احساس، مرورت، رواداری، اخلاقی ظرف اور اس جیسے سیکڑوں خوبصورت الفاظ کے حامل سماجی بیانیے کو اس سائبر وار نے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ یہ مبارک باد ہے اُن صاحبِ اقتدار شخصیات کو اور حفاظت پر مامور نگرانوں کو جن کی ناک کے نیچے سے یہ تباہی اپنے انجام جا پہنچی ہے اور ہر چیز کی نیست و نابود کر چکی۔ یہ بات طے ہے کہ نوجوان نسل کو اب اُستاد ٹھیک نہیں کر سکتا۔
گورنمنٹ آج کل اساتذہ کے پیچھے پڑی ہے اور چاہتی ہے کہ تعلیمی ادارے نجی تنظیموں کے حوالے کرکے سکولز، کالج اور جامعات کی اربوں کی اراضی کو فروخت کیا جائے تاکہ ملک کو ان تعلیمی اداروں کے بوجھ سے نجات دلا کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچا کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈالا جائے۔ بہت اچھی بات ہے۔ یہ خیال بہت پہلے سے آنا چاہیے تھا۔ تعلیم کا بیڑہ تو غرق ہوچکا ہے۔ کوئی کسر باقی ہے تو شوق سے پورا کر لیں۔ اس میں قصور ہمارا بھی ہے اور دودھ کے دُھلے آپ بھی نہیں ہے۔ ہم سب نے مل کر یہ سوانگ رچایا ہے۔ لیو انکیشمنٹ اور پنشن اصلاحات کے ذریعے تعلیمی اداروں سے وابستہ ملازموں کو گویا فک یو کر دیا ہے اور ان کی ہمیشہ کے لیے منجی ٹھونک دی ہے۔ معمارِ قوم اب مسمارِ قوم بن چکی ہے۔ اس کے ہاتھ میں دوسروں کے بچے رہیں ہیں اور نہ اپنے پیدا کیے ہوئے۔
پاکستانی سماج کا پورا نظام ایک دوسرے کو فک یو کر رہا ہے اور کسی کو معافی نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کی قوم کی طرح اب ہاتھی نکالے جا رہے ہیں اور مچھر چھانے جا رہے ہیں۔ مچھروں کے ڈنک میں زہر نہیں ہوتا اس لیے ان کو مارنا نہایت آسان ہے۔ اچھا ہے مچھروں کو مار ڈالا جائے اور ان کی بِل میں گھس کر انھیں مارا جائے جس طرح اسرائیل حماس میں گھس کر مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ حکومت شعبہ تعلیم سے وابستہ ملازمین کے لیے تو اسرائیل بن گئی ہے اور اساتذہ بچارےحماس کی طرح نہ بم رکھتے ہیں اور نہ بندوق۔ بس سینہ رکھتے ہیں جو زخمی ہے اور سر رکھتے ہیں جو ندامت سے شرمندہ ہے اور منہ رکھتے ہیں جس پر شکست لکھی ہوئی ہے۔ ایک بے ضرر کیمونٹی جس کے پاس تعلیم و تربیت کا محاذ ہے اور جو پوری طرح ناکام ہو چکا ہے اور اس کی اصلاح کے لیے نہ کوئی پلان ہے اور نہ کوئی منظم پروگرام۔
چار لاکھ کے قریب ان اساتذہ کو فک یو کریں اور کڑوروں بچوں کو شاباش دے کر اپنے قائم کیے ہوئے نجی سکولز، کالجز اور جامعات میں داخل کریں جہاں سے یہ فک یو سیکھ رہے ہیں اور ہمارے منہ پر ہمیں کہہ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تم اسی لائق ہو اور ہماری تربیت میں تمہارا کوئی کردار نہیں ہے۔ آپ لوگوں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت سے اب ہم استفادہ کریں گے۔ آن لائن کمائیں گے اور چِل کریں گے۔ تم لوگ جاؤ بھاڑ میں۔
ستم یہ ہے کہ دُنیا کی اخلاقیات پروان چڑھ رہی ہے اور ہمارا سماج اخلاقی تنزل کی کھائی میں اوندھے منہ لڑھک رہا ہے۔ کسی کو پروا نہیں کہ یہ سماج کس طرف جا رہا ہے۔ ہر کوئی اپنا گھونسلہ بنانے کی فکر میں لگا ہے۔ میری کوکو اور میرے بچے اور میرا گھونسلہ۔ بس یہی کچھ رہ گیا ہے۔ یوم الثبت کے منکرو! تمہارا نجام قریب ہے۔ چھپ چھپ کر تم لوگوں نے جو مچھلیاں پکڑ پکڑ کر محفوظ کر رکھی ہیں۔ اُسی کی پاداش میں بندر بنائے جاؤ گے۔ جو لوٹ مار اور ظلم و زیادتی کی روش تم نے قائم کر رکھی ہے یہ موہنجوڈرو کی طرح دریا بُرد ہونے والی ہےگذشتہ چند برسوں میں بہ حیثیت پاکستانی ہم ہجوم کی سطح سے فک یو کی سطح تک آگئے ہیں۔
وہ وقت دور نہیں جب تم سب ایک دوسرے کو مارنے، کاٹنے اور خون کی ندیاں بہانے پر اُتر آؤ گے۔ میرا بچہ اور میری بیٹی میری نہیں رہے گی۔ لوٹ مار، استصیال، ظلم زیادتی اور ارتکازِ جائیداد کی کرشمہ کاریاں داہر کے قلعوں کو نہیں بچا سکیں گی۔ غزوہ ہند کا انتظار کرنے والے غزوہ فک یو میں مارے جائیں گے اور کوئی ان کو یاد رکھنے والا اور ان کا نام لینے والا باقی نہ رہے گا۔

