Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Sub Jaante Hain

Sub Jaante Hain

سب جانتے ہیں

اب یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے کہ کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں۔ اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ میں گذشتہ چند ماہ سے تاریخ، تہذیب، سماجیات، سیاسیات، معاشیات اور تقابل مذاہبیات کے موضوعات پر غیر جانبدار سکالرز کو سُن رہا ہوں۔ ان کی حوالہ جاتی کُتب کو گاہے گاہے پڑھ رہا ہوں۔ انٹرنیٹ ایجاد کرنے والے انگریز کا بھلا ہو، جس نے ان حقائق کو سامنے والے والے ذرائع کو ہم تک پہنچایا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد سے یوٹیوب تک کا سفر ایک حیرت انگیز چیز تھی جس نے نسلوں کی تربیت کی ہے اور ایک نسل کو خراب بھی کیا ہے۔

مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ تقسیمِ پاکستان کے بعد سے آج تک کی جملہ سیاست کا ناک نقشہ تقسیم سے بہت پہلے وضع کر لیا گیا تھا۔ مولانا ابو کلام آزاد کی پیشن گوئیاں ایک طرف، تقسیمِ پاکستان کے بنیادی محرکات اور اس کے پس منظر میں ذاتی مفادات کا حصول بھی ایک طرف۔ یہ بات میرا ذہن تسلیم نہیں کر رہا کہ برصغیر کو کس وجہ سے تقسیم کیا گیا۔ اس سوال کے ہزاروں جوابات کتابوں میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کُتب میں حوصلہ کرکے ہمیں بتا دیا کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے۔ ہمارے آباو اجدار اور تاریخ کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ یہ ملک کیوں بنا ہے۔ اس کے بنانے والوں نے اسے بنایا کیوں تھا۔ یہ ملک اصل میں ہے کس کا۔ بطور رعایا ہماری حیثیت اس ملک میں کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر اشتیاق کی جرات کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی ایک نام سامنے آتے ہیں جنھوں نے پاکستان کی ریاست کے اصل حکمران کا تعین کرنے میں اپنی نگارشات کو تحریری و تقریری انداز میں عوام کے سامنے (کُتب، بلاگز، پوڈکاسٹ وغیرہ) پیش کر دیا ہے۔ ان سکالرز اور ملک کا درد رکھنے والے جملہ احباب نے اپنی تحقیقی ریاضت کا نتیجہ ایک بات پر لا کر ختم کیا ہے کہ اس ملک کو بنانے والوں کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کے بننے کے بعد اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ اس ملک کے بانی ارکان سے جب بھی پوچھا گیا کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیسا ہوگا۔ اس میں حقوق کی فراہمی کیسے ہوگی۔ کون سا نظام نافذ کیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

ان بانی اراکین نے پوچھنے والوں کی ذاتی پسند اور دلچسپی کے پیشِ نظر دئیے تاآنکہ یہ ملک بن گیا۔ گویا، اس ملک کے بنانے والوں نے اس ملک پر قربان ہونے والوں اور اس کی آزادی میں حصہ لینے والوں کے ساتھ ہاتھ کیا ہے۔ جان دینے والے جان دے گئے۔ اس کو بنانے والے بنا کر چلے گئے۔ اب یہ ملک جسم فروش فاحشہ کی طرح آوارہ لونڈوں کے ہاتھ آیا ہوا ہے جو اپنی تسکین کے لیے اسے جس طرح چاہتے ہیں، استعمال کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا، ٹوکنے والنا اور روکنے والا نہیں ہے۔ الغرض اس ملک میں موجود ہر شخص اس کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار ہے۔

اس ملک کے سیاست دان، وڈیرے، رئیس، جاگیردار، زمین دار اورکاروباری برادری سے لے کر انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ تک اس ملک کو لوٹنے اور اسے نیست و نابود کرنے کے درپئے ہیں۔ میڈیا کے بے تاج بادشاہ اپنی گفتگو میں ایسی ایسی بکواسیات کرتے ہیں کہ انھیں سُن کر لگتا ہے کہ ملک بس اگلے لمحے ختم ہونے والا ہے۔ پاکستانی سب مرنےکی بجائے خود کو پھانسی دیں لیں تاکہ انھیں مارنے کی اذیت کے احساسِ زیاں سے یہ مملکتِ معصومہ شرمندہ نہ ہو۔ ٹھگ باز بہروپیے تجزئیہ کار، ملک پر قابض حکمرانوں کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جیسے ہی لوٹ مار کرکے یہ بونے ایکٹر پردہ سکرین سے غائب ہوتے ہیں، نام نہاد بکاؤ تجزئیہ کار، ان کے ایسے ایسے خفیہ عزائم اور تعلق داریوں کو ظاہر کرتے ہیں جیسے ان سے پوچھ کر لوٹیروں اور غاصبوں نے یہ سب کچھ کیا ہے۔

اس ملک میں وزیر اعظم سے لے کر مزدور تک سبھی اس کی تباہی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ان پڑھ، جاہل اور بے شعور طبقہ سے لے کر عالم و فاضل اور اونچے عہدوں پر فائض دعوے داروں کی جملہ گفتگو کا مرکز اس ملک کی تباہی اور مفلوک الحالی کا کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ مزدور سے پوچھا جائے کہ اس ملک کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اس ملک میں موجود سبھی امیر لوگوں کو مار دیا جائے، ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ امیر سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ سامنے والے بنگلے میں موجود شخص کو مار دیا جائے کہ اس کا پالتو کُتا بے وقت بھونک کر میری نیند حرام کرتا ہے۔ سیاست دان سے پوچھا جائے تو کہتا ہے کہ فلاں والے سیاست دان کو راستے سے ہٹا دو، ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ خلائی مخلوق کے عہدےداران سے پوچھا جائے تو وہ مسکرا کر بات پلٹ دیتے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے اور یقینی ہے کہ اس ملک کو بنانے والوں نے اس ملک کے لیے قربانی دینے والوں سے دھوکا کیا ہے۔ انھیں سبز باغ دکھایا گیا تھا۔ انھیں پُر آشائش زندگی کے طلسمی جلووں میں مبتلا کیا گیا تھا۔ ان کی اُولادوں کے لیے روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی تھی۔ ان کے لیے ناقابلِ شکست زمین کی ضمانت دی گئی تھی۔ انھیں اسلام کے علمی نفاز کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ انھیں بتایا، سمجھایا اور دکھایا گیا تھا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس ملک کو بنایا تھا۔ ان بزرگوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اور بعد میں ان کی اُولادوں پر کیا ظلم ڈھایا جائے گا۔

اس ملک کے انصاف کا یہ عالم ہے کہ سابقہ حکمران موجودہ حکمران کی جیل میں سڑتا ہے۔ اس ملک میں کوئی ایک چیز، کوئی ایک ادارہ، کوئی ایک عہدے دار درست سَمت پر کام نہیں کر رہا۔ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے، لے اُڑتا ہے۔ حکومت پٹرول بڑھاتی ہے اور دس منٹ میں لاکھوں اشیا کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ کیا تیز رفتاری ہے صاب۔ گذشتہ پچھتر برسوں میں ایک دفعہ تاریخ نے یہ معجزہ نہیں دکھایا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت کم کی ہو اور دس منٹ کے اندر لاکھوں اشیا کے نرخ کم ہو گئے ہوں۔ ملک پر مصیبت اور قدرتی آفات کا آنا، لُٹیروں، ڈاکوؤں، چوروں اور غاصبوں کے لیے رحمت و اُمید کا سبب ہے۔ اس ملک کے اندر اور باہر، یہاں اور وہاں، اِدھر اور اُدھر، اوپر اورنیچے جو کچھ ہے۔ یہ کس کا ہے؟ یہ سب کو پتہ ہے۔

اس ملک میں شعور ی عمر سے قبر میں اُترنے تک جملہ اقوامِ پاکستان کو پتہ ہے کہ اس ملک کا اصل حکمران کون ہے اور وہ اس ملک کے ساتھ کیا برتاو کرتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود کوئی بولتا نہیں۔ ہاں!بولتے ہیں لیکن گونگوں کی زبان میں، تشبیہات و استعارات اور علامتوں کی دیومالائی اُسلوب میں۔ بات کرتے ہیں لیکن مجال ہے کسی کو بھنک پڑ جائے کہ کس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی غیر یقینی کیفیت، کبھی نہ ختم ہونے والا زوال، کبھی نہ حل ہونے والے مسائل، کبھی نہ بدلنے والی سوچ، کبھی نہ جانے والی نفرت، کبھی نہ رہنے والی ایمانداری اور کبھی نہ سمجھ میں آنے والی صورتحال اس ملک کو تنزل کی طرف لیے جارہی ہے۔

اس ملک کو یاجوج ماجوج کی مخلوق ہر وقت چاٹ رہی ہے۔ حیرت ہے! چاٹتے چاٹتے تھکتی نہیں ہے۔ اب یہ ملک پتلی سی نوک دار چٹان کی صورت باقی رہ گیا ہے۔ قوی اُمید ہے۔ یہ چند برس میں یا جوج ماجوج اس نوکیلی سی پتلی سی چٹان کو چاٹ کر ختم کر ڈالے گی۔ پاکستانیو! یہ جان لو۔ قیامت سے پہلے ایک قیامت آنے والی ہے۔ اس آنے والی قیامت کے جملہ آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ جسے نظر نہیں آتا، وہ اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے۔ جسے محسوس نہیں ہوتا، وہ اپنا دل چیر ڈالے۔ جسے سُنائی نہیں دے رہا، وہ اپنے کان کُتر ڈالے۔ اس آنے والی قیامت کی تباہی سے بچپنے کی جتنی ممکنہ تدبیریں کر لیں۔ کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ اس آنے والی قیامت کو اب کوئی نہیں روک سکے گا اور یہ قیامت آچکی ہے۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi