Siasat Ka Armiayi Bayania
سیاست کا آرمیائی بیانیہ
جواد احمد پاکستان کے معروف گلوکار ہیں۔ یوٹیوب پران کا تفصیلی انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ ایک گلوکار اپنے اندر ملک کا کتنا درد رکھتا ہے اور سُر تال کا علم رکھنے کے علاوہ دُنیا بھر کے موضوعات پر کس قدر دسترس رکھتا ہے۔ یہ سُن کر حیرت ہوئی۔ انٹرویو کے اواخر میں ان کے مشہور گانے دوستی کے بارے میں ذکر ہوا۔ جواد احمد بتاتے ہیں کہ یہ گانا میں نے پاکستان آرمی کے لیے نہیں لکھا تھا بلکہ دوستی کے تصور کو واضح کرنے کے لیے لکھا تھا۔ بعد میں اِس گانا کو پاکستان آرمی نے لے لیا اور اس پر کثیر رقم صرف کرکے اسے پاکستانی فوج کا بیانیہ بنا لیا۔
یہ ایک واقعہ ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہوا ہوگا۔ انٹرویو ختم ہوا اور میں نے یوٹیوب پر دوستی گانا پلے شروع کیا۔ یہ گانا میں نے بچپن میں سُنا تھا جو اب بھول بھال گیا تھا۔ مدت بعد اس گانا کو وڈیو کے ساتھ سُنا تو میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں تھے؟ میری آنکھوں میں نمی کس جذبے کے تحت اُبھر کر آئی تھی۔ یہ سوال میرے لیے شدید تکلیف اور حیرت کا باعث ہے۔ کافی دیر تک میں سوچتا رہا۔ جواب تو میرے سامنے ہے اور میں جواب کی صداقت کی شدت سے پوری طرح واقف بھی ہوں۔
میرا ذہن یہ تسلیم کیوں نہیں کر رہا کہ پاکستانی فوج آج بھی اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی دیتی ہے جس طرح اس گانا کے وڈیو میں فلمایا گیا ہے۔ گذشتہ چھے ماہ سے ملک میں سیاسی تنزل کی جو صورتحال ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کا فوج مخالف جو بیانیہ سامنے آیا ہے۔ عوام میں فوج کے بارے میں جو تاثرات تبدیل ہوئے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف نے پوری دُنیا میں جس طرح بھیک کے لیے رُسوا کیا ہے۔ اشرافیہ نے ملک کو جس طور سے لُوٹا ہے۔ کاروباری برادری نے ملک کو جو ڈنک مارا ہے۔ یہ سب میرے سامنے ہے۔ فوج ہماری شان ہے، آن ہے، بان ہے اور جانے کیا کچھ ہے۔
اس جذبے میں صداقت بھی ہے اور صداقت کے اعلیٰ ترین معیار کی سچائی بھی ہے۔ 9 مئی واقعہ ایسا ہے جس میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان فوج آمنے سامنے تھی۔ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور عمران خان سمیت ہزاروں افراد کو جیل میں ڈالا گیا اور پاکستان کے موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری عمران خان اور اس کے حمایتی ووٹر پر ڈال دی گئی۔ یہ سب کچھ ہوا اور ہنوز ہو رہا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی تیسری بڑی پارٹی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے فوج سیاست میں لے کر آئی اور وزارتِ عظمہ تک اس کی رسائی کو یقینی بھی فوج نے بنایا۔ عمران خان کے فوج سے معاملات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بحران آیا اور پی ڈی ایم سے حکومت کے تخت کا متبادل تلاش کیا گیا جس کا کام ختم ہونے کے بعد اب نگران حکومت پاکستان کو سنبھال رہی ہے۔ میں نے اپنی شعوری عمر کے بیس سال میں یہی سنا ہے کہ فلاں پارٹی کو فوج لے کر آئی۔ فلاں بندے کو فوج سپورٹ کرتی ہے۔ فلاں شخص کے پیچھے فوج ہے۔ فلاں شخصیت کو فوج نے راستے سے ہٹایا ہے۔ فوج یہ کرنے جارہی ہے۔ فوج وہ کر چکی ہے۔ فوج کو یہ کرنا چاہیے۔
تقسیمِ پاکستان کے بعد سے اب تک مورخین نے اپنی کتب میں فوج کی سیاست میں دلچسپی پر سیکڑوں کُتب اور ہزاروں مقالات لکھے ہیں۔ ان کتب و مقالات اور تاریخ کے سیاہ و سفید اوراق کا تجزئیہ کرنے سے جو بات سامنے آتی ہے جس کا سوشل میڈیا(پوڈ کاسٹ، انٹریو، ولاگز وغیرہ) کے تسلسل سے اظہار ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان پر حکومت کرنے والا واحد ادارہ پاکستان فوج کا ہے اور یہ اختیار ہنوز اِس کے پاس ہے جس پر کسی کو شب خون مارنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔
سوشل میڈیا پر 9 مئی کے واقعے کی جس انداز میں مذمت ہوئی ہے وہ انداز فوج کی مداخلت کو واضح کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے وہ فوج کی حمایت میں کھڑی نظر آتی ہے اور جو اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ فوج مخالف ہوتی ہے۔ میں نے اب تک سیکڑوں مورخیں، فلاسفر، تھنک ٹینک اور ملک سے درد رکھنے والی شخصیات کو سُنا ہے۔ ان میں نوے فیصد کا فوج کے بارے میں تاثر منفی سامنے آیا ہے۔ ایک بات مجھ پر واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان میں فوج سے مضبوط، مستحکم اور توانا کوئی اور ادارہ نہیں ہے۔ ملک کی سالمیت اِسی کے ہاتھ میں ہے۔ ملک کی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی بھاگ دوڑ کا اختیار بھی اسی کے سپرد ہے۔
اگر یہ سب مبنی بر حقیقت ہے تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے کہ ملکِ پاکستان کا اصل حکمران اور صاحبِ اقتدار ادارہ فوج یعنی پاکستان آرمی ہے۔ سیاست دان جھوٹ بولتے ہیں، بکواس کرتے ہیں اور پاکستانی رعایا کو دن رات اس فریب میں مبتلا کیوں کرتے ہیں کہ ہم ہی مسیحا ہیں اور راہنما ہیں اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کے امین ہیں۔ تمہارے ہاتھ نہ کوئی اختیار ہے اور نہ کوئی معجزاتی طاقت کہ اس ملک کی تقدیر بدل سکو۔ پاکستان فوج سے میری کیا لڑائی ہے۔ میرا اِس سے کیا اختلاف ہے؟ میں ایک عام انسان ہوں۔ تھوڑا بہت پڑھ لکھ گیا ہوں اور سوشل میڈیا نے ذرا شا شعور دیا ہے اور تاریخ کی کتب سے سیاست و سیاست گردی کے بارے میں آگاہی ہوئی ہے۔
پاکستان کے چاروں اطراف اِس کے دُشمن بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج فوج سرحدوں سے ذرا سا سِرک جائے تو پانچ منٹ کے اندر یہ ملک کیا، اِس کا نشان تک باقی نہ رہے۔ پاکستان کی بقا اور اس کی سلامتی کے لیے فوج کا بہ حیثیت محافظ ادارہ باقی رہنا ناگزیز ہے۔ ایک ادارہ اپنے اصول و ضوابط کے ساتھ کام کرتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی کوئی ادارہ بھی کرپٹ اور حدودو قیود سے ماورا نہیں ہوتا۔ پاکستانی فوج میں سرحد پر مرنے والے جرنیل نہیں بلکہ عام سپاہی ہیں۔ یہ سپاہی غریب اور متوسط گھرانوں کے افراد ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر کپیٹن تک کی تعداد کو پاکستان آرمی میں گِن لیا جائے تو پاکستانی فوج کا نوے فیصد یہی اشاریہ بنتا ہے۔
دس فیصد افسران ہیں جن میں مزید اہم افراد کی نشاندہی کر لی جائے تو 2 فیصد افراد بچتے ہیں جن کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں 25 خاندان مشہور ہیں جن کے پاس پورے ملک کا سرمایہ اوراختیار موجود ہے۔ بات بہت واضح اور سادہ سی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے سبھی اداروں کے ٹاپ 5 افراد سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ ایمان دار اور محب وطن ہیں تو اِن کی ایمانداری اور محبِ الوطنی بھی نیچے تک آتی ہے۔
سیاست دان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے بغیر ان کو اقتدار اور اختیار نہیں ملے گا تو پھر یہ بھی سمجھ لیجیے کہ آپ کو وہ عزت، شہرت اور نیک نامی کبھی نہیں ملے گی جو آپ کسی بھی مذہب سے وابستہ پیغمبر اور رسول سے متصور کرتے ہیں۔ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ہی نسخہ ہے اور وہ یہ کہ جس جس نے جتنا جتنا لُوٹا ہے، اُس کا اعتراف کرنا ہوگا اور آئندہ لینے کی بجائے دینے، لُوٹنے کی بجائے لُٹنے اور بچانے کی بجائے خرچ کر نے کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔ اگر یہ قوم بہ حیثیتِ مجموعی توبہ کا یہ فریضہ انجام نہیں دے گی۔ یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ واللہ! نہیں کرے گا۔