Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Shareek e Jurm Thi Warna Uss Ki Kya Majal

Shareek e Jurm Thi Warna Uss Ki Kya Majal

شریکِ جُرم تھی ورنہ اُس کی کیا مجال

ماڈل ٹاؤن جانے کا کتنا کرایہ لو گے، میڈم! پانچ سو روپے دے دیجیے، یہ تو بہت زیادہ ہیں، کم کریں، میڈم! ساڑھے چار سو سےکم نہیں ہوگا۔ نہیں، میں ابھی تین سو روپے دے کر آئی ہوں، میڈم! پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے اور۔۔ معاف کیجیے گا، آپ فاخرہ ہیں، جی! آپ۔۔ او، آپ، یہاں کیسے، مطلب، آپ، یہاں! اس وقت، اتنی دیر کے بعد، یہاں، مطلب، آپ یہاں۔۔ اچھا، اچھا، اطمینان سے، دھیان سے بچے کو اُٹھاو، بھیا! یہ نہیں جارہی، یہ میرے ساتھ جائیں گے، آپ کا شکریہ۔ رکشے والا ہاتھ سے سواری نکلتی دیکھ کر نیم خفگی کی حالت میں منہ بسورتا ہوا چلا گیا۔

باہم سلام دُعا اور خیریت کے تبادلہ کے بعد دو رویہ سڑک کے بیچ کھڑے گاڑیوں کے شور میں میں یہ سوچ رہاتھا کہ برسوں بعد اتفافاً مل گئے ہیں تو کہیں بیٹھ جائیں۔ کیا آپ میرے ساتھ کار میں بیٹھ کر دو گھڑی بات کر سکتی ہیں۔ میں، یہاں، اس وقت، کوئی دیکھ نہ لے، میں پہلے گھر سے لیٹ ہو چکی ہوں، اب، اس وقت، خیر، چلو۔ گڈ، آئیے، اس طرف سے آجائیے، وہ سامنے گاڑی کھڑی ہے۔ تم تو فُقرے تھے زمانے بھر کے، گاڑی کب لی، تمہیں تو عمر بھر موٹر سائیکل پر آتے جاتے دیکھا ہے۔

بس جوڑ توڑ کرکے لے ہی لی، ملتے ہی طعنے دینے لگی ہو۔ تو اور کیا، تم تھے ہی ڈرپوک، بزدل اور کم ہمت انسان۔ اچھا، اچھا، ہاں، اس طرف سے، ٹھیک ہے، بیٹھ جائیں، بیٹا بہت پیارا ہے، کیا نام ہے اس کا؟ محسن۔ میرا اُوپر کا سانس اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا (مجھے خیال آیا: شکر ہے میرا ہم نام ہے، لیکن میری شکل و صورت پر نہیں گیا ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے) یہ نام رکھنے کا خیال کیسے آیا؟ خیال سے کیا مطلب، جو جی میں آئے، کوئی زبردستی ہے کیا؟

نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہاتھا۔ تمہارے نام سے نام نہیں رکھا، تم تو بیچ رستے چھوڑ کر چلے گئے تھے، ایک نمبر کے ٹھرکولا انسان ہو تم، جگہ جگہ منہ مارنے والے بھیڑیے۔۔ کوئی اور بات بھی کرو گی یا صرف طعنے ہی دئیے جاؤ گی اور کیا بات کروں، کوئی بات رہی نہیں۔ کچھ بھی، جو من میں آئے۔ من! آہا، یہ من سالا، بڑا حرامی ہے، اسی من میں تمہیں بسایا تھا جب تم کسی اور کو اپنے من میں بسانے کے لیے چل دئیے، پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ ایک کمزور کٹھ پُتلی جس نے وفا کے لیے، ذات پات، رنگ نسل، مذہب و مسلک کی حدود کو پھلانگ کر تمہارے لیے آہیں بھریں، اُس کی جملہ التفات کا تم نے مذاق بنا ڈالا، منہ پھیر کر یوں بے وفا ہوئے جیسے کوئی شناسائی ہی نہ ہو۔

اچھا، تم اپنے جی کاغبار نکال لو۔ یہ غبار نہیں ہے محسن! یہ محبت تھی جو فقط تم سے تھی۔ ماما! مجھے گرمی لگ رہی ہے، مجھے گھر جانا ہے۔ تمہاری گاڑی میں AC نہیں ہے کیا، کنجوس انسان، بچے کے لیے AC ہی چلا دو۔ اُو، سوری، میں بھول گیا تھا، ابھی چلا دیتا ہوں، لو بھائی چل گیا AC تم بھولتے بہت ہو۔ نہیں، ایسی بات نہیں ہے، میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں، تم ہمیشہ میرے ذہن و قلب میں موجود رہتی ہو۔ یہ تم دس سال پہلے بھی کہتے تھے، وہی جملے، وہی انداز، وہی جذباتیت اور وہی سبز باغ، تم ذرا بھی نہیں بدلے اور تم بھی ذرا نہیں بدلی، ویسی کی ویسی نٹ کھٹ، منہ پھٹ اور زور آور۔۔ خیر، یہاں، اس علاقے میں کیسے آنا ہوا؟

ٹرانسفر ہوگیا ہے، ہفتہ قبل یہاں آیا شفٹ ہوا ہوں۔ اُو، اچھا! شکر ہے تم لوٹ آئے، اچھا لگا تمہیں دیکھ کر، شادی کر لی تم نے؟ جی، کر لی ہے۔ بہت خوب، کیسی ہے ہماری بھابھی۔ ہا ہا ہا، بھابھی! اچھا مذاق ہے۔ تو اور کیا بہن کہوں، بہن چود۔ یار! یوں تو نہ کہو۔ خیر، کیسی ہے وہ، یہ وہی والی ہے یا دس پندرہ کے بعد والی۔ نہیں، اب میں سدھر گیا ہوں۔ اچھا، پانچ دس کو تو میں جانتی ہوں، دس پندرہ اور ہوں گی جو تمہارے معصوم چہرے اور چکنی چُپڑی باتوں میں بہل کر تمہاری حوس کا نشانہ بن چکی ہوں گی۔

نہیں، ایسی بات نہیں ہے، تم آخری تھی، اس کے بعد کوئی اور نہ آسکی۔ کیوں! ایسی کیا بات ہوئی؟ حج کر آئے ہو، توبہ کر لی ہے یا مردانگی کا عضو معذور ہوگیا ہے۔ نہیں، تمہارے بعد کوئی اور جی کو جچی ہی نہیں۔ اچھا! مجھ میں ایسا کیا تھا کہ میرے علاوہ کسی اور کو پھانس نہ سکے۔

بس تھا کچھ، جو بتانے سے زیادہ محسوس کرنے والا ہے۔ ہاں، محسوس تو تم بہت کرتے ہو، میری محبت کا احساس تو تمہیں محسوس نہیں ہوا، بس باتیں ہیں، تم لوگ باتیں بہت کرتے ہو، باتوں باتوں میں ہم جیسی بھولی بھالی لڑکیوں کو پھنسا لیتے ہو، میں نے تو اپنا سب کچھ تمہیں دے ڈالا تھا، اپنا دل، جسم، روح، حُسن، جوانی، آن بان اور روپیہ پیسہ۔ اس کے باوجود تم نے مجھے بیچ رستے چھوڑا، تمہیں پتہ ہے تمہارے انکار کے بعد میرا کیا حال ہوا اور مجھ سے کیا سلوک کیا گیا۔

کیا سلوک؟ گھر والوں نے چالیس سال کے پیاسے جانور سے مجھے باندھ دیا جس کی پینٹ کا بیلٹ کُھلتے ہی مجھ پر ٹوٹ پڑتا، بھوکے کُتے کی طرح میرے جسم کو بھنبھوڑ کر نیم مردہ حالت میں چھوڑتا، مسلسل چار سال تک میں جس عذاب سے دوچار رہی ہوں، یہ میرا اللہ ہی جانتا ہے، سڑوک لگاتے ہوئے میری شرم گاہ پر حقارت سے تھوکتا، میرے گالوں کو اپنے زخم خوردہ ہاتھوں سے کھینچ کر تمانچے مارتا، میرے پستانوں کو دانتوں سے کاٹ کر "م" کا نشان بناتا اور کہتا کہ یہ وہی "م" ہے جسے تم چاہتی تھی جو تمہارے جسم کے لمس سے محظوظ ہونے کے بعد ذبح ہونے کے لیے تمہیں میرے حوالے کر گیا۔

تمہیں اندازہ ہے کہ اُس جانور نے میرے ساتھ کس قدر زیادتی ہے، وہ شخص ہر رات مجھے برہنگی کی سُولی پر ٹانگ کر میرے ننگے بدن پر کوڑے برساتا، تمہارا نام لے لے کر کہتا کہ کہاں ہے تمہارا یار، بلاؤ اُسے تاکہ میں بھی تو دیکھوں کہ وہ کتنا مرد ہے، اپنی محبوبہ کو میری نیچے بے بسی کے عالم میں رینگتا دیکھ کر اس کا خون کھولتا ہے یا نہیں۔ شادی کے اوائل دنوں اُس نے دن رات کا فرق ختم کر ڈالا تھا، گھر کا کوئی فرد اُسے سمجھانے والا نہ تھا، جنسی تلذذ کے حصول کے لیے زمانے بھر کے پورن اسٹائل اُس نے مجھ پر آزمائے اور ہر قسم کی ادویات کا استعمال کرکے میرے جسم کی کومل اور نرمل زمین کو بنجر بناڈالا۔

میں نے اُس کے سامنے ایک لفظ زبان سے نہیں نکالا، میں نے اپنے جسم کواُس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ جس طرف سے جیسے چاہے، اِسے کاٹے، بھنبھوڑے اور چھید کرتا چلا جائے۔ میری آہیں آسمان چیر سکتی تھیں لیکن میں نے ہونٹوں کو مقفل کر لیا تھا کہ اس جُرم میں برابر کی میں خود بھی شریک تھی ورنہ اُس کی کیا مجال کہ وہ مسلسل چال سال مجھے خاوند کے روپ میں گینگ ریپ کا دنگل بپا کیے رکھا۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، ویزہ آنے پر وہ باہر چلا گیا اور میری اُس جانور سے جان چھوٹ گئی۔ برسوں کی ریاضت سے سسرال کو اعتماد دلا کر گھر کی قید سے سودا سُلف لانے کی رہائی ملی ہے اور آج تمہیں سامنے دیکھ کر ہڑبڑا گئی، سوچنے لگی، دُنیا اتنی مختصر بھی ہو سکتی ہے کہ دو لوگوں کے درمیان سمٹ کر رہ جائے۔ تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا، تمہارے جیسے مرد پیار محبت کی باتوں میں بہلا کر پہلے سبز باغ دکھاتے ہیں پھر بھروسہ جیت کر مفت ہاتھ آئے جسم کو مذبح خانہ بنا لیتے ہیں، جی بھر جانے کے بعد جسمِ بسمل کو بھیڑیوں کی نذر کر جاتے ہیں۔

ہم لڑکیاں ہی بے وقوف ہیں جو چکنی چُپڑی باتوں میں بہل کر چکر میں آکر خوشی خوشی سے اپنا جسم پیش کر دیتی ہیں اور عمر بھر کی بدنامی اور رُسوائی کا ٹیکا پیشانی پر سجا کر عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ میں تمہیں کوئی بددُعا نہیں دوں گی، میں نے اپنے بیٹے کا نام اس لیے محسن رکھا ہے تاکہ میں اس کی اچھی تربیت کرسکوں۔ میں اسے ایک اچھا انسان بناؤ گی، یہی میری آزمائش ہے اور میں اس آزمائش میں سُرخرو ہو کر اپنےکیے گناہوں کی رب تعالیٰ سے معافی کی التجا کروں گی۔

تم اور تم جیسے مرد میرے خاوند سے زیادہ بھیڑیے، درندے اور جسم خور ناسور ہو جن کی دسترس میں جانے کتنی معصوم لڑکیوں نے اپنے اجسام و قلوب کا نذرانہ دے خود کو بدنامی کی بھینٹ چڑھایا ہوگا۔ اب مجھے جانا ہے، میں اپنی بات کہہ چکی، ایک وعدہ کرو مجھ سے۔ کیسا وعدہ؟ آج کے بعد تم اس علاقے میں نظر نہیں آؤ گے، یہ میرے سسرال کی مارکیٹ ہے اور وہ مجھ پر نظر رکھتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میرے پیچھے اپنی ٹانگیں تُڑوا بیٹھو اور میرے لیے نئی مصیبت کا سبب بنو۔ میں تو محبت کی ماری لڑکی تمہاری دسترس میں آگئی تھی جو کچھ نہ کر سکی لیکن یہ مرد ہیں اور مرد، مرد کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کا علاج کیسے کرنا ہے۔

ایک بات یاد رکھنا، محبت پر مجھے اب بھی اُتنا ہی بھروسہ، یقین اور اعتماد ہے جتنا تم سے پہلی بار مل کر ہوا تھا۔ محبت کو جسم کی بھینٹ چڑھانے والے خونخار درندوں کے لیے رب تعالیٰ اپنی زمین دراز کر دیتا ہے تاکہ وہ کھل کر اپنی درندگی کا مظاہرہ کر سکیں، ایسے درندوں کے لیے رب تعالیٰ نے حشر کا میدان میزان کر رکھا ہے۔

خوشی اِس بات کی ہے کہ تم ملے اور دُکھ اِس بات کا ہے کہ تم کیوں ملے۔ اچھا! خدا حافظ۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti