Monday, 08 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Professor Ahsan Mukhtar Malik Se Wabasta Yaadon Ki Roodad

Professor Ahsan Mukhtar Malik Se Wabasta Yaadon Ki Roodad

پروفیسر احسن مختار ملک سے وابستہ یادوں کی رُوداد

رب تعالیٰ نے دُنیا کو جس قدر حسین اور خوبصورت بنایا ہے، اس سے بڑھ کر اِس دُنیا میں بسنے والے انسانوں کو احسن تقویم کے معیار پر تخلیق کیا ہے۔ انسان زندگی کے نشیب و فراز میں کئی ایسے مقام سے گزرتا ہے، جہاں اس کا سابقہ انسانوں کے متلون مزاج رویوں اور فنی و فکری کمالات سے ہوتا ہے جن سے ان کی شخصیت عبارت ہوتی ہے۔

میری زندگی کا بیشتر حصہ مسافرت کے عالم میں گزرا ہے۔ تعلیمی مراکز سے دور اُفتادہ دیہہ رسول پور چک 5 میں جنم لینے کے بعد تعلیم کے حصول کی غرض سے پنجاب بھر کا سفر کیا۔ یہ سفر علم کے حصول سے زیادہ سیاحتی آوارگی کا باعث بنا۔ اس سفر میں ایسے ایسے خوبصورت اور ناقابلِ فراموش انسانوں سے ملاقات ہوئی جن کی مجموعی شخصیت نے دیر تلک متاثر کیے رکھا۔ تعلیم کے حصول کے بعد 2018 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے بطور لیکچرار منتخب ہونے کے بعد سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے گورنمنٹ گریجواٹ کالج ڈسکہ میں ڈیڑھ برس گزارا۔

لاہور میں جنوری 2011 سے فروری 2018 کے عرصہء قیام نے دل محلے میں بے چینی کا طلاطم بر پا کیے رکھا۔ ٹرانسفر کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جب کوئی راستہ ہموار نہ ہوسکا تو بیگم صاحبہ کے توسل سے یعنی ویڈ لاک کے ذریعے فروری 2019 میں گورنمنٹ شاہ حسین گریجوایٹ کالج چوہنگ ملتان روڑ میں تبادلہ ہوا۔ اس وقت پروفیسر احسن مختار بطور پرنسپل اس کالج میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔

پہلی ملاقات میں ان سے مل کر یوں لگا جیسے کسی دیرینہ دوست سے ملاقات ہوگئی ہے۔ شاہ حسین کالج کی تاریخ پڑھنے اور اساتذہ سے کالج کی قدیم روایات کا ذکرِ خیر سُن کر دل باغ باغ ہوگیا۔ چوہنگ ملتان روڑ سے میری نسبت اگرچہ بہت پرانی ہے کہ پھوپھو کا گھر ہونے کی وجہ سے میرا بچپن یہیں گزرا ہے، اس لیے اس علاقے سے نسبتِ اُلفت قدیمی ہے۔

شاہ حسین کالج کا تدریسی ماحول اور اسٹاف کا باہمی تعلق مثالی اور لائقِ تقلید ہے۔ یہاں آکر یہ احساس ہوا کہ شاہ حسین فقیر کی متصوفانہ فکر کا عملی مظہر اس کالج کی چار دیواری میں جلوہ گر ہے۔ پروفیسر احسن مختار وجیہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے چہرے پر نیم مسکراہٹ متبسم رہتی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر تعلیمی، معاشرتی، سماجی اور ادبی موضوعات تبادلہ خیالات کرنے کے بعد محسوس ہو ا کہ یہ شخص اپنی ذات کے جملہ منفی داعیات سے ماورا تعمیری نکتہ نظر کا حامل انسان ہے۔

اسے فرق ہی نہیں پڑتا کہ مخالف نکتہ نظر رکھنے والا ان کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ یہ شخص اپنی ذات میں ایک دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ بطور پرنسپل کالج ہذا کے لیے ان کی خدمات مدتوں یار رکھی جائیں گی۔ شاہ حسین کالج نے ایک طویل عرصہ کرائے کی عمارات میں تدریس کے عمل کو جاری رکھا ہے۔ اس کالج کے بنیاد گزاروں میں ایسے ایسے معتبر اشخاص کے نام ہیں جن کے علمی و سماجی قدوقامت کا شہرہ تھا۔

شاہ حسین کالج 2018 میں موجودہ ایم این اے افضل ملک کھوکھر کی خصوصی کاوش سے گورنمنٹ ہائی سکول چوہنگ ملتان روڈ کی عمارت سے متصل گراونڈ میں میں تعمیر شدہ نئی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے۔ چوہنگ سے متصل دیہات کے نوجوان میٹرک کے بعد ٹاون شپ کالج، ایم اے او کالج، سائنس کالج وغیرہ میں پڑھنے کے لیے روزانہ جاتے تھے جس سے نہ صرف ان کی پڑھائی متاثر ہوتی تھی بلکہ دن کا دو تہائی وقت کالج سے گھر اور گھر سے کالج آنے جانے میں صرف ہو جاتا تھا۔

شاہ حسین کالج کے پہلے سیشن 2018 میں بمشکل تیس کے قریب بچوں نے داخلہ لیا تھا۔ پروفیسر احسن مختار صاحب کی خصوصی کاوش سے اس کالج میں داخلہ کی باقاعدہ تشہیر کی گئی۔ احسن مختار صاحب بذاتِ خود ملتان روڑ سے متصل دیہاتوں اور مضافاتی آبادیوں اور ہاوسنگ سوساٹیز میں اساتذہ کے ہمراہ جاتے رہے اور والدین کو کالج میں داخلہ لینے پر قائل کرتے رہے۔

پروفیسر احسن مختار صاحب نے مستحق بچوں کے لیے وظائف سمیت کتابوں، یونی فارمز اور سالانہ فیس کی مد میں لاکھوں روپے اپنی جیب سے خرچ کیے تاکہ کالج کو کامیابی سے چلا یا جاسکے۔ فروری 2019 سے لے کر ہنوز اس کالج کے نظم و نسق کو پروفیسر احسن مختار صاحب نے بطور پرنسپل عمدہ طریق پر چلایا۔ آج اس کالج میں چھے سو کے قریب بچوں کی تعداد ہے۔ یہ کالج پہلے ایسوسی ایٹ کے درجے پر تھا۔ پروفیسر احسن مختار کی کاوش سے یہ کالج دو ماہ قبل گریجوایٹ کے درجے پر ترقی کر چکا ہے۔ اس کالج میں بی ایس، کمپیوٹر سائنس، بی ایس اُردو، بی ایس انگلش اور بی ایس کامرس میں باقاعدہ داخلے کا عمل جاری ہوچکا ہے۔

اس کالج کے قیام سے ملتان روڈ سے متصل مانگا منڈی سے لے کر ٹھوکر نیاز بیگ تک کا علاقہ فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ کالج لاہور کے معروف کالجز میں اپنے شمار کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگا۔ پروفیسر احسن مختار کی شخصیت متاثر کن ہے۔ ان کا اندازِ گفتگو پُر اثر اور دل آویز ہے، ان کا ادبی ذوق اپنے اندر گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔

پروفیسر احسن مختار واربٹن ضلع ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے لاہور کے معروف تعلیمی درس گاہوں سے تعلیم کی تحصیل کی ہے۔ 1996 میں بطور لیکچرار انگلش ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو جوائن کیا۔ پروفیسر احسن مختار نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کے بوتے پر جلد ہی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطو ر سیکشن آفیسر اپنی خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں ننکانہ صاحب کے ڈپی ڈائریکڑ کالجز بھی رہ چکے ہیں۔ 2022 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے تقرر کے بعد 2024 کے اوائل میں ایڈیشنل ڈپی آئی کالجز پنجاب کے عہدے پر بھی براجمان رہے۔ نیز ڈائریکڑ کالجز لاہور ڈویژن کا اضافی عہدے پر تعینات رہنے کے بعد 06 دسمبر2024 ریگولر حیثیت سے ڈائریکٹر کالجز لاہور ڈویژن ان کا تقرر ہو چکا ہے۔

پروفیسر احسن مختار کا شاہ حسین کالج سے تعلق مارچ 2018 سے دسمبر 2024 تک رہا۔ اس قیام کے دوران کالج کی ترقی کے لیے انھوں نے اپنی لاثانی خدمات پیش کی ہیں۔ شاہ حسین کالج میں ان کے قیام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور ان کی کامیابی کے لیے دُعائیہ کلمات کا خراج پیش کیا ہے۔ کالج کے معاملات میں کہیں نہ کہیں انتظامی امور سے متعلق غفلت کی شکایت عام طور سے سربراہ ادارہ رہا کرتی ہے لیکن پروفیسر احسن مختار کے لیے کالج کے جملہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ سے منفی تاثر سے عبارت گفتگو سُننے کا موقع نہیں ملا۔

انفرادی حیثیت سے دیکھا جائے تو پروفیسر احسن مختار نے مجھ راقم پر ہمیشہ محبت، پیار اور بڑے بھائی کے احساس کا ہاتھ رکھا۔ راقم کی زندگی میں کئی صبر آزما مراحل ایسے آئے کہ جہاں اپنوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن یہ شخص راقم کے لیے نہ صرف ڈھال بن کر ساتھ کھڑا رہا بلکہ دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح کی مدد اور ڈھارس کے لیے موجود بھی رہا۔

پروفیسر احسن مختار کی شخصیت سے متصل خواہ کتنا ہی مبالغہ کر لیا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں ان کے واقف کاروں اور میل جول کے اشخاص سے پوچھ لیا جائے تو مجموعی رائے ان کے بارے میں مثبت ملتی ہے۔ رب تعالیٰ انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی اور صلاحیت ضرور ودیعت کرتا ہے جسے تراش لینے سے انسان کے اپنے قد میں اضافہ ہوتا ہے اور عوام میں مقبولیت اور پذیرائی ملتی ہے۔

یہ شخص وجیہ شخصیت کا مالک ہے۔ ناقابلِ برداشت ماحول میں بھی اس شخص کے چہرے پر مسکراہٹ رقصاں دیکھی گئی ہے۔ ایک انسان اس قدر کیسے ہر دل عزیز ہوسکتا ہے، اس بات کا اندازہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُس انسان سے رُوبرو ملا جائے اور گفتگو کرنے سے تجزیہ کیا جائے کہ یہ شخص اپنی شخصیت اور کام کے اعتبار سے جس قدر مقبول ہے واقعتاً ا ُسی قدر مبنی بر حقیقت بھی ہے۔

دُنیا اچھے بُرے ہر طرح کے انسانوں سے بھری پڑی ہے۔ رب تعالیٰ نے ہر قسم کے اندازِ زیست کا اہتمام کر رکھا ہے۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسی چیز کا انتخاب کرتا ہے اور کون سے طریق ہائے زیست کو اختیار کرتا ہے۔ رب تعالیٰ نے کائنات میں موجود انسانی ضرورتوں کی تحصیل کو جہدِ مسلسل کے استقلال کے اُصول پر قائم کر رکھا ہے۔ جو جتنی محنت کرے گاہ، وہ اُتنا ہی پائے گا۔

انسانوں سے محبت کرنے والے خود محبت کے لائق بنا دئیے جاتے ہیں۔ معمولی انسانوں میں غیر معمولی انسانوں کی صفات مجتمع ہو جاتی ہیں۔ ایک عام انسان بعض دفعہ کسی کے لیے غیر معمولی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ دُنیا عالمِ امتحان ہے۔ یہاں ہر چیز امتحان کے نکتہ نظر سے ہی تخلیق کی گئی ہے۔ ایسے میں جب ہمت بندھانے والا اور ڈھارس دینے والا شخص آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو امتحان کی تیاری اور مقابلے کی سکت نہ ہونے کے باوجود انسان مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

رب تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس خوبصورت کائنات میں اس کے خوبصورت بندوں سے تعلق کو ہمیشہ ترجیح دینی چاہیے۔ یہ ایک سچے نرمل اور نفیس انسان کی شناخت ہے کہ وہ نیکی، سچائی، خیر اور مثبت روی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ پروفیسر احسن مختار مذکورہ اختصاص پر نہ صرف پورا اُترتے ہیں بلکہ اس وصف کا عملی نمونہ بھی ہیں۔ رب تعالیٰ انھیں جیتا اور سلامت رکھے۔ ان سے تعلیم کے احیا اور فروغ کے لیے وہ خدمات لے کہ جس سے ان کی آخرت کا سامان ہو جائے۔ آمین۔

Check Also

Dgispr Ki Taish Bhari Press Conference

By Nusrat Javed