Pakistan Ko Mayoos Mat Karen
پاکستان کو مایوس مت کریں
بھیا! کیلا فی درجن کس بھاؤ ہے؟ ایک سو بیس روپے درجن۔ آپ نے تو بورڈ 80 روپے کا لگایا ہوا ہے۔ 80 روپے والے کیلے کی لائن یہ ہے اور 120 روپے والی لائن یہ ہے۔ میں تو 80 روپے فی درجن کا بورڈ دیکھ کر رُکا تھا، اگر مجھے 120 روپے فی درجن ہی خریدنا تھے تو میں پیچھے دس ریڑھیاں چھوڑ کر تمہارے پاس کیوں رُکا تھا؟ پھل فروش میری بے بسی پر مُسکرایا اور کہنے لگا: صاحب! یہ کرنا پڑتا ہے ورنہ گاہک رُکتا نہیں ہے۔
میں نے کہا: دس پندرہ روپے کے فرق سے تم اپنی روزی کیوں حرام کرتے ہو؟ فرمانے لگے: صاحب! پورا ملک یہی کچھ کر رہا ہے، کیا سارا ملک حرام کما رہا ہے؟ بے حِسی سے معمور چبھتے سوال نے روح کو فگار کر ڈالا۔ میں نے کہا: یہ تو مجھے نہیں معلوم، البتہ اِتنا معلوم ہے کہ تم نے یہ حرکت فقط میرے لیے کی ہے۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہے جو آئے روز مجھ سمیت لاکھوں پاکستانی شہریوں کو پیش آتا ہے۔ سبھی اس معاملے سے گزرتے ہیں، جی میں بُرا محسوس کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھل فروش اس معاملے میں ماہرِ نفسیات ہوتے ہیں۔ اگر آپ موٹر سائیکل پر ہیں تو یہ جانتے ہیں آپ اپنی اکثر میں بائیک سے نیچے نہیں اُتریں گے، باتوں میں بہلاکر ایک کلو پھل میں ایک پاؤ خراب دانے ڈال کر پیار سے حوالے کریں گے اور آپ حکومتی پالیسوں اور سیاسی شخصیات کو بُرا کہتے ہوئے محترم سے از راہِ ہمدردی دس بیس روپے جو کم کروائے تھے وہ بھی چھوڑ کر کک لگاتے ہیں اور گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
گھر جا کر شاپر کُھلتا ہے، دو چار دانے خراب دیکھ کر پتا پانی ہو جاتا ہے اور رہ رہ محترم پر غصہ آتا ہے کہ باتوں میں اُلجھا کر مجھے بے وقوف بنا ڈالا۔ پھل فروش کو چالاکی دکھائی جائے تو یہ آپ سے مہا چالاک ثابت ہوتے ہیں۔ دراصل منڈی سے مال خریدتے ہوئے انھیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کس بھاؤ مال بیچنا ہے۔ اپنا منافع سب سے پہلے متعین کیا جاتا ہے، پھر فی کلو، کے حساب سے مال تول کر نکالا جاتا ہے، فروخت سے پہلے بازار کے سرکاری نرخ کا تجزیہ کرتے ہیں پھر تولے ہوئے مال کی اس طرح چھانٹی کرتے ہیں کہ بڑھیا مال ایک طرف، درمیانہ مال دوسری طرف اور گلا سڑا بائیں ہاتھ کے نیچےخاص جگہ پر رکھ لیتے ہیں تاکہ ایک ایک دانہ فی گاہک کے حساب سے نمٹا کر منافع کی شرح کو برقرار رکھا جائے۔
جائے پھل سے منڈی تک سفر کے دوران دس سے پندرہ فیصد پھل خراب ہو جاتا ہے، مزید دس فیصد دو چار دن پڑا رہنے سے خراب ہو جاتا ہے، مزید دس فیصد موسمی خرابی کی صورت دُکاندار کو جھیلنا پڑتا ہے۔ کُل ملا کر حساب ففٹی ففٹی رہتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مین شاہراروں پر پھل فروش افراد کی بیشتر تعداد وہ ہے جو روزانہ مال لاتے ہیں اور شام تک بیچ کر چلے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پھل فروشوں کے پاس اپنی ریڑھی، جگہ اور مال خریدنے کی اسطاعت بھی نہیں ہوت۔ یہ افراد ٹھیکے پر کام کرتے ہیں، انھیں دوہرا منافع کمانا ہوتا ہے نیز مفت خوروں اور دانہ اُچکنے والوں کے علاوہ سرکاری مال ہڑپ کرنے والے حکومتی ملازمین کے ہاتھوں لُٹ کر جیسے تیسے سارا حساب برابر رکھنا ہوتا ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ بظاہر جاہل ایک ان پڑھ پھل فروش ماہرِ معاشیات ہوتا ہے، اسے اکنامکس کے جملہ اُصول و ضوابط اور طریقہ کار کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ اپنے کام میں اتنا ماہر ہوتا ہے کہ بِکری نہ ہونے کے باوجود شام تک خراب ہونے والے مال کو ہر صورت فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ان پھل فروشوں سے رابطہ کرے تاکہ آئی ایم ایف کے وبال سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ یہ آپ کو حکومتی عہدوں پر براجمان تجربہ کار نالائقوں سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھا سکتے ہیں کہ سپلائی اور ڈیمانڈ میں کیسے توازن رکھنا ہے، شرح منافع کی اُوسط کو کیسے بڑھانا ہے اور قرض کے درست استعمال سے کس طرح قرض کی ادائیگی کے ساتھ مزید قرض نہ لینے کی مصیبت سے چھٹکار ا حاصل کرنا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ دس برس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والوں سے لے کر پرانے پاکستان کو مزید پرانا کرنے والے جملہ اصحاب نے سر توڑ کوشش کر لی ہے کہ ملک کی سمت کو درست حالت پر گامزن رکھا جائے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ہماری معاشی حالت روز بروز پتلی ہو تی جا رہی ہے۔
لگتا یوں ہے کہ ہمارے مستقل زوال کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے خرچے کم نہیں کرتی اور قرض لے کر قرض کی ادائیگی کر رہی ہے۔ جن اداروں کو تیس برس پہلے بند کر دینا چاہیے، انھیں مزید پچاس برس تک چلانے پر بضد ہے۔ جن اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہو چکیں وہاں ایسی پالیساں وضع کی جارہی ہیں جن سے ادارہ تو باقی رہے گا لیکن ملک باقی رہتا دکھائی نہیں دیتا۔
یوٹیوب کی پوڈ کاسٹ سُن لیجیے، مین اسٹریم میڈیا ٹاک دیکھ لیجیے، اخبارات میں آرٹیکل اور کالمز کا مطالعہ کر لیجیے، تجربہ کار اصحاب سے براہ راست بات کرکے دیکھ لیجیے۔ ہر شخص یہی کہہ رہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن حکومت ڈیفالٹ کو ڈکلیر نہیں کر رہی۔ ایک پھل فروش یہ جانتا ہے کہ ٹھیلا ٹھیکے پر لے کر دس ہزار قرض بیس فیصد سود پر اُٹھا کر منڈی سے مال لینا ہے اور اسے سرکاری نرخ پر فروخت کرکے اپنے بچوں کے لیے آٹا دال کا انتظام کرنا ہے، قرض چُکانا ہے، ٹھیلے کا کرایہ دینا ہے اور مشکل وقت کے لیے بچت بھی کرنی ہے۔
ایک پھر فروش میں اتنی عقل، سمجھ اور تجربہ ہے لیکن دُنیا کی ٹاپ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اکانومسٹ، چاٹرڈ اکاونٹنٹ وغیرہ جو مشیروں، وزیروں کی مسند پر بیٹھے حکومتی پیسے پر عیاشی کر رہے ہیں انھیں یہ علم، سمجھ اور تجربہ نہیں ہے۔ جب تک یہ تجربہ کار شخصیات حکومتی ایوانوں میں ہوتے ہیں تب تک خاموش رہتے ہیں اور سب اچھے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ جب یہ اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو ہر روز گلہ پھاڑ کر چیختے ہیں کہ ملک کا دیوالیہ نکل گیا ہے، ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا ہے، ملک برائے فروخت ہو چلا ہے۔
ایک وطیرہ عجب اس ملک میں چل پڑا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے مرکزی سربراہوں کی شان میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے قصیدے پڑھے جاتے ہیں جن میں واسوخت ایسی تذلیل نما مدحت دکھائی دیتی ہے۔ باجوہ صاحب نے یہ کر دیا، باجوہ صاحب نے وہ کر دیا، جسٹس ثاقب نثار نے یہ کر دیا، وہ کر دیا، نئے پاکستان والے نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ اب ہم مذہب ممالک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے وغیرہ وغیرہ۔
بھیا! ایک بات بتاؤ، ابھی جنرل عاصم منیر صاحب چیف آرمی کی کرسی پر موجود ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کی مسند پر براجمان ہیں اور جناب شہباز شریف صاحب بھی تختِ پاکستان پر متمکن ہیں۔ ان کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا پر اور شوشل میڈیا پر آکر کیوں یہ نہیں کہتے کہ ان تینوں نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہ لوگ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ یہ ملک کو دیوالیہ کرکے چھوڑیں گے۔ انھوں نے ہمیں آئی ایم ایف اور امریکہ کے ہاتھوں ملک کو کوڑی کے بھاؤ بیچ ڈالا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان کے بارے میں زبان کھولتے ہوئے کیوں پھٹتی ہے؟ ان کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت کے چِھن جانے کا خوف کیوں لاحق ہے؟ ان کے ہوتے ہوئے تمہارے پاس ان کے عزائم کے خفیہ راز کیوں زبان سے نہیں پِھسل رہے؟ ان کے ہوتے ہوئے کسی کی چڑیا، چڑیل، مور، ہاتھی، خلائی مخلوق تک رسائی اور حالتِ خواب میں نظر آنے والی بصیرت کی پیشن گوئیاں کیوں طشت از بام نہیں ہوتی؟
سادہ اور آسان بات یہ ہے کہ اس ملک کو کسی ایک شخص، گروہ، جماعت اور جھتے نے نقصان نہیں پہنچایا۔ اس ملک کو اس میں رہنے والے ہر شخص نے نقصان پہنچایا ہے۔ پھل فروش سے لے کر ملک فروش تک سبھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم بڑے معصوم ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ فرائض کی انجام دہی میں ہم کتنے لاپروا، بے حِس، کاہل اور نکمے ہیں۔ یہاں ایک بندہ ایسا نہیں ہے جو اپنی اکلوتی شمع لے کر گھر سے نکلے اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کے سامنے اُس وقت تک کھڑا رہے جب تک کہ شمع گُل نہ ہو جائے۔
اپنے جرائم کا ارتکاب کرنے کی بجائے پوری قوم اس خبط کا شکار ہے کہ جو کچھ ہاتھ لگتا ہے لے اُڑو، کل کیا ہوگا، دیکھا جائے گا۔ پانچ، دس، بیس، پچاس افراد بُرے ہو سکتے ہیں، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کے باسیوں کو ان کے پیغمبر نے بار ہا سمجھا یا تھا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں نہ پکڑا کرو۔ اللہ تعالی نے اس دن کو صرف عبادت اور آرام کے لیے مقرر کیا ہے۔ بنی اسرائیل نے اپنے پیمبر کی بات کو نہیں مانا اور چوری چھپے سمندر کنارے سوراخ کرکے مچھلیوں کا چوری چھپے شکار کرتے رہے۔ آخر وہ دن آیا جب اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی ان پر عذاب بن کر ٹوٹی۔ رب تعالیٰ بطور عبرت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے یہ پیغام واضح کر دیا کہ جو حد سے تجاوز کرے گا، بندر بنا دیا جائے گا۔
لگتا یوں ہے کہ ملک کے سربراہان جنھیں ہم نے سیاسی پیمبر کا درجہ دے رکھا ہے، اپنی قوم کو لوٹ مار، دغابازی، فریب اور دُھوکا دہی سے روکنے کی بجائے خود ان کے سہولت کار بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ رب تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی عذاب بن کر ہم پر ٹوٹ پڑے اور ہمیں بندر بنا ڈالے، ہمیں ملک کے استحکام اور اس کی سالمیت کے لیے ذاتی مفادات کو ترک کر نا ہوگا۔ باہمی ہم آہنگی سے ملک کی ترقی، خوشحالی اور فروغ کے لیے ہر قسم کی لوٹ مار، مکر فریب اور حق تلفی و ارتکازِ دولت کے جملہ ذرائع اختیارات کے استعمال سے اجتناب کرنا ہوگا۔
جس طرح سے ہم ایک دوسرے کو دو، دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، جیبیں بھر رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔ وقت کا یہ اختیار زیادہ دیر آپ کے پاس نہیں رہنے والا۔ دُنیا میں بڑی قومیں آئیں اور مٹ گئیں، ہماری کیا بساط ہے کہ مظلوم کی فریاد کے سامنے کھڑا ہو سکیں۔ اس ملک میں لاکھوں بچے روزانہ بھوکے سو رہے ہیں، ہزاروں معصوم عصمتیں لُٹ رہی ہیں، سیکڑوں باپ خود کُشیاں کر رہے ہیں اور ناجانے کتنے افراد جان کی بازی ہا ر کر بھوک کی اذیت سے جز وقتی نجات پاکچے۔ خدا کے لیے اس ملک کے باسیوں پر رحم کریں، مولانا حالی ؔنے درست کہا تھا: ؎
کسی قوم کا جب اُلٹتا ہے دفتر تو ہوتے ہیں مسخ اُن میں پہلے تونگر
کمال اُن میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر نہ عقل اُن کی ہادی نہ دین اُن کا رہبر
ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا تعیش میں جینا، نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بے ہوش رہنا دمِ نزع تک خود فراموش رہنا
حالت یہ ہے کہ اِس ملک میں کسی کو دوسرے کا احساس نہیں ہے، ہر شخص اپنی جگہ خود کو بے قصور اور مظلوم سمجھتا ہے۔ جس کے پاس چلے جائیں، جس سے بات کر لیں، یہی کہتا ہے کہ بھیا، میں تو لُٹ گیا، اگلے دن پتہ چلتا ہے فلاں ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خرید لیا ہے۔
مزے کی بات ہے کہ بھوکا بھی رو رہا ہے اور پیٹ بھرا بھی ٹسوے بہارہا ہے۔ کسی ملک کی مجموعی آبادی جب ناشکری ہو جائے، رب تعالیٰ کے مقابلے پر آجائے اور اس کے بنائے ہوئے نظامِ قدرت کے مخالف ہو جائے تو جبرئیلؑ کو حکم ہوتا ہے کہ بستی کو تباہ کرنے سے پہلے غار میں چھپے اُس عابد کو پہلے جا کر مارو جو برس ہا برس سے میرا نام تو پکار رہا ہے لیکن غفلت و شرک میں پڑی بستی کو یہ نہیں بتلاتا کہ تمہارا کوئی خدا بھی ہے جس کے آگے تمہیں سرنگوں ہونا ہے اور اُس کے حکم کی تعمیل کرنی ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں اپنے جملہ کرتوت کے تیور کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ غریب ہو یا امیر، ادنی ٰ ہو یا اعلیٰ، نیچ ذات کا ہو یا اعلیٰ نسب کا، سبھی پاکستانی ہیں، گورے کالے، ادنیٰ اعلی اور امیر غریب کی تفریق سے نکل کر ملک کے لیے قربانی دیجیے، خرچے کم کیجیئے، آسائشیں چھوڑ دیجیے، سادہ طرزِ زندگی اپنائیے، زوال کے خبط سے نکلیے، اپنے ایقان کو مضبو ط کیجیے۔ حکومت جیسی بھی ہے اس کی ٹانگیں مت کھینچیے، اسے چلنے دیجیے، گاڑی چلے گی تو رستہ کٹے گا اور منزل ملے گی۔ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں، ذرا مشکل وقت آن پڑا ہے تو ظالم بننے کی بجائے مسیحا بن جائیے۔
بہ حیثیت پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ ہم پہلے اپنے گھر کو بچائیں، اسے مضبوط اور مستحکم ہونے میں اپنا حصہ ڈالیں، لڑائی جھگڑا اور فتنہ فساد بعد میں کر لیں گے، جھوٹا سچا، چور اورڈاکو کا معمہ بھی سُلجھا لیں گے۔ پہلے گھر کو بچانا ہے، پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔ یاد رکھیے، یہ کسی ایک فرد، گروہ، جماعت اور جھتے کا کام نہیں ہے۔ یہ چھبیس کروڑ پاکستانیوں کا اجتماعی فرض ہے۔ اپنے فرض سے غافل نہ رہیے، خدا کے لیے آگے بڑھیے اور اپنا حصہ ڈالیے۔ یہ ملک ہمیشہ رہنے کے لیے بنا ہے، اسے ہمیشہ رہنے کے لیے آج آپ کی ضرورت ہے، اس ملک کو اپنے چھوٹے سے حصے اور قربانی سے مایوس مت کیجیے۔