Nojawan Mulk Kyun Chor Rahe Hain?
نوجوان ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
کافی دن سے میری بات نہیں ہوئی تھی۔ دو ماہ بعد اُس کا فون آیا۔ پتہ چلا کہ باہر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ میاں! باہر کیوں جانا ہے۔ امسال پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ پاکستان کے صفِ اول کے نجی ایجوکیشن برانڈ میں پڑھا رہے ہو۔ تنخواہ بھی معقول ہے۔ باہر جا کر کیا کرو گے۔ اولاد جوان ہو رہی ہے۔ اب ذمہ داری کا وقت ہے اور تم دُم دبا کر باہر بھاگنے کی تیاری کر رہے ہو۔ صرف پیسوں کے لیے جانا چاہتے ہو۔ پیسے تو یہاں بھی ضرورت سے ذرا کم یا زیادہ کما ہی لیتے ہو۔
میرے ختم نہ ہونے والے سوالات کے درمیان حائل ہو کر اُس نے کہا کہ بس یار! اس ملک سے جی بھر گیا ہے۔ میں اس نظامِ معاشرت اور کارِ سیاست سے تنگ آگیا ہوں۔ تین بچے ہیں۔ والدین کے ہمراہ رہتا ہوں۔ لاکھ روپیہ ماہوار کماتا ہوں۔ اس کے باوجود گھر کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی۔ مہنگائی دیکھو! کہاں جا رہی ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ نے ہر چیز کو تلپٹ کر دیا ہے۔ لاکھ روپے سے کیا بنتا ہے۔ بچوں کا دودھ، خوراک، کتابیں، فیس اور کپڑے بھی پورا نہیں ہو رہے۔ سرکاری سکولز میں فیس کم اور پڑھائی صفر ہے۔ نجی سکولز میں بیس ہزار تین بچوں کی فیس ہے۔ کتابوں اور دیگر تعلیمی اخراجات کی مد میں ہر ماہ پچاس ہزار بچوں پر صرف ہو جاتا ہے۔ گاڑی فروخت کرکے بائیک خریدی تھی۔ اب بائیک کا پٹرول پورا نہیں ہورہا۔ لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے کالج آتا جاتا ہوں۔
میں نے پوچھا کہ اللہ نے سب کچھ تو دیا ہے۔ یہ جزو قتی حالات کی خرابی ہے جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تم اس طرح دل برداشتہ ہو کر اتنا بڑا فیصلہ نہ لو۔ پڑھے لکھے اور محنتی انسان ہو۔ یہی رہو اور ملک کی خدمت کرو۔ اُس نے جواباً جھلا کر کہا کہ ملک گیا بھاڑ میں۔ تم مجھے بتاؤ کہ میں نے پچیس برس محنت کی اور تعلیم مکمل کی اور پھر ہر طرح کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن لینےکے باوجود مجھے نظامِ سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ یہ دُکھ اپنی جگہ۔ میں نے اگر یہی وقت کسی ٹھیلے اور ریڑھی پر لگایا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ اُس کی ناامیدی اور بے بسی دیکھ کر میرا جی بھر آیا اور میں نے کہا کہ اچھا بھائی! تم باہر جاؤ۔ البتہ مجھے یہ بتاؤ کہ وہاں جا کر کیا کرو گے؟
اس عمر میں نہ وہ جوانی کی طاقت ہے اور نہ وہ حوصلہ اور ہمت کہ بھوک اورتنہائی برداشت کر سکو۔ یہاں تو ایک سلسلہ ہے جس سے روزگار وابستہ ہے۔ اپنا ملک ہے اور اپنے دوست عزیز خاندان ہے۔ بدیسی ملک میں تم اکیلے۔ وہاں بھی مہنگائی کا یہی عالم ہے۔ تم کیسے سروایو کروگے؟ اُس نے مجھے ایک لمبی منصوبہ بندی کی فہرست بتلائی اور کہا کہ پلان اے اور بی اور سی یہ یہ ہے۔ اگر کچھ نہ ہوا تو لوٹ کے بُودھو گھر تو آئیں گے۔
میں نے کہا کہ اچھا بھائی۔ میں تو یہی جیو گا اور مروں گا۔ ملک جہاں جارہا ہے شوق سے جائے۔ پچیس کروڑ میں دس کروڑ بھی یہاں رہ گئے۔ پھر بھی میں انھیں میں تم کو آباد ملوں گا۔ میں تو کہیں نہیں جانے والا۔ یہی دال دلیا کریں گے۔ بھوک بانٹیں گے۔ فاقے کاٹیں گے۔ اللہ اللہ کریں گے۔ اُس نے کہا کہ بھائی! تم یہ کر سکتے ہو۔ تمہارے لیے یہ سب سہنا آسان ہے لیکن میرے لیے نہیں۔ میں تو جا رہا ہوں۔ اور وہ چلا گیا۔ یہ ایک دوست کی کہانی ہے۔ گذشتہ چھے ماہ میں دس دوست ملک چھوڑ چکے۔ یہ تخمینہ ملک کی مجموعی آبادی پر لگایا جائے تو تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔
کسی کے کہیں کوئی جُوں نہیں رینگی۔ ریاست کے پروردہ کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ نوجوان نسل ملک چھوڑ کر جارہی ہے۔ اُن کا تاثر اس فعل پر یہی ملتا ہے کہ اچھا ہے۔ جانا چاہیے۔ ڈالر بھیجیں گے تو ملک کا ہی فائدہ ہوگا۔ یہ کیسا فائدہ ہے میرے محافظ و نگہبان و راہنما! یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ ملک کا قیمتی اثاثہ کوڑیوں میں بِک رہا ہے اور تم اِسے ڈالروں کی افزائش کا ذریعہ سمجھ رہے ہو۔ ان نوجوانوں نے جس تکلیف اور اذیت سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مظاہرہ یونان میں ڈوبنے والی کشتی سے تم نے واضح طور پر دیکھ لیا ہے۔
پاکستان کے ذہین اور قیمتی دماغ یونہی ملک چھوڑ کر بدیس جاتے رہے تو یہ ملک مجھ ایسے اناج کے دُشمن کے ہاتھ رہ جائے گا جسے ہر چیز چپاتی نظر آتی ہے اور کھانے کی دُھن سوار رہتی ہے۔ ملک کو کسی ڈیفالٹ کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ یہ سب سیاست کے ہتھکنڈے ہیں۔ الیکشن سے قبل چیزوں کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ لاقانونیت اور عدم تحفظ کے بیانیے راتوں رات جنم لیتے ہیں۔ ملک لوٹ کر بھاگے ہوئے عناصرمہمانِ ریاست ہو کر شان سے دیس بلوائے جاتے ہیں۔ ان کی آمد سے آن کی آن میں سب چیزوں کے بھاؤ گِر جاتے ہیں۔ ہر چیز پہلے سے زیادہ بتر اور اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ کیا تماشا ہے۔ تقسیم کے بعد ہم تیسری نسل ہیں جو اس تماشے کی زد میں ہیں۔ اب یہ تماشا بند ہونا چاہیے۔
روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگوا کر ہمارے والدین کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ شیر کی آمد نے ہم گدھوں کو گیڈر بنا دیا۔ اسلام کے نفاذ کی خواہش نے اسلام سے بیزاری پیدا کر دی۔ پاکستان میں کوئی ایک بیانیہ بتلائیے جو اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے تھا۔ اس میدانِ کارزار میں جو بھی آیا، اُس نے دامے درمے، قدمے سخنے اس ملک کے وسائل کو لوٹا ہے۔ انجام اِس کا شہید ہو کر یا دیس نکالا یا طبعی موت مر کر پردے سے غائب ہونے کی صورت ہوا ہے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نوجوان نسل کی صحیح طریق پر تربیت اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سے فائدہ لینا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ اچھا تماشا ہے کہ جو جاتا ہے جائے۔ ہمیں کسی کی پروا نہیں۔
تقسیم کے بعد سے اب تک کروڑوں کی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑ چکے۔ پچھتر برسوں میں ان جانے والوں میں سے دو فیصدی تعداد بھی واپس نہیں آئی۔ ظاہر ہے جہنم میں سڑنے کے لیے تو انھوں نے محنت نہیں کی ہے۔ جو ملک جتنا بھاؤ لگاتا ہے وہاں یہ گاجر مولی کی طرح بکنے کے لیے قطار اند قطار کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اگر کوئی شک ہے تو ذرا پاسپورٹ اور ویزہ دفتر کا چکر لگائیے۔ دیکھیے! پاکستان سے بیزاری اور نفرت کس قدر ان درخواست گزاران کے چہروں پر دہکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس خام مسالہ کو تیار تو اس ملک نے کیا ہے لیکن اس کو استعمال کوئی اور کرے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ان جانے والوں کے لیے راہیں ہموار کیجیے۔ انھیں مواقع دیجئے۔ ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ لینے کے لیے طویل المدتی اقدامات کیجیے۔ محض ڈالروں کے حصول کے لیے نایاب اذہان کو بے مول فروخت ہونے کے لیے کُھلا مت چھوڑئیے۔
ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جسے اپنے بچوں کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے جان سے جانا پڑے تو عار محسوس نہیں کرتی۔ یہ کیسی ریاست ہے جسے کسی کے جانے اور کبھی لوٹ کر نہ آنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ اگر ریاست کو اس بات کا فر ق نہیں پڑتا تو پھر یہ فرق ایک دن عذاب بن کر، انہونی بن کر اور کرتوت کی عملی شکل دھار کر سامنے آئے گا اور ہر چیز کو نیست و نابود کرکے چلا جائے گا۔ دُنیا تمہاری بربادی کی داستانیں لکھے گی اور اپنی نوجوان نسل کے سامنے بطور عبرت پیش کرے گی۔