Mere Gaun Ki Ishqia Kahani
میرے گاؤں کی عشقیہ کہانی
کالج جانے میں کچھ دیر باقی تھی، گھر میں کچھ نہیں بنا تھا، لسی میں گُڑ ڈالا، ایک سانس میں پورا مگ پی کر بستہ اُٹھایا، دوڑتے ہوئے گھر سے باہر نکلا۔ میرے قدم ابھی گھر کی دہلیز پر تھے کہ گولی چلنے کی آواز آئی۔ میں خوف کے مارے سہمہ گیا، گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا، کچھ سمجھ نہ آسکا کہ گولی کس نے چلائی ہے۔ اِتنے میں چیخ سُنائی دی اوئے لوکو! مینوں بچاؤ میں مر گیا جے (لوگوں ! مجھے بچاؤ، میں مر گیا ہوں)۔ آس پاس والے لوگ مکھیوں کی طرح گھروں سے باہر نکلے، آن کی آن میں سیکڑوں لوگ بازار میں جمع ہوگئے۔ پتہ چلا کہ کالی ٹھگ نے جیدے لوہار کو گولی ماری ہے لیکن وہ بچ گیا ہے کیوں کہ دوسری گولی چینبر میں پھنس جانے سے جیدا فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
بات پر بات چلی تو پتہ چلا کہ جیدا مائی رفعیہ کی چھوٹی بیٹی چھندو سے عشق کرتا ہے، چھے سال سے دونوں ایک دوسرے کے لیے مر رہے ہیں۔ جیدے نے کئی بار اپنی ماں رشیدہ کو مائی رفعیہ کے گھر رشتے کے لیے بھیجا ہے لیکن مائی رفعیہ کے بیٹے اور خاوند کسی صورت رشتہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ مائی رفعیہ کا خاوند کہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا بال بھی نہیں دوں گا، چاہے مجھے اسے کاٹ کر کُتوں کے آگے ڈالنا پڑے۔ چھندو کو دن رات کلموہی، حرامی، کُتی، دلی، کمینی، بے غیرتی کے القابات سے نوازا جاتا تھا، دن میں دو چار بار بہانہ بنا کر کبھی بڑی بہن مارتی اور کبھی بھائی ہاتھ صاف کرتے۔ پہلے تو چھندو آگے سے برابر جواب دیتی تھی پھر آہستہ آہستہ خاموش ہوگئی۔
اب تو وہ بالکل خاموش ہو چکی تھی، کسی کی بات کا جواب نہیں دیتی تھی، ہر وقت گُم سُم یہاں وہاں پڑی رہتی تھی۔ سارا دن گھر کے کام کرتی، کسی کے آگے زبان کھولنا تو دور، جیدے سے بھی ملنا اِس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس بدلاؤ کے باوجود مائی رفعیہ کے گھر والے اسے کوستے رہتے تھے کہ یہ میسنی چُپ ہو کر کوئی بڑا کانٹ کرے گی اور ہمارا منہ کالا کروائے گی۔ جیدے سے چھندو کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ جیدے کے گھر والے بھی چھندو کا رشتہ لینے کو تیار نہ تھے لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انھیں اکلوتے بیٹے کی خواہش کے آگے مجبوراً ہتھیار ڈالنا پڑے۔ جیدے کی چار کزن اس سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھیں لیکن وہ کسی کو منہ نہ لگاتا تھا اور کہتا تھا تم چاروں چھندو کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو۔ کچھ روز سے چھندو بیمار رہنے لگی تھی، جیدے کو چھندو کی حالت کا لمحہ بہ لمحہ پتہ ملتا رہتا تھا۔ کالی چھندوکے تایا کا بیٹا تھا جو چھندو کو بہت چاہتا تھا، بچپن سے ان کی منگنی بھی ہو چکی تھی۔ چھندو کالی کو پسند نہیں کرتی تھی۔
کالی ایک نمبر کا حرامی لڑکا تھا جس کا کام کلیوں کو چٹکنے کے سواد کی لت پر لگانا رہتا تھا۔ اس کی نظر باغ کی ہر کونپل پر تھی جس پر بہار آتے ہی اس کے خزاں رسیدہ ہاتھ پڑتے اور وہ مرجھا کر ٹُنڈ کی شکل اختیار کر لیتی۔ چھندو نے ایک دن بھرے بازار میں کالی کو اس بات پر تھپڑ مارا تھا کہ تمہیں میرے جسم کی بھوک ہے اور میں تمہیں اپنے پاؤں کی خاک بھی منہ پر ملنے کے لیے نہیں دوں گی۔ کالی کی بھرے بازار میں رُسوائی پورے گاؤں میں بریکنگ نیوز کی طرح پھیل چکی تھی۔ آج تک کسی بھنورے اور شگوفے کو کالی کے آگے پھن پھیلانے کی جرات نہ ہوئی تھی اور یہ کلموہی اس کی غیرت کو سرِبازار بدنام کر گئی۔ کالی کو اس بات کا قلق تھا، اب اس کی خواہش تھی کہ چھندو کی آنکھ کے حیا کو پامال کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ایک دن کالی سہ پہر کے وقت مائی رفعیہ کے گھر گیا اور مائی رفعیہ کو اپنی چِکنی چُپڑی باتوں میں ورغلا کر بہلا لیا۔ مائی رفعیہ نے کالی کو چھندو کی راکھی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ چھندو یہ تماشا دیکھ رہی تھی، کالی نے چھندو کی طرف دیکھا اور اس کا یہ دیکھنا چھندو کو واضح کر رہا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، کالی نے ایک رات گامے پہلوان کی شادی میں سب کو شریک دیکھا، تنہائی سے فائدہ اُٹھا کر چھندو کے گھر زردہ چاول دینے کے بہانے آیا۔ چھندو گھر میں اکیلی تھی، سبھی شادی کے جشن میں شریک بھنگڑے ڈال رہے تھے، ڈھول کی تھاپ پر رقص جاری تھا، گاؤں بھر کے لونڈے لپاڑے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق ہلہ گلہ کر رہے تھے۔ کالی کو اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا، چھندو کو کالی کے آنے کی خبر ہوئی تو چھندو کو کھٹک گیا کہ آج اس کی خیر نہیں ہے۔
کالی نے گھر میں داخل ہوتے ہی دروازے کی کُنڈی مقفل کر دی، دبے پاؤں برآمدے میں آیا اور مائی رفعیہ کو پکارنے لگا۔ چھندو نے کہا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، تم کسی اور وقت آنا، اب یہاں سے جاو۔ کالی نے کہا: تم شادی میں نہیں جاؤگی، سب آئے ہوئے اور تم یہاں اندھیرے میں کس کی یاد میں آنسو بہارہی ہو۔ چھندو نے کہا: میں جس کے لیے آنسو بہاتی ہوں، تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔
کالی نے کہا: جیدا تمہیں کبھی نہیں مل سکتا، جیدا میری لاش سے گزر کر ہی تم تک پہنچ سکتا ہے، میں تمہارے کام آسکتا ہوں، اگر تم میری مدد کرو۔ چھندو نے کہا: میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟ کالی نے کہا: اپنے حُسن کی تاب میں مجھے جھلسا دو، میری پُور پُور میں اپنے جمال کی حدت اُنڈیل دو، میری رگ رگ میں اپنی دھڑکن کا احساس جگا دو۔ چھندو نے کہا: تو پاگل ہوگیا ہے، میں چھندو ہوں، کوئی لڈو پیڑا نہیں ہوں جسے تم خیراتی لنگر سمجھ کر نگل جاؤ گے، میں چھندو ہوں، تم مجھے جانتے نہیں ہو۔ کالی اور چھندو میں یہ بحث جاری تھی کہ مائی رفعیہ نے دروازہ کھٹ کھٹایا۔
دونوں کے ہوش اُڑ گئے، چھندو نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، مائی رفعیہ نے چھندو کے پاس کالی کو کھڑے دیکھا تو ششدر رہ گئی۔ اُوے کالی! تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟ کالی نے کہا: بُوا! چھندو نے بلوایا تھا، کہتی ہے کہ مجھے تم سے کوئی کام ہے، مائی رفعیہ نے کہا! چھندو، تمہیں کالی سے کیا کام ہے؟ چھندو نے کہا: اماں! میں نے اِسے نہیں بلوایا، یہ خود زردہ چاول دینے کے بہانے گھر میں گُھس آیا ہے اور اب جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کہ تم آگئی۔
مائی رفعیہ نے زور دار تھپڑ چھندو کے گال پر رسید کیا اور کہا: بے غیرت، بے شرم، بے حیا، مجھے چکر دیتی ہے، میں تیری ماں ہوں، میں تمہیں جانتی ہوں، تو کیا کرتوت گھولنے کے چکر میں ہے، کالی تو میرے بیٹوں جیسا ہے اور تم اس پر الزام لگا رہی ہو کہ یہ تمہیں گندی نظروں سے دیکھتا ہے، اللہ تیرا منہ کالا کرے اور تمہیں جہنم میں جلائے، اری! کلموہی جس دن سے پیدا ہوئی ہے، میرے لیے عذاب بن گئی ہے، نہ مرتی ہے نہ جان چھوٹتی ہے۔ کالی پُتر! چل میرے ساتھ، اسے یہی پڑے رہنے دے، اس کے ابا سے بات کرنا ہی پڑے گی۔
اگلی صبح گھر میں خوب تماشا ہوا، چھندو کے بھائیوں نے اسے کالے چوروں والی مار ماری، اس کا دایاں ہاتھ توڑ دیا گیا اور ایک آنکھ پر زور کا مُکا پڑنے سے سوجھ کر پہاڑ بن گئی۔ لاتوں، مُکوں، گھونسوں، تھپڑوں کی برکھا میں چھندو نے جیدے سے محبت کے طعنوں کا ایسا برستا مینہ دیکھا کہ چھینٹ پڑے بغیر شرابور ہوگئی۔ جیدے کو اس بات کا پتہ چلا تو بھٹو گنجے سے تیس بور پستول لے کر کُتوں کی طرح کالی کو سونگھتا ہوا چھندو کے محلے آنکلا۔ کالی کو جیدے کے ارادے کی پہلے سے خبر ہوچکی تھی، کالی ڈب میں پستول رکھ کر گلی کے نکُڑ میں اُپلوں کے ڈھیر میں چھپا ہوا تھا۔
جیدے نے چھندو کے گھر کے سامنے آکر کالی کو للکارا اور کہا کہ اگر حلال کا تخم ہے کہ تو باہر نکل، آج پتہ چل جائے گا کہ کس میں کتنا دم ہے۔ کالی نے جیدے کو دیکھا اور سوچے سمجھے بغیر فائر کھول دیا۔ جیدے کی دائیں ٹانگ میں گولی لگی تو اس کی چیخیں نکل گئی، ہائے میں مر گیا، لوگوں، مجھے بچاؤ، پہلے تو کوئی ڈر کے مارے باہر نہ نکلا، کالی رفو چکر ہو چکا تھا۔ جیدا بازار میں بے ہوش پڑا تھا۔ چھندو نے روتے ہوئے بڑی بہن سے اپنے ہاتھ چھڑا کر بے اختیار چھت سے چھلانگ لگا دی، نیچے گِری، اُٹھی لیکن اُٹھ نہ سکی اور بے ہوش ہوگئی۔ لوگوں نے جیدے کو ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ تو جیسے کب کا مر چکا ہو۔ پورا گاؤں گولی کی آواز اور چیخ و پکار سُن کر اُمڈ آیا تھا۔ میری اماں نے مجھے کھینچ کر دروازہ بند کر لیا۔
میں نے اماں سے کہا کہ مجھے دیکھنے تو دو کہ جیدا مر گیا ہے یا بچ گیا ہے۔ اماں نے کہا: یہ ہمارے شریک ہیں، ہمیں کیا ضرورت پڑی کہ ہم جا کر ان کی مدد کریں، دفعہ کرو۔ میں دروازے کی دِرز سے باہر کے احوال کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اماں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور میں ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں اپنا زور لگا رہا تھا لیکن اماں کا ہاتھ تو جیسے ہاتھی کا پاؤں بن گیا تھا۔ جیدے کے دوست یار اسے بے ہوش چار پائی پر ڈال کر اس کے گھر لے گئے اور چھندو کے گھر والے چھندو کو اُٹھا کر حکیم فضل کی دُکان پر لے گئے۔ کالی کا کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں گیا۔
ایک ہفتے کے بعد چھندو کی طبیعت کچھ سنبھلی تو پتہ چلا کہ اس کی بائیں ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ دونوں عاشقِ صادق معذور ہو کر چارپائی پر لیٹے اپنے ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور کالی جیل میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہے کہ میں نے شادی کی رات چھندو کی آنکھ کے حیا کو شرمندہ کیوں نہیں کیا۔