Monday, 08 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Main Zulm Sehta Hoon, Baghawat Nahi Karta

Main Zulm Sehta Hoon, Baghawat Nahi Karta

میں ظلم سہتا ہوں، بغاوت نہیں کرتا

سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے، یہ کچھ دن بعد نیچے گرجائے گی، جس نے چڑھتی مارکیٹ دیکھ کر شئیرز خریدے ہیں اُس کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔ نہیں یار، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اب تو شرح سود بھی کم ہوگئی ہے اور عالمی سرمایہ داروں کا اعتماد بھی پاکستان پر بحال ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں، سٹاک مارکیٹ مزید اوپر جائے گی۔ مجھے یقین ہے ایک دو ہفتے میں ڈیڑھ لاکھ کا ہندسہ عبور کر جائے گی۔

ٹھیک ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ یار! یہ بتاؤ کہ خان کی پارٹی کا کیا بنے گا؟ کچھ نہیں، اس پھوڑے کا کیل نکل چکا ہے، فقط پیپ بہہ رہی ہے جو کچھ دن بعد ختم ہوجائے گی۔ پھر؟ پھر کیا! سمجھوتہ ہو جائے گا، وہی، کچھ دو اور کچھ لو والا آزمودہ فارمولا کام آئے گا۔ ایسا نہیں ہوگا، خان جب تک خود نہ ڈیل کرے، کچھ نہیں ہونے والا، انقلاب آکر رہے گا۔

چُپ کر یار، کوئی سُن نہ لے، پہلے ہی حالات بہت خراب ہیں۔ اب تو سیدھا گولی مارنے کے آرڈر ہیں۔ یار، تم لوگ کیا سیاست لے کر بیٹھ جاتے ہو، چلو کھانا شروع کرو، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ چائے پی کر رخصت ہو گئے۔

گزشتہ چھے ماہ سے ہر جگہ یہی کچھ سننے کو مل رہا ہے۔ مثلاً: "حکوت کب جاری رہی ہے، خان کب باہر نکل رہا ہے۔ خلائی مخلوق نے کب اپنا نیا بیانیہ لانچ کرنا ہے۔ مہنگائی کی شرح مزید کم ہو جائے گی۔ ڈالر کمانے کا بہترین موقع ہے۔ رئیل سٹیٹ میں پیسہ نہیں لگانا چاہیے۔ بٹ کوئن خرید کر رکھ لو۔ لائف انشونس حرام ہے۔ نوجوانوں کو غلط تاریخ پڑھائی گئی ہے۔ ڈس انفارمیشن کا بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی صحیح بات نہیں بتا رہا۔ سوشل میڈیا پر سب غلط اور بکواس بتایا جاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا بکا ہوا ہے۔ کالمز اور اخبارات میں چاپلوسی اور خوشامد کے سوا کچھ نہیں لکھا جا رہا۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ میں اپنے بچوں کو باہر سٹیل کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت پنشن اور دیگر مراعات ختم کر رہی ہے۔ آئندہ کسی کو سرکاری نوکری نہیں ملنے والی۔

پاکستانی کرنسی کا حال بہت بُرا ہے۔ میری بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا۔ میرا بچہ رات بھر جاگتا ہے اور صبح سویا رہتا ہے، میں اس کے لیے بہت پریشان ہوں۔ بڑے بھائی نے زمین سے حصہ نہیں دیا، میں اسے مارڈالوں گا۔ یار، ابا نے آج گھر سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ میرے پیسے دوست کے ساتھ کاروبار کرنےمیں ڈوب گئے ہیں۔ میں نے پورے سال میں ایک نیا سوٹ نہیں خریدا۔ بیوی نے تنگ کر رکھا ہے۔ باس کہتا ہے اس سال تنخواہ نہیں بڑھے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں۔ میں اب یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ میں تھک گیا ہوں۔ مجھے پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔

زندگی بکواس ہوگئی ہے۔ لائف میں کوئی مزہ نہیں رہا۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ دفعہ کرو، اپنا کام کرو۔ حلال کمائی میں گھر نہیں چل رہا، کچھ تو کرنا پڑے گا۔ بھئی، ایمانداری کی زندگی فلاپ ہوچکی۔ یار، مجھے نیند نہیں آتی۔ نہیں یار، میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں۔ سوچتا ہوں شہر چھوڑ کر گاؤں چلا جاؤں۔ کیا تم مجھے کچھ پیسے ادھار دے سکتے ہو، تمہارا یہ گھر کتنے کا فروخت ہو جائے گا۔ یار، میں سوچتا ہوں، گاڑی چینج کرلوں۔ تمہاری کسی سے واقفیت ہے۔ یار، میرایہ کام ہی کروا دو۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔ کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ دُنیا بھی کسی کی بنی ہے۔ میری تو پھٹی پڑی ہے۔ مجھے صبح اُٹھنے میں پریشانی رہتی ہے۔ یہاں کا پانی ٹھیک نہیں ہے، یہ لوگ اعتماد کے قابل نہیں ہیں۔ یہ علاقہ اتنا اچھا نہیں ہے۔ مجھ سے تو واش روم کی مرمت نہیں ہو رہی۔ یار، سردی بہت زیادہ ہے۔ میرا معدہ خراب رہتا ہے۔ یہ۔ یہ۔ یہ ہے ہے ہے۔

مذکورہ جملے آپ کسی بھی محفل میں بیٹھ جائیے، سننے کو ملیں گے۔ مجھ سمیت قریباً ہر شخص پاکستان کے حالات کے بارے میں ذاتی حالات سے زیادہ پریشان ہے۔ اکیسویں صدی کے آئی ٹی انقلابات نے دُنیا کو جہاں بے شمار آسانیاں فراہم کی ہیں وہاں ان گنت مسائل و تفکرات میں بھی مبتلا کیا ہے۔

اکیسویں صدی سے قبل ٹیلی ویژن کے علاوہ کوئی چینل نہ تھا۔ لوگ دن بھر کام کرتے تھے، کھانا کھانے کے بعد رات نو بجے آدھ گھنٹے کا خبر نامہ دیکھ لیتے تھے جس میں امن کی بلبل ہر طرف خوشحالی اور ترقی کی راگ الاپتی دکھائی دیتی تھی۔ دس بجے دو تہائی پاکستان آرام سے سو جاتا تھا اور صبح پانچ بجے اُٹھ کر اپنے اپنے روزمرہ کام میں مشغول ہو جاتا تھا۔ فراغت میسر آنے پر ہلکی پھلکی گفتگو میں سیاست و مذہب و مسلک کے نزائی و فروعی معاملات پر بحث ہو جاتی تھی اور سب اچھا کا کلمہ کہنے سے دُنیا کا نظم چلتا رہتا تھا۔ کسی کو کسی کی کوئی خبر نہ تھی کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے۔ کسی بندر کے ہاتھ ماچس تھی اور نہ کسی جنگل کے جل جانے کا خدشہ تھا۔

اکیسویں صدی کے ہیجان پرور دور میں کمپیوٹر کی آمد اور انٹرنیٹ کی ایجاد و سہولت نے پاکستانیوں کے اوسان خطا کر دئیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے موبائل نامی بلا، نے پاکستانی اذہان کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ دس پندرہ برس کے اندر وہ سب کچھ ہوگیا جس کی ہزاروں برس کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ آج ہر شخص کے پاس قریباً موبائل موجود ہے جس پر انٹرنیٹ کی مدد سے پوری دُنیا پر ہر وقت اس کی نظر رہتی ہے۔

معلومات کا کبھی نہ ختم ہونے والا ریلا انسانی سکون و طمانت کے جملہ ذرایع کو بہائے لیے جاتا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ جسے دیکھو، آنکھیں پھاڑے موبائل کی سکرین میں کچھ نہ کچھ ٹٹول رہا ہے اور ابنارمل ہوئے جاتا ہے۔ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں ایسے ایسے پیکج متعارف کرواتی ہیں کہ بندہ اور کچھ نہ کرے بس وہی کچھ دیکھتا رہے جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انسان موبائل کو سر عام چلاتے جھجھک محسوس کرتا تھا اور آج یہ حال ہے کہ جب تک پیکج اور بیٹری ختم نہیں ہوتی، موبائل ہاتھ سے چھوٹتا نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی نے پوری دُنیا کو گلوبل ولیج بنا ڈالا ہے۔ اب کسی ملک کی کوئی جداگانہ شناخت اور پہچان باقی نہیں رہی۔ ایک جیسے تہوار، پہناوے، کھانے، ملبوس اور اطوار ہو گئے ہیں۔ پاکستان، جاپان، چائنہ، سعودی عرب، فلپائن، کوریا، ویتنام، آسڑیا، گرین لینڈ وغیرہ میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی طرح کا لائف اسٹائل دیکھنے کو ملتا ہے۔

بہ حیثیتِ پاکستانی ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم اور ہماری عوام سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہے، حالاں کہ گلوبل ولیج کے عالمگیری اثرات پر ہونے والی تحقیق کی رپورٹس پڑھنے سے معلوم ہوا کہ پوری دُنیا سوشل میڈیا وار کے ہاتھوں پریشان ہے۔ آئی ٹی جہاں انسانی زندگی کو آسان تر کیے جاتی ہے وہاں انسانوں کی زندگی کو سراسر غیر فطری بنانے میں اہم کردار بھی ادا کر رہی ہے۔ ایلون مسلک ایسے شاطر اور چالاک اذہان پوری دُنیا کو غیر فطری اور مصنوعی اندازِ حیات پر لانے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں۔ سائنس کی ایجادات اور دریافتوں کا سلسلہ بھی اپنی جگہ ایک مصیبت بنا ہوا ہے کہ آٹھ دن بعد ایک ہی چیز کے ماڈل تبدیل ہو جاتے ہیں اور نئے ورژن آجاتے ہیں۔

ایک ہی چیز کی سیکڑوں قسمیں گاہک کے سامنے پڑی ہیں اور ہر چیز اپنی جگہ اپنی تخصیصی صفات بھی رکھتی ہے۔ بندہ کسے خریدے اور کسے نظر انداز کرے۔ یہ تو اکیسویں صدی کے سائنسی انقلابات کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ وہ ہے جس سے پاکستانی اذہان کو بُری طرح مفلوج کرنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا ذرائع کا منفی استعمال۔

سوشل میڈیا یعنی فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، یو ٹیوب، ایکس وغیرہ کے ذریعے پاکستانیوں کی ایک خاص مقصد کے تحت ذہن سازی۔ حکومتِ وقت سوشل میڈیا کا اپنے بیانیے کے دفاع میں بھرپور استعمال کررہی جبکہ اپوزیشن والے حکومت سے بڑھ کر زہرِ ہلال کو پھیلانے میں سرگرداں ہیں۔

ہر خبر بریکنگ نیوز ہے، دُنیا میں اگر کہیں مچھر مر جائے تو ہمارے ہاں طوفان بن کر یہ خبر شائع ہوتی ہے۔ ہمیں آج تک یہی نہیں سمجھا یا گیا کہ ہمارا اصل وارث اور بادشاہ کون ہے۔ جسے سُنو، کہتا ہے کہ ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ کہتے ہیں یہ ڈس نفارمیشن ہے، یہ ہمارے خلاف سازش ہے۔ یہ ہمارے لیے بارود کی سرنگ بچھائی گئی ہے۔ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن بھی عجب مذاق ہے۔ نوول ہراری کی کُتب پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس رجحان کے پیچھے کون سے طاقتیں کارفرما ہیں۔

ایوانِ حکومت میں تخت نشین برسر اقتدار صاحبان فرماتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہمیں اختیار ہی نہیں ملتا، ہم کیا کر سکتے ہیں ہم صرف مذمت کر سکتے ہیں۔ یہ صاحبان عالی وقار عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے موجودہ سربراہان کی تعریف و خوشامد میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اور ریٹائر ہونے والوں پر تنقیس و تنقید کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ جب تک بڑا آدمی بڑی کرسی پر براجمان رہتا ہے، کسی کو ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی بولے۔ مزے کی بات یہ کہ کرسی چھوڑ کرگھر جاتے ہی اُس کی پتلون تک اُتارنے کی کوشش کی جاتی ہےاور اپنی ہر ناکامی کا سہرا اس کی مداخلت کے سر باندھا جاتا ہے۔

ان کے جملے ملاحظہ فرمائیے۔: "یہ اچھا تھا، وہ اچھا نہیں تھا۔ یہ وفادار ہے، وہ غدار تھا، یہ محبِ وطن ہے، وہ غدارِ وطن تھا۔ میں نے کچھ نہیں کیا، دراصل میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا، یہ میر ےخلاف سازش ہے" وغیرہ۔

پاکستان میں چوبیس گھنٹے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پانچ سے دس الفاظ مسلسل دہرائے جاتے ہیں۔ مثلاً: پاکستان "ترقی" کر رہا ہے۔ پاکستان "مشکل دور" سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کا مستقبل "محفوظ ہاتھوں" میں ہے۔ پاکستان میں "خانہ جنگی" کی صورتحال قائم ہے۔ پاکستان کی معیشت "استحکام" کی جانب بڑھ رہی ہے۔ میں پاکستان کو ترقی کی "منازل" تک لے جاؤں گا۔ چین کی دوستی "کوہ ہمالیہ" سے بلند ہے۔ سعودی عرب ہمارا "بڑا بھائی" ہے۔ امریکہ کے ہم ہمیشہ سے "اتحادی" رہے ہیں۔ پاکستان "دہشت گردی" کے خلاف "مسلسل جنگ" لڑ رہا ہے۔ پاکستان کو "کچھ نہیں" ہوگا۔ ایک دن پاکستان دُنیا کو "لیڈ" کرے گا۔ انڈیا سے کبھی "تجارت" نہیں ہو سکتی۔ ہم ملک کے بارے میں "سنجیدگی" سے سوچ رہے ہیں وغیرہ۔

اس وقت پاکستان کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ پچاس برس کی دستیاب تاریخی دستاویز کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ آئی ایم ایف سے ناچتے اُچھلتے ہوئے قرض لیا ہے۔ پاکستان نے مشکل وقت میں ہمیشہ سعودی عرب کے پاؤں پکڑ کر ادھار مانگا ہے۔ پاکستان نے چائنہ سے ہمیشہ خوشامد کرکے مدد و حمایت لی ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے ہمیشہ حکومتی بدلاؤ کا اجازت نامہ وصول کیا ہے۔ پاکستان نے کبھی روس سے تجارت کی ہے نہ کبھی کرے گا۔ پاکستان نے انڈیا سے حالات کبھی معمول پر نہیں لانے۔ پاکستان نے اپنے دفاع کے لیے پانچ چھے دُشمن منتخب کرکے رکھنے ہیں۔ پاکستان نے ترقی یافتہ ملک بننے کی کبھی آرزو نہیں کرنی۔ دفاعی مضبوطی کے لیے ملک کے جملہ وسائل غیر مشروط معاہدوں کے تحت استعمال ہوتے رہیں گے۔

پاکستانیوں کو گزشتہ پچھتر برسوں سے یہی خواب دکھائے گئے ہیں، دعوے اور صرف دعوے ہی کیے گئے ہیں۔ آج ہمارے نوجوان پاکستان سے مایوس ہوتے نظر آتے ہیں۔ سات برس سے لے کر تیس برس کی عمر کے نوجوانوں سے پاکستان کے بارے میں بات کرکے دیکھ لیجیے۔ ان کے جملوں میں منافرت کی حد تک تلخی پائی جاتی ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ کسی دُشمنِ دیرینہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ بچے کس کے بچے ہیں؟ یہ کس کا مستقبل ہیں؟ ان کی جوانیاں اور صلاحیتیں کس کے کام آنی والی ہیں؟ ان کے مضبوط اجسام سے کس نے فائدہ لینا ہے؟ ان کے ارادوں اور حوصلوں سے کہاں انقلاب آسکتا ہے؟ ان کی مایوسی، نا اُمیدی اور نفرت کو کس نے ختم کرنا ہے؟

افسوس کا مقام یہ کہ اس دھرتی پر نفسانفسی کا راج ہے۔ ایک معمولی دُکاندار سے لے کر ملک کو چلانے والے سیٹھ تاجر تک سبھی اس ملک کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہیں۔ ہر شخص کو اس بات کا احساس اور یقینِ کامل ہو چکا ہے کہ اب کسی کے سہارے نہیں رہنا، خود آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔

گزشتہ دو برس میں بیس لاکھ کے قریب نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ جو نہیں جاسکتے وہ غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگا کر جانے پر مجبور ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہر تین چاہ ماہ بعد ایک کشتی ڈوب جاتی ہے، سیکڑوں پاکستانی نوجوان پانی کی نذر ہو جاتے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ حکومتی عہدداروں کی طرف مذمتی بیان آجاتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، مافیہ بہت مضبوط ہے، سب ملے ہوئے ہیں، ہم مجبور ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے بیانیات ہی دینے ہیں تو ہم میں اور آپ میں فرق کیا ہے صاحب!

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا کوئی رکھوالا نہیں ہے؟ کیا پاکستان اپنے جانشین اور وارث و محافظ سے محروم ہوگیا ہے؟ اس ملک کی چھبیس کروڑ عوام کا کوئی مونس و غم خوار نہیں ہے؟ سب کو اگر اپنی ہی پڑی ہے تو پھر رونا کس بات کا ہے؟ جیلیں کیوں، قانون کیوں، حکمرانی کی ہوس کیوں؟ مال جمع کرنے کی آرز و کیوں؟ بر سرِ اقتدار رہنے کی جستجو کیوں؟

بات گھوم پھر کر انقلاب پر آجاتی ہے کہ انقلاب ہی اس کا حل ہے۔ انقلاب کیسے آتا ہے؟ انقلاب ایسے آتا ہے جب غریب کو روٹی کے بدلے تھپڑ ملنے لگے، جب مزدوری کے بدلے گالی پڑنے لگے، جب تنخواہ کے بدلے سزا ملنے لگے۔ جب دُعا کے بدلے بددُعا پڑنے لگے۔ انقلاب تب آتا ہے جب رعایا کا اپنے حاکم پر اعتماد اُٹھ جائے۔ انقلاب تک آتا ہے جب عوامی رائے کو تبدیل کر دیا جائے۔ انقلاب تب آتا ہے جب مخالفوں کی نسل کشی کی جانے لگی۔ انقلاب تک آتا ہے جب بے حسی اور بے غیرتی، شخصیت کا تاج اور تعارف کا وقار بن جائے۔ انقلاب تک آتا ہے جب سُرخ خون کی گردش سے چہروں کی معصومیت سے الاؤ جھلکنے لگے۔

چلو، مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں ہر چیز کا فقدان ہے لیکن ایک چیز کی بہتات بہت زیادہ ہے۔ کہتے ہیں جب شیر گیڈروں کی کثرتِ افزائش سے بے نیاز ہو کر اکلوتے بیٹے کو گود میں لیے پھرے تو کثرتِ افزائش کا انبوہ تاراجِ تخت کا باعث بن جاتا ہے۔

یہ صرف ہمارا رونا نہیں ہے۔ اس وقت پوری دُنیا اپنے حکمرانوں سے بیزار ہے۔ کوئی کہیں بھی خوش نہیں ہے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی جگہ دوسرا سڑک پر نکلے، میری جگہ گولی کھائے اور میں اس کا جنازہ پڑھ کر ماتم سرائی کروں۔

خاموش ہو جانا، ظلم کے خلاف آواز نہ اُٹھانا، اپنے حق کے لیے سامنے نہ آنا ایک بے حِس اور شعور سے عاری مفلوج ذہن کی علامت ہے۔ باشعور ذہن اگر جمود کا شکار ہے اور حالات سے سمجھوتہ کرکے بغاوت کی تلوار کو مصالحت کی نیام میں رکھ کر غفلت کے بستر میں گہری نیند سویا ہے تو جگانے والا صدائیں دے دے کر اپنا گلہ پھاڑ ڈالے، کوئی نہیں جاگے گا، واللہ، نہیں جاگے گا۔

Check Also

Main Rauf He Hoon

By Rauf Klasra