Main Kali Muhabbat Nahi Kar Sakti
میں کالی محبت نہیں کر سکتی
رات کے بارہ بج چکے تھے، وہ میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اُسے تنہا پا کر میں دل ہی دل میں جانے کیا کچھ سوچ رہا تھا۔ وہ میرے ذہنی اِرادے سے بالکل بے خبر تھی۔ میں نے اُس کے قریب ہونے کی کوشش کی تو وہ میری نیت کو بھانپ کر بہانے سے سِرکی۔ اُسے نے درمیان میں بڑا سا تکیہ رکھا اور اُس پر اپنا بایاں بازو رکھ دیا۔ یہ لڑکیاں کتنی چالاک ہوتی ہیں، انھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کسی کی نیت خراب ہو چکی ہے، اس لیے اپنا دفاع کرنا ناگزیز ہوگیا ہے۔ یقینی حفاظت کا یہ اہتمام دیکھ کر میں نے اوٹ پٹانگ خیالات کو ذہن سے محو کرنے کی کوشش کی اور متوجہ ہو کر اُس کی باتیں سننے لگا۔
باتیں، باتیں، باتیں، بندہ کتنی باتیں سُنے۔ رات کے دو بج چکے تھے، میں اِسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ کسی طرح اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ لوں اور اُس کے بدن کا لمس محسوس کر سکوں۔ اللہ جانے اُس لڑکی کو میری اِس حرکت کا پیشتر علم کیسے ہوگیا۔ اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا جناب! آپ جو سوچ رہے ہیں وہ ممکن نہیں ہے، ہم صرف باتیں کریں گے اور کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے ذہن میں پکنے والے خیالی پلاؤ دم پر مت لگاؤ۔ متوجہ ہو کر میری باتوں پر غور کرو، مجھے تنہا پا کر کمزور مت سمجھو۔ اوٹ پٹانگ حرکتوں سے مجھے بہلا کر قائل کرنے کی کوشش بے کار ہے کیونکہ میں کالی محبت نہیں کر سکتی۔
میں نے یہ لفظ پہلے بھی سُن رکھا تھا اور اس کے مفہوم سے اپنے تئیں آگاہ بھی لیکن واقفیت کے پیشِ نظر میں نے اُس سے پوچھ لیا کہ یہ کالی محبت کیا ہوتی ہے؟ اُس نے جواب دیا: یہی جو آپ مجھ سے توقع کیے بیٹھے ہیں۔ میں نے پھر سوال دُہرایا کہ میں کس چیز کی توقع لیے بیٹھا ہوں؟ محترمہ نے فرمایا: یہی کہ چکنی چُپڑی باتوں میں بہلا کر مجھے جذباتی کرو گے پھر میرے ہاتھ کو بہانے سے تھپکی کی غرض سے اپنے ہاتھ میں لو گے، میری طرف سے مزاحمت نہ پا کر میرے گال کو چھونے کی کوشش کرو گے، پھر بات کالی محبت کے عملی دنگل تک پہنچ جائے گی۔ میں نے کہا: نہیں، نہیں ایسی بات نہیں، میں جسم کا بھوکا نہیں ہوں، میں تو بَہ حیثیتِ انسان، انسان کی توقیر کا قائل ہوں اور اُس کے ذہنی اور روحانی لمس کی خواہش رکھتا ہوں۔
محترمہ نے میری طرف سے غور سے دیکھا اور کہا: کتنی صفائی سے جھوٹ بول لیتے ہو، تمہارے بدن کی مسلسل رعشہ دار لرزہ خیزی اِس بات کا ثبوت ہے کہ مجھ سے کیا چاہتے ہو۔ سب سے پہلے خود کو ٹھنڈا کرو، ذہن سے فتور نکالو اور مجھے فقط ایک انسان کے تناظر میں دیکھو۔ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ اُسے مطمئن کر سکوں کہ میرے ذہن میں واہیات قسم کی اوٹ پٹانگ کوئی سوچ موجود نہیں ہے۔ آپ میری طرف سے بے فکر رہیں، میں اپنی حد جانتا ہوں اور خود کو قابو کی گرفت بھی رکھتا ہوں۔ محترمہ نے کہا: اصل بات یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان جنسی تسکین کے حصول کے لیے میاں بیوی کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں ہوسکتا۔
یہ جو دوستی، احترام اور باہمی تعاون سے رشتے شروع ہوتے ہیں یہ فکنگ پر جا کر ختم ہو تے ہیں، آہستہ آہستہ ایک شخص دوسرے کو اپنی نیت کے حصار میں چالاکی سے ڈھال لیتا ہے، غیر محسوس طریقے سے بے خبر بدن کو اپنی ہوس ناکی کاشکار کرتا ہے۔ جب ہوش آتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ عزت لُٹ چکی، منہ کالا ہوچکا اور اب پچھتانے کے سِوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ایک لڑکی کے لیے اپنی عصمت کو بچا کر رکھنا اِتنا ہی مشکل ہے جتنا کالی رات میں کالے پہاڑ پر کالی چیونٹی کو آنکھ سے دیکھنے کا دعویٰ کرنا۔
میں حیران تھا کہ یہ لڑکی سامنے بٹھا کر میری بے عزتی کر رہی ہے یا مجھے سمجھا رہی ہے اور یہ احساس دلا رہی ہے کہ جینڈر تفریق سے ماورا ہو کر فقط انسانی تناظر میں انسان کو دیکھنا چاہیے۔ میں بےبسی کے عالم میں سر جھکائے زمین پر رینگتے کیڑے کو دیکھ رہا تھا جو کافی دیر سے یہاں وہاں بھٹک رہا تھا۔ اُس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھے کہا کہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھو۔ میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ دل اُچھل کر باہر آجائے گا۔ اُس نے کہا: تمہارے دل کی یہ حالت کیوں ہے؟ میں نے کہا: آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ہے، اس لیے میرا دل دھڑکن کی اتنہائی بلندی پر دھڑکتا محسوس ہو رہا ہے۔ اُس نے کہا: میرے ہاتھ میں اور آپ کے ہاتھ میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔
میرے ہاتھ اور تمہارے ہاتھ میں فرق اِس بات کا ہے کہ میں لڑکی ہوں اور تم لڑکے ہو یعنی ہمارا جینڈر مختلف ہے۔ رب تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی بدنی، ذہنی، قلبی اور روحانی تکمیل کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ مرد عورت کو صرف جنسی تسکین کے لیے دیکھے گا اور ہوس پوری کرنے کی خواہش تک عورت کے تصور کو محدود رکھے گا تو اِس کا مطلب وہ کالی محبت کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ یہ کالی محبت طوائف سے ہو سکتی ہے، جسم فروش سے ہوسکتی ہے، گرل فرینڈ سے ہو سکتی ہے اور بیوی سے بھی ہوسکتی ہے۔ کالی محبت عورت کے بدن کو نہیں دیکھتی فقط شرم گاہ کو دیکھتی ہے اور شرم گاہ سے آگے نہیں سوچتی۔ یہ مسئلہ صرف مردوں کا نہیں ہے عورتیں بھی اس معاملے میں برابر کی شریک ہیں۔ عورت مرد کو کالی محبت کے تصور سے دیکھے گی تو اس کا مطلب وہ بھی کالی محبت کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہے۔
کالی محبت کا آغاز روحانی پیار کے دعویٰ سے شروع ہوتا ہے اور جنسی تسکین کی کالک منہ پر مَل کر انجام کو پہنچتا ہے، اس لیے میں تم سے کالی محبت نہیں کر سکتی۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مرد عورت کے درمیان ہر طرح کا تعلق اُستوار کیا جاسکتا ہے، یہ بکواس کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ دراصل یہ وہ زہریلے سانپ ہیں جو ڈستے ہوئے اپنا زہر شکار کے بدن میں چھوڑنا گوارا نہیں کرتے، یہ وہ بدنما دھبے ہیں جنھیں ہر سفید چادر کالی دکھائی دیتی ہے، یہ وہ کیڑے ہیں جو اناج کھانے سے پہلے اِس میں پیشاب کرتے ہیں، یہ وہ گندے انڈے ہیں جو اپنے اندر کی بدبو سے سارا عالم بدبودار کر ڈالتے ہیں۔
کالی محبت کے مرض میں مبتلا لڑکی اور لڑکا کسی کے لیے وفادار نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں یہ مسیحا بن کر معصوم ابدان کی بے رحم کتر بیونت کرتے ہیں۔ یہ معاشرے کے مجرم پہلے اور مذہب کے بعد میں ہیں۔ یہ ہر اُس معصوم کلی اور شگوفے کو ہوس ناکی سے زہر آلود کرتے ہیں جس نے شعور کی آنکھ سے دُنیا کو فقط حسین خواب کی مانند دیکھنے کی خواہش دبے دبے الفاظ میں کی ہوتی ہے۔ کالی محبت کے مرض میں مبتلا شخص دن دیہاڑے جسموں کو بھنبھوڑتا ہے، اس کے نزدیک عورت کا قد قامت، رنگ نسل، عمر، مذہب اور تشخص و تعارف صرف شرم گاہ ہے جسے بے رحم پھاوڑے سے چیر کرلِیر لِیرکرنے سے اسے سکون ملتاہے۔ کالی محبت کے مرض میں مبتلا ہونے والی لڑکیاں اور لڑکے مذہب و معاشرت کی جملہ اقدار و روایات او رحدودوقیود سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔
ان کے نزدیک شکار ڈھونڈ کر شکار کرنا اور پھر نئے شکار کی تلاش میں رہنا ہی اصل ازنِ حیات ہے۔ یہ لوگ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ان کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ وہ بولتی گئی اور میں چُپ چاپ سُنتا رہا۔ اُس نے میرا ہاتھ ابھی تک اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن نارمل ہوچکی تھی، جسم میں اُٹھنے والی برقی لہروں کا طلاطلم دم توڑ چکا تھا۔ میرا جسم اس قدر ٹھنڈا ہو چکا تھا کہ جیسے برف پر رکھا گوشت کا ٹکرا۔
اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا: مرد اور عورت کے درمیان مستقل اور دائمی ایک ہی رشتہ ہے اور وہ میاں بیوی کا ہے، اس کے علاوہ جتنے بھی رشتے ہیں وہ شرم گاہ کے حصول کے گھناؤنے ہتھکنڈے ہیں۔ تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو، میں بھی تمہیں اچھی لگتی ہوں، ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، اس چاہت کا یہ مطلب نہیں کہ میں تم پر فریفتہ ہر کر کالی محبت کے مرض میں مبتلا ہو کر معاشرے کے لیے ناسور بن جاؤں۔
ہمارا دین کہتا ہے کہ جہاں مرد عورت تنہا ہوں گے، وہاں تیسرا شیطان ہوگا اسی قباحت کے پیشِ نظر مرد وعورت کو تنہا ملنے، بیٹھنے اور ہنسی مذاق کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس روک کے پیچھے ہزاروں برس کی تجرباتی سٹڈی موجود ہے۔ دین حکمت سے معمور ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دین خود کو انسانی فطرت کا ترجمان قرار دے اور انسانی ضروریات کے بنیادی ماخذات سے انحراف بھی کرے۔
شرارتی لڑکے! خود کو دین کی فطری اِساس پر اُستوار کروگے تومحبت کے اصل تصور سے شناسائی ہو جائے گی۔ محبت کی اصل کیا ہے اور محبت اصل میں ہے کیا؟ اس کا پتہ تب چلتا ہے جب انسان خود کو فطرت کے سانچے میں ڈھلنے کی رضامندی ظاہر کرے۔ خدا نے محبت کے جس تصور کو دین کی اسِاس قرار دیا ہے وہ کالی محبت کی زہرناکی سے کوسوں دور کھڑی ہر ذی روح کی منتظر ہے کہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے آؤ! میرے پاس، میں تمہیں سکھاتی ہوں، اصل محبت کیا ہے اور محبت کی حقیقی لذت سے کیسے لطف اندوز ہو ا جاسکتا ہے۔