Main Dil Mein Rahoon Gi
میں دل میں رہوں گی
پہلی بار میں نے نکاح کے دن اُسے دیکھا۔ نکاح کی رسم کے بعد میری بڑی سالی نے ہم دونوں کو ایک چھوٹے سےکمرے میں بند کر دیا اور باہر سے کُنڈی لگا دی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ بیگم کے دل کا احوال مجھ پر واضح نہ ہوسکا۔ ابھی ہم شرم کے گہرے احساس میں ڈوبے ہوئے تھے کہ بجلی چلی گئی۔ کمرے میں تاریکی چھا گئی۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی۔ دو منٹ یونہی گزر گئے۔ میں نے ہمت کرکے سلام کہا اور بیگم نے دبی آواز میں وعلیکم السلام کہا۔
سلام کا یہ جواب اس قدر سُبک اور خفیف تھا کہ یوں محسوس ہوا جیسے دل کی اتھاہ گہرائی سے ایک مانوس احساس نے ہونٹوں کی جنبش میں پنہاں ہو کر مجھ سے کلام کیا ہو۔ باہر سے دستک ہوئی اور ہم دونوں پر جیسے کسی جھیل کا منہ زور جھرنا پھوٹ بہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کِیا جائے، اتنے میں بجلی آگئی اور میری نظر بیگم کے چہرے پر پڑی۔ یہ پہلی نگاہ تھی جو اُس کے چہرے پر ثبت ہو کر رہ گئی۔ میں نے ہمت کرکے اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اُس کے ہاتھ کا لمس محسوس کرنے کی کوشش کی۔ ڈرے، سہمے اور سراسیمہ سی کیفیت میں بیگم سے پوچھا کہ آپ کہاں رہنا پسند کریں گی۔ گاؤں میں یا لاہور میں۔ بیگم نے جواب دیا۔ میں آپ کے دل میں رہوں گی۔
میں نے کہا کہ دل میں تو انسان ہمیشہ رہتا ہے لیکن دُنیاداری کا تقاضا کچھ اور ہے۔ یہ بات ابھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ بڑی سالی صاحبہ نے باہر سے دروازے کی کُنڈی کھول دی اور کہا کہ بس! وقت ختم ہوچکا۔ ہم ایک دوسرے کو حسرت سے دیکھتے ہی رہ گئے۔ کچھ کہے بغیر نگاہ جھکائے کمرے سے باہر آگئے۔ میرے ذہن میں بیگم کے دل میں رہنے والی بات رہ رہ کر ایک تشکیک پیدا کر رہی تھی کہ یہ ایک ماڈرن، چلبل اور چنچل سی لڑکی ہے۔ دل میں رہے گی تو دُنیاداری کیسے چلے گی۔ کیا یہ ڈریمی گرل ہے۔ نان پریکٹیکل ہے۔ ام میچور ہے۔ بھولی بھالی اور معصوم ہے یا پھر نہایت سمجھ دار اور چالاک۔
گھر واپسی کا سارا سفر اسی طرح کے لایعنی خیالات میں کٹ گیا۔ دوست احباب کی چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق سے فراغت کے بعد چارپائی پر آ لیٹا۔ رات بھر کروٹ کروٹ یہی سوچتا رہا کہ میں تو گاؤں اور شہر میں مکان بنوا رہا ہوں۔ بساط سے زیادہ روپیہ صرف ہو چکا ہے۔ بیگم صاحبہ دل میں رہنا چاہتی ہے۔ اب دل میں جو پہلے سے اتنا کچھ سمایا ہوا ہے، اُس کو کیسے نکال باہر کروں کہ اتنا بےکار سامان اور کس جگہ رکھا جائے۔ وقت گزرتا رہا اور رخصتی کا دن آپہنچا۔ ایک طویل انتظار کے بعد ہم دونوں ایک بستر پر تھے۔
میں نے گھونگھٹ اُٹھایا اور بیگم چندے آفتاب، چندے ماہتاب کی صورت دمک رہی تھی۔ سانس دونوں کی حدِ متجاوز سے بڑھی ہوئی تھی۔ میں نے پھر نکاح کے دن والا جملہ دُہرا دیا کہ بیگم صاحبہ! آپ کہاں رہنا پسند کریں گی۔ بیگم نے غور سے میری طرف دیکھا۔ اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھ میں لے لیے۔ کچھ دیر میرے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کیا۔ میری پیشانی پر اپنے ہونٹ ثبت کیے اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئیں: اللہ کے بندے! میں تمہارے دل میں رہوں گی۔ اب تم مجھے جہاں رکھنا پسند کروگے میں رہ لوں گی۔
چند برس کی بات ہے۔ یہ دُنیا عارضی ہے اور ہمیں مستقل یہاں نہیں رہنا۔ تم میرے ساتھ ہو۔ یہ میرے لیے کافی ہے۔ گاؤں میں رہنا اور شہر میں رہنا۔ یہاں رہنا اور وہاں رہنا۔ یہ فضول اور بیکار باتیں ہیں۔ اللہ نے ہمیں ساتھ ملایا ہے اور ایک کیا ہے۔ اس خوبصورت وقت کو دُنیاوی باتوں میں ضائع نہ کرو۔ ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے حسیں لمحہ سوہاگ رات کاملن ہوتا ہے۔ اس ملن اور ایک دوسرے کو پا لینے کی آرزو میں ایک لڑکی اپنے تن، من اور دل و نگاہ کی اُجلاہٹ کو کسی صورت چاہ کر بھی گرد آلود نہیں ہونے دیتی۔ اس کے سامنے کئی خوبصورت چہرے، پُرکشش بدن اور مال و زر سے اَٹے وجود آتے ہیں لیکن وہ نظر اُٹھا کر دیکھنا اس لیےگوارا نہیں کرتی کہ اِس کی نسبت کسی اور سے طے ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے کہ بیگم پورا لیکچر مجھے دے ڈالتی۔ میں نے بیگم کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور نگاہوں سے مطمئن اوربے غم ہو جانے کا اقرار کیا۔ بیگم نے محسوس کیا کہ وہ کچھ زیادہ بول گئی ہے۔ مجھے دیکھا اور شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔ میرے ذہن میں موجود ہر طرح کے تفکرات از خود زائل ہو گئے۔ ایک طرح کی بے فکری اور دلی تیقن کی خوشگوار حیرت میں نہا سا گیا۔ میری بیوی میرے لیے بیوی نہ رہی۔ پیشتر جو کچھ سُن رکھا تھا۔ ذہن سے دفعتاً محو ہوگیا۔ ایک نئے سفر کی شروعات کے ساتھ پہلے سے جاری سفر کا اختتام ہوگیا۔