Main Bhi Ahmed Farhad Hoon
میں بھی احمد فرہاد ہوں
احمد فرہاد کو ماورائے عدالت غیر قانونی طریقے سے اسلام آباد سے خفیہ ایجنسیوں نے اُس وقت اُٹھایا جب اُنھیں اُٹھا انتہائی نا ناگزیر ہوگیا تھا۔ احمد فرہاد ایک رومانی اور مزاحمتی شاعر ہے، اس شاعر نے شعور سنبھالتے ہی بغاوت کے عناصر کو موسمی درجہ حرارت کے توسط سے کشید کرتےہوئے اپنے اندر پوری طرح اُنڈیل لیا۔
مرورِ وقت کے ساتھ فرہاد علی شاہ احمد فرہاد بن کر سامنے آیا، اس وقت احمد فرہاد پاکستان کی خفیہ ایجنسوں کی تحویل میں ہے، ان کی بیگم صاحبہ نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کو اپنا وکیل مقرر کرتےہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔
حکومتِ وقت کے مقتدرہ اداروں نے ان کی بازیابی کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے تین دن میں احمد فرہاد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کی مقتدرہ اداروں کو مہلت دی ہے۔ احمد فرہاد کی رہائی کی آواز سوشل میڈیا سے لے کر نجی محافل و گفتگو میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اب ہر ذی شعور انسان کہہ رہا ہے کہ
میں بھی احمد فرہاد ہوں
میں اپنی مرضی سے سوچتا ہوں مجھے اٹھا لو
ماورائے عدالت لوگوں کو اُٹھانے کا غیر قانونی دھندا اب نہیں چلے گا
احمد فرہاد کے ساتھ یہ معاملہ کیوں پیش آیا، اس سے پہلے احمد فرہاد کی سوانحی شخصیت اور تعلیم و ملازمت کا مختصر احوال سن لیجیے۔ احمد فرہاد 25 دسمبر1983 کو باغ آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے، آپ کا اصلی نام سید فرہاد علی شاہ جبکہ تخلص احمد فرہاد ہے، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو اور سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرنے والے احمد فرہاد اکیسویں صدی کے اوائل میں سامنے آنے والی نسل کے ممتاز اہم ہمہ جہت، روشن فکر شاعر ہیں۔ آپ کی غزل رومان، عصری شعور اور داخلی و خارجی قضیوں کی عکاس ہے۔
آپ پاکستان کے ممتاز ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہے۔ آپ نیوز، نیو ٹی وی، ہم ٹی وی، ڈسکور پاکستان اور کئی دوسرے چینلز کے آفیشل سانگز کے علاوہ کئی مارننگ شوز پروگرامز ایونٹس اور کمرشلز کے تھیم سانگز اور آئیڈیاز بھی لکھے۔ آپ نے 2016میں ایک فلم بھی لکھی جو تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ آپ کے لکھے ہو ئے دو ڈرامے جلد بین الاقوامی اشتراک سے شوٹنگ کے مراحل میں داخل ہوں گے۔
آپ ایک ترقی پسند دانشور بلاگر اور سوشل ایکٹوسٹ بھی ہیں جس کی جھلک آپ کی شاعری اور تحاریر میں جھلکتی ہے۔ آپ نے بطور مترجم کئی مغربی کتابوں کے تراجم کیے جبکہ منٹو کے افسانوں پر آپ کے لکھے گئے تعارفیوں کی کتاب بھی منٹونے کے نام سے چھپ چکی ہے۔ آپ کی ایک غزل " کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے " پوری دنیا میں سب سے زیادہ وائرل ہونے والی غزلوں میں شامل ہے جبکہ آپ کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہیں۔
ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو
آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو
یوں ہی درد سر بن رہے ہیں یہ شوریدہ سر
یوں کرو اک ایک کرکے اچھے بندے مار دو
رات کی تحویل میں دے دو مرا شہرِ ملال
اور چُن چُن کر مرے جگنو سے بندے مار دو
احمد فرہاد نے گذشتہ دنوں آزاد کشمیر میں ہونے والے بڑے جلوس میں شرکت کی جو احتجاج کی صورت یوں سامنے آیا کہ حکومتِ پاکستان پریشان اورحواس باختہ ہوگئی کہ جس خطہ کے شعور کو ہم نےمحرومی کی لاٹھی سے کچل دیا تھا وہ اتنی بڑی تعداد یوں سامنے آجائے گا، اس کی حکومت کو اور ایجنسیوں کو قطعی توقع نہ تھی۔
آزاد کشمیر کی عوام کے سامنے حکومتِ وقت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان کے مطالبات کو مِن و عَن تسلیم کرتے ہوئے اس آگ کے دریا کو بہ امر مجبوری ٹھنڈا کیا گیا۔ احمد فرہاد آزاد کشمیر باغ سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی عمر سے انھوں نے اپنے خطے پر خفیہ ایجنسیوں کی ہرزہ سرائی، بدمعاشی، جبری تسلط اور رعونت آمیز طرزِ حکمرانی کو براہِ راست دیکھا ہے، ان کے اندر ایک معصوم اور کومل جذبات رکھنے والا شاعر تھا جس کے تراشے ہوئے مصرعوں میں غضب کی حیا داری اور شرم و لجالت کا حسین عکس جھلکتا تھا۔
ستم یہ ہے کہ اس کومل جذبات سے لبریز شاعر نے اپنے مصرعوں کو زہر آلود کر ڈالا، اس کے مصرعوں میں وطن سے محبت کی جگہ سیاسی ہرزہ سرائیوں سے بیزاری، نفرت اور طرزِ حکومت و سیاست سے بو آتی محسوس ہوتی ہے۔ احمد فرہاد جب کہتا ہے کہ میں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے تو واقعی اسے مارنے دینے کو جی چاہتا ہے کہ اس شاعر نے اپنے مصرعوں کی شمع سے پاکستان کے سوئے ہوئے ضمیر کو روشن کر ڈالا ہے۔
حال ہی میں اس کی وائرل ہونے والی غزل کے ایک ایک مصرعے میں بغاوت کی دہکتی آگ کومل جذبات کو جھلساتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ احمد فرہاد کہتا ہے کہ یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہےِ اسے اُٹھا لو؍اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اسے اُٹھا لو۔ سوچنے پر پابندی تو ہر دور اور ہر عہد میں لگائی جاتی رہی ہے مگر آزادی کے ساتھ اپنا نکتہ نظر رکھنے والوں پر جبری قدغن لگانا اور انھیں خاموش کروانے کے لیے ہر نیچ حرکت پر اُتر آنا کہاں کی جمہویرت اور طرزِ حکمرانی ہے۔ احمد فرہاد کہتا ہے:
اُترے ہوے چہرو تمہیں آزادی مبارک
اُجڑے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
مسلک کے زبانوں کے علاقوں کے اَسیرو
بکھرے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
اے کاش لپٹ کر انہیں ہم بھی کبھی کہتے
کشمیر کے لوگو تمہیں آزادی مبارک
اُردو ادب میں یہ قید و صعوبت کا سلسلہ جعفر زٹلی سے شروع ہوا تھا جس نے فرخ سیّر کے خلاف قطعہ لکھ کر بغاوت کااظہار کیا تھا جس کی پاداش میں اسے تسمہ پھروا کر مروا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مغل سلطنت سے انگریزی دورِ حکومت تک سیکڑوں شعرا کو تہ تیغ کیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ برقرار رہا۔ فیض احمد فیض، احمد فراز، شکیل جاذب، احمد ندیم قاسمی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، حبیب جالب، شکیب، عدیم ساحل سے لے کر احمد فرہاد تک سیکڑوں شعرا ہیں جنھیں خاموش کروانے کی سزا دی گئی، انھیں ملازمتوں سے بے دخل کیا گیا، انھیں وطن سے نکال دیا گیا، ان کی متاع و جائیداد ضبط کی گئی اور انھیں ہر طرح کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کے باوجود ان شعرا نے نام نہاد جمہوریت پسند حکمرانوں اور محافظوں کے دستوں میں چھپی کالی بھیڑوں کے بارے میں کُھل کر لکھا اور علامتی و تمثیلی انداز کی بجائے براہ راست لکھا۔ احمد فرہاد کے ہاں حبسِ بے جا میں اسیری ہونے والے جملہ شعرا کی گونج صاف سُنائی دیتی ہے۔
کافر ھُوں، سر پھرا ھُوں مجھے مار دیجیے
میں سوچنے لگا ھُوں مجھے مار دیجیے
میں پوچھنے لگا ھُوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ھُوں مجھے مار دیجیے
پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ھُو کا شور
میں آخری صدا ھُوں مجھے مار دیجیے
احمد فرہاد سے میری ملاقات 2015 کے اوائل میں اسلام آباد ایف 10 میں ایک ہوٹل کی بیسمنٹ میں ہوئی تھیں۔ میرے ساتھ کشمیر کے مشہور شاعر پروفیسر اعجاز نعمانی، اکادمی ادبیات کے ممتاز رُکن اختر رضا سلیمی، ڈاکٹر ساجد محمود ڈار اور دُنیا نیوز کے سجاد صاحب تھے، ہم شاعری پر بات کر رہے تھے، احمد فرہاد اپنے ترجموں کا ذکر کرتا رہا۔ ان دنوں سٹیفن کی کتاب وقت کی مختصر تاریخ انھوں نے ترجمہ کی تھی، شاعری کے بارے میں اس کا نکتہ نظر تھا کہ اب رومانی شاعری بہت ہوچکی، کچھ ایسا کہنا چاہیے جس کا تعلق سماج، معاشرت، سیاست اور جملہ صورتحال کی عکاسی پر منحصر ہو، اس کے اشعار میں موجودہ صورتحال کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
گذشتہ ہفتہ احمد فرہاد کی گمشدگی کی خبر پڑھی تو ساتھ گزارا ہوا مختصر وقت اور جملہ بحث کا ملخص ذہن میں تازہ ہوا گیا۔ احمد فرہاد کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ شہرت چاہتا ہے اور یہ سب کچھ اس نے محض شہرت اور ناموری کے لیے کیا ہے بلکہ یہ احساس اس کے اندر اوائل سے موجود ہی نہیں۔ اس کامسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو ٹکروں میں منقسم ہوتے یہ نہیں دیکھ سکتا۔ پاکستان کو مزید تنزل کی کھائی میں گِرتے ہوئے یہ نہیں دیکھ سکتا۔
پاکستان کو طاقتور ممالک کے سامنے جھولی پھیلاتے ہوئے بھیک مانگتے ہوئے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کو دہشت گردی کی ناسور میں تباہ ہوتے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کو چند افراد کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بنے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کو چند ناسوروں کے ذاتی مفاد کے آگے سرنگوں ہوتے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کو دُنیا میں تنہا ہوتے ہوئے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کے جداگانہ تشخص کو مجروح ہوتے یہ دیکھ نہیں سکتا۔ احمد فرہادکہتا ہے:
میری آنکھیں کہیں محفوظ کر لو
اِن آنکھوں نے اُسے دیکھا ہوا ہے
احمد فرہاد کا مسئلہ ہر ذی شعور انسان، شاعر، ا دیب، اداکارا، صدا کار، گلوکار، فنکار اور عام سے لے کے ادنیٰ ترین پاکستانی مُحبِ وطن کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ہی بادشاہ ہیں اور ہم ہی اس ملک کے واحد مالک و آقا اور خودمختار ہیں تو پھر ہمیں بولی لگا کرفروخت کر دیجیے۔ ہمارے شعور کی نسوں کو کُرید ڈالیے۔ ہمارے کانوں میں سیسہ پگھلا کر بہرہ کر دیجیے۔ ہماری آنکھوں میں جلتی سُلاخیں پِھروا کر اندھا کر دیجیے۔
ہمارے ذہنوں کو شاہ دولا کے چوہے بنا دیجیے۔ ہماری ٹانگیں توڑ دیجیے، ہمارے پاؤں کاٹ دیجیے، ہمارے اعصاب چھلنی کر دیجیے۔ یہ سب کچھ کر لینے کے بعد اگر آپ کو اطمینان ہو جائے کہ اب ان چھبیس کروڑ میں سے ہماری برادری کے علاوہ کوئی سر اُٹھا کر نہ چلے گا، کسی کی زبان پر حرفِ ملامت رقص نہ کرے گا، کسی کے دہن میں وطن کی الفت کا ذائقہ نہ رہے گا، کسی کے وجود میں وطن سے محبت کا جذبہ جوش نہ اُٹھائے گا تو پھر بسم اللہ کیجیے اور اپنی خواہش پوری کر لیجیے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی طرح ہمیں بھی پاکستان کے قانون کے برابر یہاں جینے کا پورا حق ہے اور ہماری بنیادی انسانی ضرورتوں کے لیے ہم آپ کے دروازے کھٹ کھٹائیں گے اور آپ پر تنقید بھی کریں گے اور آپ کی گوشمالی بھی کریں گے اور آپ کو مسند سے بھی اُتاریں گے تو یہ سب کرنے کو ہمیں پاکستان کا قانون حق اور تحفظ دیتا ہے کہ عوام ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہے۔
عوام کا جمہور جس شخص کو اقتدار سونپے گا وہی ان پر حکمرانی کرے گا۔ ماورائے قانون اگر آپ اسی طرح بولنے والے، شعور دینے والے اور غفلت میں پڑے ہوئے نیند کے ماتوں کو جگانے والوں کو اُٹھائیں گے تو بسم اللہ آپ اُٹھاتے رہیں اور ہم بصد شوق و جذبے سے آپ کی اس خواہش پر نثار ہونے کو تیار ہیں مگر خدا کے لیے یہ نہ کہیے کہ ہم دہشت گرد ہیں، ہم چور ہیں، لْٹیرے ہیں، ظالم ہیں۔
ہم سے پوچھو کہ ہم تو مظلوم ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں مارے ہوئے ہیں، بھوک کے ہاتھوں ذلیل ہیں، پانی کے ہاتھوں برباد ہیں، آٹے کی قطار کے آگے ہماری عزتِ نفس مرگئی ہے، بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے ہمیں اپنے گُردے بیچنا پڑتے ہیں، گیس کا بل دینے کے لیے ہمیں گھر گروی رکھنا پڑتا ہے، بچوں کی فیس کے لیے ہمیں پچاس گھروں میں اُدھار رقم کے حصول کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ احمد فرہاد ٹھیک کہتا ہے:
ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو
آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو
یوں ہی دردِ سر بنے رہنے ہیں یہ شوریدہ سر
یوں کرو اک ایک کرکے اچھے بندے مار دو
بادشاہ عالی! آپ چھبیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں فقط دو چار لاکھ ہیں جنھیں دُنیا جہان کی آسائشیں، نعمتیں، راحتیں اور سہولتیں میسر ہیں، باقی تو نو کر چار، بوجھ اور شرمندگی کا باعث ہیں۔ ہم تعداد میں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ہم متحد ہو گئے اور ہمیں یہ احساس ہوگیا کہ ہم اب اپنا حق چھین کر لیں گے تو پھر آپ کے ایک کے مقابلے میں ہم ہزاروں ہوں گے اور آپ کو بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ غریب کا بچہ مر جائے گا تو کیا فرق پڑے گا کہ یہ تو زندہ ہی مرا ہوا ہے لیکن اگر آپ کے بچے کو کچھ ہوگا تو آپ کو بہت تکلیف ہوگی۔ آپ ہماری اس تکلیف کو سمجھیے اور ہمیں جینے کا حق دیجیے۔ آپ ہمارے ووٹ سے ایوانوں میں آتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور کیے جاتے ہیں۔
ذرا سوچیے! اگر آپ دو چا رلاکھ افراد نے ہی اس ملک میں عزت کے ساتھ ہر سہولت کو استعمال کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہے تو پھر ہمیں کیوں زندہ رکھا ہوا ہے، ہمیں کہیں استعمال کیجیے اور ہم سے جو کچھ ملتا ہے، وصول کر لیجیے تا کہ کل قیامت کو رب تعالیٰ کے سامنے آپ تو مظلوموں کی صف میں نہ کھڑے ہوں کہ ہم نے تو رب تعالیٰ سے ہی اب اُمید لگار کھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں دنوں کو پھیرتا ہوں، پتہ نہیں کب ہمارے دن پھریں گے۔
احمد فرہاد کو رہا کریں اور اس کے شعور کو بھی آزادی دیجیے، جمہوریت کا حُسن اظہارِ رائے کی آزادی سے مشروط ہے۔ اگر آپ اظہارِ رائے کی آزادی کو یونہی دباتے رہیں گے تو ہر سویا ہوا شخص جاگ اُٹھے گا اور یہی کہے گا کہ میں بھی احمد فرہاد ہوں، مجھےبھی اُٹھا لو۔
یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اِسے اُٹھالو
اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اِسے اُٹھالو
جنھیں اُٹھانے پہ ہم نے بخشے مقام و خِلعت
یہ اُن سیانوں پہ ہنس رہا ہے، اِسے اُٹھا لو
یہ پوچھتا ہے کہ امن و عامہ کا مسئلہ کیوں
یہ امنِ عامہ کا مسئلہ ہے، اِسے اُٹھا لو
سوال کرتا ہے یہ دیوانہ ہماری حد پر
یہ اپنی حد سے گزر گیا ہے، اِسے اُٹھا لو