Kya Ye Kitabon Ki Akhri Sadi Hai?
کیا یہ کتابوں کی آخری صدی ہے؟
گزشتہ چند برس سے یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ اکیسویں صدی کتابوں کی آخری صدی ہے۔ اس صدی کے اختتام کے بعد کتابوں کو چھاپنے، پڑھنے اور محفوظ رکھنے کا رواج ختم ہو جائے گا۔ یہ تاثر قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ منفی تاثر ہے۔ یہ محض پراپوگنڈہ ہے۔ یہ علم کی روایت کو تباہ کرنے کا مذموم ہتھکنڈہ ہے۔ یہ ایک بیکار کوشش ہے۔ گذشتہ ہزار برس سے یہی تاثر دُنیا بھر میں وائرل رہا ہے۔ اس کے باوجود ہر صدی میں کتابوں کی اہمیت پہلے سے بڑھی ہی ہے۔
اللہ بھلا کرے انگریز کا جس نے ہندوستان پر قبضہ تو اپنے مفاد کے حصول کے لیے کیا تاہم کچھ فائدہ ہمیں بھی ہوا۔ اس نے 1801 میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ اس کالج میں عربی فارسی، ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کی نثری و شعری تصانیف کو آسان اُردو زبان میں ترجمہ کروا کے فورٹ ولیم کالج پریس سے چھپوایا۔ انگریز کی وساطت سے ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کی آمد سے کتابوں کی اشاعت میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے علمی میدان میں ایک انقلاب رونما ہوا۔
سیکڑوں کُتب جو واحد اثاثی نسخہ کے طور پر کسی نواب، رئیس اور مہاراجہ کی مِلک میں تھیں۔ اِنھیں پرنٹ کرکے لاکھوں پڑھنے والوں تک پہنچایا گیا۔ ادب پر قابض اشرافیہ کا خاتمہ ہوا۔ کتاب کی دستیابی ہر خاص و عام کے لیے ممکن ہوئی۔ 56 برس تک یہ کالج اُردو زبان میں ترجمہ ہونے طبع زاد اور تخلیقی نوعیت کی کُتب کو شائع کرتا رہا۔ انگریزوں نے اُردو کو عام بول چال کے استعمال کی حد تک سمجھ لیا۔ انھیں ہندوستان کے عوامی معاملات و انتظامات کو اُردو زبان کے ذریعے سمجھ کر حل کر نے پر عبور ہوگیا۔ تب یہ کالج 1856 میں ختم کر دیا گیا۔
1857 میں غدر کا سانحہ ہوا۔ انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ یاد رکھئیے! ہندوستان پر قبضہ بندوق سے نہیں ہوا کتاب یعنی اُردو زبان کی سیکھ سے ہوا ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انگریزوں نے پچاس برس اُردو زبان سیکھی۔ اس کے بعد وہ ہندوستان پر قابض ہونے کی پوزیشن میں آئے۔ اس کام کے لیے انھوں نےلاکھوں پونڈ صرف کیے اور اربوں پونڈ کا خام مال ساتھ لے گئے۔ سر پیٹنے اور منہ نوچنے کا مقام ہے کہ سر سید مسلمانوں کو یہ کہ کہ کر مر گئے کہ مسلمانوں! اگر انگریز پچاس اُردو سیکھ کر ڈیڑھ سو برس تم پر حکومت کر سکتے ہیں توکیا تم چند برس میں انگریزی سیکھ کر ان سے اپنا حق نہیں لے سکتے، ملازمت نہیں لے سکتے اور ان سے مستقل نجات یعنی آزادی نہیں لے سکتے۔
افسوس! صد افسوس! مسلمانوں نے تین صدی گزر جانے کے بعد بھی انگریزی کو سیکھنا گوارا نہیں کیا اور آج ہم انگریزی نہ سیکھنے کی وجہ سے سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے محروم ہوکر دُنیا بھر میں خوار ہو رہے ہیں۔ کتاب بندوق سے زیادہ طاقت ور اور موثر ترین ہتھیار ہے۔ جن اقوام نے بندوق کو ترجیح دی ؛وہ نیست و نابود ہوگئیں۔ جس قوم نے کتاب کو تھاما، اُس نے دُنیا کی ناک میں نوکیل ڈالی۔ زبانیں بندوق کے زور پر ختم ہوئیں اور نہ کبھی ہوں گی۔
زبان کو ہر دور میں تقدم اور برتری حاصل رہی ہے۔ ایک بڑا شاعر یا ادیب زبان کو میسر آجائے تو زبان کی طبعی عمر میں سو سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ دُنیا میں ہزاروں زبانیں موجود ہیں۔ یونیسکو ادارہ کا کام ہی زبانوں پر ہے جن کی رپورٹ کے مطابق اُردو اب دُنیا کی دوسری بڑی زبان بن چکی ہے۔ زبان اپنے بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں کے ذریعے پنپتی رہے اور مہمیز ہوتی ہے۔ کتاب کا تعلق معاشرے سے ایسا ہی ہے جیسا دل کا دھڑکن سے۔ کتاب کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ کتاب کے ذریعے تعقل آتا ہے اور تعقل کے وہ سب آتا ہے جس کی انسان خواہش کرتا ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت کو کسی دور میں غیر اہم قرار نہیں دیا گیا۔ اسلام کا نظامِ حیات کتاب کا محتاج ہے۔ رب تعالیٰ کے وجودکا سب سے بڑا جواز کتاب یعنی قرآن پاک ہے۔ جب تک خدا موجود ہے۔ قرآن باقی رہے۔ اسی طرح جب تک لکھنے والا موجود رہے۔ کتاب چھتی رہے گی اور پڑھی جاتی رہے گی۔
زبانیں بہنوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی رہتی ہیں۔ زبانوں کے خاندان ہیں جو لوک کہانیوں، اساطیری قصص اور عوامی رجحانات سے کشید کی ہوئی طولانی داستانوں کو لیے بنجاروں کی طرح ملکوں ملکوں کرت رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سماج، معاشرے، ادب اور فنونِ لطیفہ سے متاثر ہوتے ہیں اور متاثر کرتے بھی ہیں۔ ادب عالیہ میں شمار کہانیاں کسی ایک زبان کی مِلک قرار نہیں دی جاسکتی۔ انسان جہاں بھی بستا ہے، وہ اپنے اندر کے انسان سے کتاب کے ذریعے ملتا ہے۔ کتابیں ہزاروں برس بند الماریوں میں دبی رہیں۔ اس کے باوجود ان کی اہمیت ختم نہیں ہوتی۔ کوئی مشاق آتا ہے اور انھیں نکال لیتا ہے۔
ہلاکو خان نے دجلہ کے دریا پر کتابوں کا پُل بنا کر اس کو تباہ کیا تھا۔ کتابوں کے دُشمن ہر دور میں رہے ہیں۔ علم کے ہلاکو ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں اور اپنی ہلاکت خیزی سے فہم و تعلق کے چراغِ روشن کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی مذموم حرکات سے تعقل کا خزینہ ختم ہوا نہ کبھی ہوگا۔ بادِ مخالف ہی سمتِ موزوں کے الاؤ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہ صدی کتابوں کے اختتام کی صدی نہیں ہے۔ انٹرنیٹ نے کتابوں کی اشاعت، ترسیل اور محافظت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سکیڑوں ایسی ویب سائٹ اور بیسویوں ایسے ایپ بنائے گئے ہیں جن میں لاکھوں کتابیں آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں۔ کتاب محبوب کے رومانوی خط کی طرح ہے جسے سینے سے لگا کر اِس کا لمس محسوس کرنے کی شدید آرزو رہتی ہے۔ کتاب پر حواشی لگاتے ہوئے، اہم نکات نشان زد کرتے ہوئے جو لطف اور تسکین ملتی ہے وہ شائد محبوب کے لمس سے نہ مل سکے۔
گزشتہ چند برس میں پبلشرز کی تعداد میں غیر معمولی اضاضہ ہوا ہے اور کتابوں کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ پبلشرز کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام تک کتاب کی اشاعت میں ہزار ہا دقتیں تھیں لیکن اب کتاب کی اشاعت نہایت آسان ہوگئی ہے جس سے کُتب کی اشاعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک فرق یہ آیا ہے کہ اب کتاب اُس طرح سے عوامی مقامات پر دکھائی نہیں دیتی جس طرح انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے اختتام تک ہر جگہ یعنی گلی، محلے، چوکوں اور چوراہوں پر دکھائی دیتی تھی۔
سائنس نے دُنیا کی شکل بدل ڈالی ہے۔ نئی نئی ایجادات کی وجہ سے انسان کو سہولتوں کی بہم فراہمی کی وجہ سے وقت مزید سرگرمیوں میں منقسم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کتاب کا وقت بھی تقسیم ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کتاب کو اُتنا وقت نہیں دیا جا رہا جو اس سے قبل اِسے میسر تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کتاب مر رہی ہے اور کتاب ختم ہو رہی ہے اور کتاب کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر صدی کتاب کی صدی ہے۔ جب تک یہ دُنیا اور یہ نظامِ کائنات باقی ہے۔ کتاب کو پڑھنے، لکھنے، چھاپنے اور سینے سے لگائے رکھنے والے موجود رہیں گے۔