Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Kya Main Masturbation Kar Sakti Hoon?

Kya Main Masturbation Kar Sakti Hoon?

کیا میں ماسٹر بیشن کر سکتی ہوں؟

میں نے سوچا، بس، اب میں خود کو رُوک نہیں سکتی، میں نے اِرادہ کیا اور جو میسر آیا، اُس کے سامنے جا کر خود کو برہنہ کر ڈالا۔ وہ میرے حوصلے اور بے باکی سے شدید متاثر ہوا۔ مجھے تو جیسے پاگل پن کا دورہ پڑا تھا جیسے کسی نے کچھ پھونک دیا ہو، جیسے کسی نے اندھا کر دیا ہو، جیسے کسی نے اپنے سحر میں جکڑ لیا ہو، جیسے کسی نے حواس کو مختل کر دئیے ہوں۔ میں نے جی بھرکر اُس کے جسم کے لمس کو اپنی روح میں اُنڈیلا۔ وہ شخص مجھ سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ بار بار مجھ سے دامن چھڑانے کی کوشش میں رہا اور میں جونک کی طرح اُس کے بدن سے چِپکی رہی۔ میں اُس کے جسم کے ہر حصے کو کھا جانا چاہتی تھی اور بس میں نے وہی کیا جو مجھے اچھا لگا۔

مجھے ایک لمحہ کے لیے یہ احساس نہیں ہوا کہ ایک غیر مرد جس سے میں کبھی ملی نہیں، نہ اِس سے سلام دُعا اور خیریت عافیت کا تبادلہ ہوا اور نہ میں اس کے کبھی اتنا قریب رہی۔ پتہ نہیں مجھے یہ اچانک کیا ہوا کہ مجھے اپنے اُوپر اختیار نہ رہا۔ میں نے سوچا کہ شادی تو ہونے والی نہیں ہے، اس لیے سیکس کی خواہش کو برسوں سے جس طرح میں نے دبا کر رکھا ہے، یہ ناسور بن کر میرے جسم کو چاٹ جائے گا، اس سے پہلے کہ میں اس ناسور کی خوراک بن جاؤں، میں نے فیصلہ کیا کہ کسی مرد پر یہ الزام دینے کی بجائے خود ہمت کروں اور اپنی مرضی سے جنسی تشنگی کو پورا کر لوں۔

سیکس کرتے ہوئے مجھے قطعاً ڈر نہیں لگا کہ دین کیا کہتا ہے اور سماج کیا کہتا ہے اور فلاں کیا کہتا ہے، مجھے بس اپنے اندر پلتے ہوئے خدشات و واہمات اور عجیب و غریب اوٹ پٹانگ خیالات و تصورات سے جان چھڑانا تھی۔ یوں سمجھ لو، کہ مجھے پورن دیکھتے ایک زمانہ گزر گیا تھا، ہر طرح کے عضوِ تناسل دیکھ دیکھ کر میرا دم اُلجھنے لگا تھا، مجھے ہر وقت ہر جگہ عضوتناسل ہی دکھائی دیتا تھا، لمبائی، چوڑائی اور موٹائی میں اس کی سیکڑوں قسمیں میرے ذہن میں کلبلاتی رہتیں۔ میں ماسٹر بیشن کے ذریعے اپنے اندر کی جنسی تشنگی کو جزوقتی ٹیم کرنے کی کوشش کرتی مگر اس مصنوعی عمل سے میرا جسم ٹوٹ پھوٹ جاتا اور ہفتوں نیم بخار کی حالت میں حواس باختہ بستر پر پڑی رہتی۔

اماں کو کوئی رشتہ پسند ہی نہیں آتا، رشتہ آنے کی دیر ہے، اس میں ہزاروں نقص نکالیں گی، لڑکا ایسا ہے، لڑکا ویسا ہے، میری تین بیٹیاں ہیں میں ایسے ہی کسی کی جھولی میں کیوں ڈال دوں۔ بڑی بہن نے اچھا کیا، جوانی کے پہلے زینے سے پھسل کر کنویں میں جا گریں اور فراموش ہوگئیں، چھوٹی ابھی ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے، میری حرکات و سکنات کو دیکھ کر اس کا دماغ بھی خراب ہوتا جا رہا ہے۔

میں سوچتی ہوں، لڑکی ہونا بھی کتنا بھونگا اور بے معنی سا ہے۔ کاش میں لڑکا ہوتی، جوان ہوتے ہی کوئی لڑکی پھنسا لیتی، مرضی سے اس کے ساتھ ڈیٹ پر جاتی اور جی بھر کر جسم کی خوراک کا سامان کرتی۔ لڑکی بن کر تو میں قید ہو کر رہ گئی ہوں۔ ابا کو میں ابھی گڑیا لگتی ہوں، اُن کے سامنے جب میں شادی کی بات کرتی ہوں، کہتے ہیں ابھی عمر ہی کیا ہے کہ تمہاری شادی کر دی جائے۔ کھاؤ پیو اور آرام سے وقت گزارو، اگلے گھر میں پتہ نہیں کچھ کھانے کو ملے نہ ملے۔

میں انھیں کیسے سمجھاؤ کہ میں تیس برس کی ہونے والی ہوں، میں اب بچی اور گڑیا نہیں رہی، معصوم تو کسی صورت میں نہیں، میں ایک ڈائن بن گئی ہوں، میں چڑیل سے زیادہ خطرناک ہوگئی ہوں، میں وہ سنپولی ہوں جو اپنے بچے کھانے کی ہوس میں مبتلا ہے، میں ایک ناسور ہو جسے جسم سے کاٹ کر پھینکنے میں نجات ہے، میں بدنامی کا ٹیکا ہوں جو کسی شریف گھرانے کی فروزاں پیشانی کو داغدار کرنے کے درپئے ہے۔

میں کسی کے ساتھ بھاگ نہیں سکتی، میرا کسی لڑکے کے ساتھ چکر نہیں ہے، مجھے لڑکے اچھے ہی نہیں لگتے، یہ بڑے بے شرم اور بے حیا ہوتے ہیں، آنکھ کے آدھ اشارے سے شلوار اُتار دیتے ہیں، میں ایسے ٹھرکولا لڑکوں کو اپنے دل میں خاک جگہ دوں کہ یہ تو اپنے آپ سے گزرے ہوئے ہیں۔

اماں کو ایک دن کہا کہ اگر میری شادی نہیں کرنی تو مجھے زہر لا دو تاکہ میں کھا کر مر سکوں، کہنے لگی، مرنا اتنا آسان نہیں ہے، اپنی جان لینے کا سوچتے تو سب ہیں لیکن جان لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا، اماں مجھے چیلنج نہ کرو، میں جان لینے پر قدرت رکھتی ہوں، میں جس ذہنی و قلبی اور جسمانی اذیت سے گزر رہی ہوں، تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔ اماں نے کہا، بیٹی! سر پر ٹھنڈا پانی ڈالو اور صبر کرو، کوئی ڈھنگ کا رشتہ ملے تو بات بڑھے، اس میں میری کیا غلطی ہے، میں نے اماں سے کہا، مجھے پیدا کرنا اور پیل ڈال کر رکھنا اور پڑے پڑے سڑنے کے لیے چھوڑ دینا ہی آپ کی سب سے بڑی غلطی ہے۔

ابا کے ساتھ مزے کرتی ہو اور میں بستر پر پڑے اپنے کھوٹے نصیب کو روتی ہوں کہ میں نے اس گھر میں جنم ہی کیوں لیا تھا۔ اماں میری باتوں کا غصہ نہیں کرتی، و ہ میرے جذبات اور احساسات کو سمجھتی ہے، اس لیے خاموش رہتی ہے۔ ماسٹر بیشن کرنے کا طریقہ انھوں نے ہی مجھے سکھایا تھا اور کہا تھا کہ کسی مرد کے ساتھ فیزئیکل ہونے سے بہتر ہے اپنے جسم سے وہ راحت لے لی جائے جو کسی مرد سے مشروط ہے، اس طرح بدنامی سے بچو گی اور عزت پر بھی کوئی حرف نہ آئے گا کہ ہم شریف گھرانوں میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

میں اماں کو کیسے سمجھاؤں کہ میں خودلذتی کے اس عمل سے عاجز آچکی ہوں۔ میری عمر گزرتی جارہی ہے، میری کمر میں شدید درد رہنے لگا ہے، آنکھوں کے گرد حلقے نمایاں ہوگئے ہیں، گالوں کی سُرخی اُڑچلی ہے، پیٹ نکلنے لگا ہے اور ہاتھ پاؤں میں چیونٹیاں سی چلتی رہتی ہیں۔ میں جوانی میں بوڑھی ہوگئی ہوں، خدا کے لیے مجھے گھر سے رخصت کرو مگر وہ تو اپنی ہٹ کی پکی ہیں، کہتی ہیں جب تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملے گا، تب تک نہیں کروں گی کہ یہ عمر بھر کے رشتے ہیں، یوں ہی کسی ایرے غیرے کو کیسے سونپ دوں۔

میں سوچتی ہوں میری طرح کی کتنی لڑکیاں بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنی گھروں میں قید شادی کے خواب دیکھ رہی ہیں جبکہ انھیں پتہ ہے کہ ہماری مرضی اور خواہش کے مطابق ہماری شادی ہونے والی نہیں ہے۔ اس کے باوجود خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے، خوابوں پر تو پابندی نہیں ہوسکتی۔ یوں لگتا ہے دو چار برس یونہی اچھے رشتے کی تلاش میں بِیت گئے تو میں خواب دیکھنے سے بھی محروم ہو جاؤں گی۔

انسان خواب دیکھنے سے محروم کر دیا جائے تو اپنی موت آپ مرنے کا مزہ کِرکرا ہو جاتا ہے۔ انسان بھی کیا عجیب مخلوق ہے، کہتا ہے میں اپنی مرضی کروں گا، یہاں تو کسی کی مجال نہیں کہ مرضی کرے، مجھے دیکھو، کیا میں اپنی مرضی کر سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ ڈیٹ پر جاسکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے ماسٹر بیشن کر سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بھاگ سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے بازار جا کر سودا سُلف لا سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے کزن کے ہاں رات گزار سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے سہیلی کے فنکشن میں شریک ہو سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے کمرے میں بند ہو کر زور زور سے رو سکتی ہوں، کیا میں اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے سکتی ہوں۔

میں یہ سب کر سکتی ہوں لیکن مجھے یہ سب کرنے کے لیے لڑکا بننا پڑے گا۔ کیا میں لڑکا بن سکتی ہوں۔ نہیں نا، ہاہاہاہا۔۔

Check Also

World Justice Project

By Rao Manzar Hayat