Indian Movie, Saneha Sialkot Aur Aurat Ki Nafsiyat
انڈین مووی، سانحہ سیالکوٹ اور عورت کی نفسیات

کچھ عرصہ قبل ایک انڈین فلم "vadh" دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ "سجنے مشرا"نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سنجے مشرا کو ایک پرائمری استاد کےکردار میں دکھایا گیا ہے جس کا اکلوتا بیٹا ہے جو امریکہ میں سیٹل ہونے کی شدید خواہش کرتا ہے۔ ماسٹر جی اپنی ساری جمع پونچی بیٹے کی امریکہ میں سیٹل ہونے پر صرف کر دیتے ہیں مگر بات یوں نہیں بنتی کہ دس لاکھ روپے مزید کم پڑ جاتے ہیں جس کی ادائیگی ماسٹر جی کسی صورت نہیں کر پا رہے۔
ماسٹر جی کا بیٹا والد کو گھر گروی دینے پر مجبور کرتا ہے۔ مجبوراً گھر گروی رکھ دیا جاتا ہے اور اکلوتا بیٹا امریکہ سیٹل ہو جاتا ہے۔ دس لاکھ کے عوض جس شخص کے پاس گھر گروی رکھوایا جاتا ہے، وہ اپنے علاقے کا بھتہ خور مافیہ کا سرغنہ ہوتا ہے۔ اس شخص نے ہر وہ جُرم کیا ہوتا ہے جو انسان سوچ سکتا ہے۔
ماسٹر جی دو، چار ماہ تو گروی کے علاوہ قرض کی مد میں لیے ہوئے اوپری رقم کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں لیکن چھے ماہ کے بعد قرض کی اضافی رقم واپس کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ماسٹر جی اپنے بیٹے سے التجا کرتے ہیں کہ کچھ پیسے ہمیں بھجواؤ کہ تا قرض کی ادائیگی مشکل ہو جائے کہ یہ شخص ہماری جان کو آیا ہوا ہے۔
لائق بیٹا فرماتا ہے، تم لوگوں نے میری زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ پیسے، پیسے، پیسے، تم لو گ میری جان چھوڑ دو اور جیسے جو ہو سکتا ہے وہ کرو اور مجھے تنگ نہ کرو۔ بیٹے کی طرف سے نااُمید ہو کر ماسٹر جی ٹیوشن پڑھاتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، چوری کرنے کا منصوبہ بھی بناتے ہیں لیکن کوئی جگاڑ کام نہیں کرتا۔
قرض دینے والا شخص آئے روز ایک لونڈیا جب من چاہے ساتھ لے آتا ہے، ماسٹر رانی سے کمرہ صاف کرواتا ہے، شراب کباب جسمانی بھوک مٹا کر جنسی ہوس پوری کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ دونوں میاں بیوی تماشائی بنے سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن کچھ نہیں کر سکتے۔
ایک دن وہی شخص بِن بلائے مہمان کی طرح ماسٹر جی کے گھر آدھمکتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مکان اب فروخت ہونے جا رہا ہے کیونکہ تم پیسے نہیں لوٹا پا رہے اور مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے اس لیے یہ مکان فروخت کر دیتے ہیں، اس طرح تمہارا بھی قرض اُتر جائے گا اور میری بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔
اس وقت ماسٹر جی بچے بچیوں کو ٹیویشن پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکی مشکل سے گیارہ بارہ سال کی ہوگی جو ماسٹر جی کو الوداعی سلام کرکے رخصت ہوتی ہے۔ یہ شخص اُس لڑکی کو گھورتا رہتا ہے۔ اگلے دن ماسٹر رانی مندر میں پوجا کے لیے جاتی ہے اور وہ شخص پھر آدھمکتا ہے۔ ماسٹر جی سے شراب منگواتا ہے اور دال پوڑا سامنے رکھوا کر کہتا ہے کہ ماسٹر جی، جاؤ ذرا سندیا کو تو لے آؤ۔ آج سالی کوئی لونڈیا ہاتھ نہیں لگی، تم سندیا کو لے آؤ۔ میں تمہارا آدھا قرض معاف کر دوں گا۔ جاؤ، ماسٹر جی، سندیا کو لے آؤ، جاؤ، جاؤ۔
ماسٹر جی ایک لمحے کو بھونچکا سا ہو جاتے ہیں پھر نڈھال سے ہو کر اُٹھتے ہیں، کچھ لینے کی خاطر کچن میں جاتے ہیں، کچھ تلاش کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ برف توڑنے والا لوہے کا مُٹھ والا کیل نما اُوزار(سُوا) ہاتھ لگتا ہے جسے اخبار میں لپیٹ کر اُس شخص کے پاس آتے ہیں اور اُسے شراب کے گھونٹ لینے میں مگن پا کر ایسا کاری وار کرتے ہیں کہ ایک فیٹ کا کیل (سُوا) اُس کی گردن کے آر پار کر دیتے ہیں۔
پانچ منٹ میں اُس شخص کی تڑپتے ہوئے جان نکل جاتی ہے۔ مردہ حالت میں خون سے لت پت دیکھ کر ماسٹر جی زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور رونے لگتے ہیں۔ اتنے میں ماسٹر رانی آجاتی ہیں اور دونوں دیر تک اُس شخص کی لاش کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔ ماسٹر جی اُٹھ کر ماسٹر رانی کو دوسرے کمرے میں جانے کا کہتے ہیں اور دروازہ بند کرکے آری، ہتھوڑی، سلاخ، کدال، چھری، قینچی سمیت جو کچھ گھر میں موجود ہے سب جمع کرتے ہیں اور لاش کو کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔
پہلے گردن اور سر تن سے جُدا کرتے ہیں پھر ہاتھ کاٹتے ہیں پاؤں کاٹتے ہیں۔ منجھے ہوئے قصائی کی طرح ایک ایک عضؤ کو اس طرح سلیقے سے کاٹتے ہیں کہ دیکھنے والا داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ کام کر چکنے کے بعد دو بڑے تھیلے لاتے ہیں، کمال نظم کے ساتھ چھوٹے بڑے سائز کے ٹکروں کو تھیلوں میں ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد پرانی اخباروں سے کمرے میں پھیلے خون کو صاف کرتے ہیں۔ ماسٹر رانی خوف، دہشت اور صدمے سے نڈھال ماسٹر جی کی اس حرکت سے چپ سادھے کمرے کی دیوار سے لگی سسک رہی ہوتی ہے کہ اُسے دروازہ بند کر لینا کہہ کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔
ماسٹر رانی جیسے تیسے حوصلہ کرکے کمرے کو جھاڑو سے پانی لے کر صاف کرتی ہے۔ اوزاروں کو صحن میں ایک گڑھا کھود کر دبا دیتی ہے۔ ماسٹر جی رات کے پچھلے پہر آتے ہیں، ایک تھیلا اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور قریب بہتی ندی میں پھینک آتے ہیں پھر دوسرا تھیلا کندھے پر ڈال کر لے جاتے ہیں اور ندی میں پھینک آتے ہیں۔
صبح ہو جاتی ہے، سارا دن سوئے رہتے ہیں، رات کے بارہ بجے کچھ سوچتے ہیں، اُٹھ کر ندی کے قریب جاتے ہیں، ندی میں لڑکھائے ہوئے تھیلوں کو باہر نکالتے ہیں۔ قریب پرانے مندر کی عقبی دیوار کے نیچے آگے جلاتے ہی۔ ہر طرف سے اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد تھیلے سے لاش کے چھوٹے بڑے ٹکرے نکالتے ہیں اور آگ میں ڈالتے جاتے ہیں۔
جلتی آگ میں ہڈیوں کو راکھ بنتے دیکھتے رہتے ہیں اور گنگاتے ہیں۔ اس کے بعد راکھ کو تھیلے میں بھر کر ندی میں پھینک دیتے ہیں۔ واپس گھر آکر دیر تک شاور کے نیچے کھڑے ہو کر سر پر پانی ڈالتے ہیں پھر شیو بنا کر پینٹ شرٹ ڈالتے ہیں اور بیگم سے چائے بنانے کا کہتے ہیں جو ڈر اور خوف کے عالم میں سہمی دیوار کے ساتھ لگی کن انکھیوں سے ماسٹر جی کو دیکھتی رہتی ہے۔
ماسٹر جی خود چائے بناتے ہیں۔ چائے بناتے ہوئے ماسٹر رانی کو کہتے ہیں کہ وہ کہتا تھا کہ سندیا کو لے آؤ۔ میں کیسے لے آتا وہ ہماری بیٹی ہے۔ اس کے بعد کہانی آگے چلتی رہتی ہے جبکہ ماسٹر رانی کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور وہ بقیہ فلم میں اپنے خاوند کے ساتھ پورا ساتھ دیتی ہے۔
یہ وادھ فلم حال ہی میں ہونے والے سانحہ سیالکوٹ میں دُہرائی گئی ہے۔ خالہ ساس نے اپنے بھانجے کے ساتھ مل کر اپنی بہو کو نہ صرف پلان کرکے قتل کیا بلکہ اس کے ٹکڑے کرکے کچھ پکائے اور کچھ نالے میں پھینک دئیے تاہم عشق اور مُشک کی طرح یہ قتل چند دنوں میں آشکارا ہوگیا۔
یہ ایک واقعہ نہیں ہے، اس طرح کے سیکڑوں واقعات آئے روز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ ساس کو بہو سے مسئلہ کیا ہے؟ ایک ساس کو آخر کیوں بہو کی ہنستی بستی زندگی اچھی نہیں لگتی۔ کیوں وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹے کا گھر اُجاڑ ڈالتی ہے۔ ایک کیس سٹڈی کے مطابق برصغیر میں بیاہی جانے والی عورتوں میں پچاسی فیصد عورتوں کی شادی اپنی مرضی سے نہیں ہوتی۔
جیسے تیسے یہ عورتیں حالات سے سمجھوتہ تو کر لیتی ہیں لیکن اپنے خوابوں کو دفنانے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ یہ ہر وہ سہولت، آسائش اور آسانی حاصل کرنا چاہتی ہیں جو انھوں نے برسوں سے دل میں پال رکھی ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر راہ میں حائل کر چیز کو نیست و نابود کر دیتی ہیں۔ سیکڑوں کیسز کو پڑھنے اور ہزاروں واقعات کے ایک سے نتائج دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دُشمن ثابت ہوئی ہے۔
مردوں کو عورتوں نے قربانی کا بکرا بنا یا ہوا ہے۔ رشتہ دیکھنے سے لے کر طلاق و خلع تک سارا معاملہ عورتوں کی شہ اور رضا مندی پر انجام کو پہنچتا ہے۔ میرا اپنا گھر محترمہ ساس صاحبہ کی ذاتی خواہش کی عدم تسکین کی وجہ سے برباد ہوگیا جبکہ ہم میاں بیوی زمانے بھر کو گنہ گار اور خود کو اپنے تئیں معصوم گرداننے سے ہنوز نہیں تھکتے۔
عورتوں نے گھروں کے گھر برباد کر ڈالے ہیں۔ یہ ایک وادھ ہے جو مووی میں نظر آتا ہے۔ ہماری معاشرت میں ہزاروں وادھ آئے روز گلی محلے اور کوچوں کُٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں۔ واقعہ رپورٹ ہونے پر لوگوں کی توجہ بریکنگ نیوز کی حد تک لی جاتی ہے پھر سب غائب گُلہ ہو جاتا ہے۔ عورتوں کی اس ابنارمل نفسیاتی کیفیت کو از سرِ نو جانچنے کی ضرورت ہے۔
ایسی عورتوں کو نارمل تو کسی صورت نہیں کہا جاسکتا۔ دُنیاوی ضرورتیں تو دُنیا کے امیر ترین انسان کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔ اس معاملے میں ایک غریب کی جورو کیا کر لے گی۔ صبر، حوصلہ، قناعت اور اپنی چادر میں پاؤں لپیٹے رہنے کی تلقین گویا معاشرے سے اُٹھا لی گئی ہے۔
نفسانفسی کا عالم ہے جسے دیکھو ہاتھ میں کلہاڑا لیے دوسرے کو کاٹنے کے درپے ہے۔ سارا جھگڑا روپے پیسے اور اختیارو اقتدار کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی زندگی دولت کے بغیر کسی عذاب سے کم نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ دُنیاوی ضرورتوں کی خواہش کو کہیں تو لگام دینا پڑے گی۔ فرعون بھی سوچتا ہوگا کہ اتنا حوصلہ تو میرا بھی نہ ہوا کہ میں اپنے خلاف برسر پیکار طاقتوں کو کچل کر ان کے اجسام کو کاٹ کر ندی نالوں میں بہا دوں۔ ظلم کی انتہا کو بھی اپنی خجالت پر پشیمانی کا سامنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم سے بے بہرہ اور شعور سے عاری بے حِس ان عورتوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ معاشرے میں اس طرح وادھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کچھ میسر ہے اسی پر قناعت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اُولاد اپنی مرضی سے بیاہی جائے یا وہ خود آگے بڑھ کر اپنے لیے فیصلہ کر لے۔ اس میں جذباتی ہو کر زندگی کو مٹا ڈالنے کی حماقت اور بے وقوفانہ عمل سے گریز کرنا چاہیے۔
مارنے سے زیادہ مار کر رکھنے کے سیکڑوں طریقے ہیں۔ مار ڈالنا تو کوئی بڑی بات نہیں کہ مزہ تو میدان میں رہ کر مقابلہ کرنے کا ہے۔ حکومت اس معاملے میں مجبور و بے بس ہے، اقتدار کے نشے میں غافل مسند نشینوں کے اپنے جھگڑے ختم نہیں ہوتے، معاشرے کی سدھار کے لیے یہ کیا سوچیں گے۔
بہ حیثیتِ انسان یہ ادوان اور وادھ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ خدا کے لیے اس فرعونی رویے سے اجتناب کیجیے۔ ساتھ رہنا مشکل ہو جائے تو الگ ہو جائے، با ت کو جی نہ چاہے جو منہ پر تالا لگا لیجیے۔ کچھ دینے کا حوصلہ نہ ہو تو تو مانگنے سے بھی احتراز کیجیے۔ قربانی کا حوصلہ نہ ہو تو کسی کو بھینٹ چڑھنے پر مجبور مت کیجئے۔
یاد رکھیے! ایک عدل کا میدان وہاں بھی ہے جہاں آپ نے ظلم کی اتنہا کرکے مظلوم کو پہنچا دیا ہے۔ وہ آپ سے پہلے وہاں فریادِ کُناں ہے۔ سوچیے! آپ کا کیا بنے گا، حشر کے دن آپ کے ہاتھوں مرنے والا جب آپ کے سامنے ہوگا۔ پھر تمہیں کون بچائے گا!

