Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Heera Mandi Ki Tareekh Kya Kehti Hai?

Heera Mandi Ki Tareekh Kya Kehti Hai?

ہیرا منڈی کی تاریخ کیا کہتی ہے؟

پاکستانی سماج میں ایک عُنصر عجب طور سے راسخ ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ اِس سماج کے باسی اپنی غلطی یعنی کرتوتِ ماضی کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہزاروں برس کی روایت اِس سماج کی رہی ہے، سیکڑوں واقعات اِس کی کوتاہیوں، غلطیوں، زیادتیوں اور ظلم و جور کے تاریخ میں محفوظ ہیں جنھیں پڑھ کر شعوری طور پر ان واقعات کی صداقت کا ذہنی اعتراف کر لینے کے باجود یہ سماج اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔

برصغیر یعنی خشکی کا چھوٹا ساٹکڑا وہ علاقہ ہے جس پر ہزاروں برسں تک سیکڑوں بیرونی و اندرونی حکمرانوں نے حکومت کی اور اسے اپنی مرضی سے ہانکنے کی جستجو کی۔ یہاں کے باسیوں نے بیرون سے آنے والے ہر ظالم لٹیرے کو اپنا آقا و مولا تسلیم کرتے ہوئے سر آنکھوں پر بٹھایا، اسے تخت عطا کیا اور اس کی دل و جان سے حمایت و دست گیری بھی کی۔

محمد بن قاسم سے پہلے راجپوت اور راجپوت سے پہلے رامائن کے پانڈوں اور کَوروں نے اس خشکی کے ٹکرے پر برس ہا برس حکومت کی۔ محمد بن قاسم کی آمد سے لے کر سلطنتِ مغلیہ کے زوال تک برصغیر کی یہ سر زمین نام نہاد مسلمانوں کے قبضہ میں رہی۔ ان نام نہاد مسلمانوں نے اپنی عیاشی اور جنسی تلذذ کے حصول کے لیے ہر وہ کام کیا جسے آج ہم عبرت و شرمندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قبحہ خانوں کی تعمیر و آرائش سے لے کر جسم فروشی کے اڈوں کی سرکاری حیثیت میں نیلامی تک انھیں نام نہاد مسلمان بادشاہوں کے شاہکار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انگریزوں کی آمد سے البتہ عورت کو جنس و ہوس کا اشتہار بنا کر اسے بطور جنس بیچنے اور خریدنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ قیامِ پاکستان کے بعد ہنوز پوری شدت سے جاری ہے۔

عورت ہر زمانے میں مظلوم رہی اور اسے جنسی خواہش پوری کرنے کا معتبر ترین ذریعہ قرار دیا گیا۔ عورت کے بغیر مرد کا گزارا نہیں ہے، مرد کو گھر میں بیوی کے نام پر ایک مقید باندی رکھنا با امرِ مجبوری اس لیے ناگزیز ہے کہ سماج کا یہ تقاضا ہے کہ بیاہ کر لائی جانے والی عورت اپنے گھر کو ایک سوتن سے شئیر نہیں کر سکتی البتہ وہ اپنا شوہر باہر کی عورت سے شئیر کرنے کی خاوند کو خوشی خوشی اجازت ضرور دیتی ہے نیز یہ بھی فرماتی ہے کہ باہر جہاں مرضی منہ مارو لیکن گھر میں کسی کو نہیں لانا، یہ میری سلطنت ہے اور یہاں میرے ہوتے کسی اور کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

بازارکے متنوع پُر کشش اجسام کی محبت بھری انگڑائیاں کہاں اور گھر میں قید تابع فرمان عورت کا پژمردہ سرانڈ سے معمور بدن کہاں۔ برصغیر کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجیے عورت کو جنسی شہوت کے طور پر استعمال کرنے کے ہزاروں واقعات ملتے ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جنھیں مورخین نے لکھنا گوارا نہ کیا۔ جنسی زیادتی اور زبردستی ہراسانی کے یہ واقعات بیشتر مسلمان حکمرانوں کے دورِ حکومت سے منسلک ہیں۔

سلطنتِ مغلیہ کے جملہ بادشاہوں کے ہاں سیکڑوں بیگمات سے رشتہ ازواج کا سلسلہ ملتا ہے، ان کے جائز اور ناجائز بچوں اور آل کی تعداد گنتی سے باہر ہے۔ ان مغل فرماں رواؤں سے پہلے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان کے ادوار پر نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے، یہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ جنگوں کے نام کس کو لوٹا جاتا رہا اور اقتدار کے نشے میں دُھت مزے لے لے کر کس کس شریف زادی اور پردہ دار کی عزت پامال نہ کی گئی، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

پاکستانی سماج میں یہ تاثر زہر کی حد تک پھیل چکا ہے کہ ہم نے اپنے نام نہاد بزرگوں یعنی صاحبِ اقتدار مسلمان بادشاہوں کو معصوم اور فرشتہ سیرت قرار دینے میں ہر حد سے گزر جانا ہے۔ انگریزوں کے آنے کے بعد عورت کی جہاں عصمت دری ہوئی وہاں اسے بطور رنڈی، طوائف، قبحہ گر اور جسم فروش ہونے کے ناطے پیشہ ورانہ عزت بھی دی گئی، جو عورتیں دھندہ نہیں کرنا چاہتی تھیں، انھیں قبحہ خانہ سے نکال کر عام عورتوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے گئے، جو اس دھندے کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں، انھیں باقاعدہ تربیت دے کر جگہیں اور فنڈز فراہم کیے گئے تا کہ ہر جگہ اس گند کو نہ پھیلاتی پھریں بیگمات کے ستائے مشتاق افراد رقص و سرود کی ان مخصوص جگہوں کا رُخ کرتے اور اپنی ضرورت پوری کر لیتے۔

مسلمان بادشاہوں کے دورِ حکومت میں ان عورتوں کو محلات تک رسائی تھی، بچوں کو پڑھانے لکھانے اور بادشاہانہ طور اطوار سکھانے کے بہانے بیگمات کے ساتھ گُھل مل جاتی تھیں، راتوں کو محلات کے گمنام شیش محل کے پاپوش جھروکوں میں ناجائز بچے پیدا کرکے وہیں دفن بھی کر دیتی تھیں، مزے کی بات یہ کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ برصغیر کی جملہ تاریخ میں سب سے زیادہ دورِ حکومت نام نہاد مسلمان حکمرانوں کا رہا ہے جن کی جنسی شہوت کے قصے پوری دُنیا کے مورخیں اور سیاحوں کی تحاریر کا حصہ ہیں۔

سنجے لیلا بھنسالی نے حال ہی میں ہیرا منڈی کے نام سے نیٹ فلیکس پر قریباً دو سو کڑور بجٹ کی لاگت سے ایک سیریز بنائی ہے، اس سیریز کے آنے کے بعد پاکستان میں ہر جگہ اس کے چرچے ہیں۔ ہیرا منڈی کا جو ماحول اور رنگ ڈھنگ اس سیریز میں دکھایا گیا ہے، وہ پاکستانی تعقل پسند فلاسفروں اور جعلی مورخین یعنی یو ٹیوبرز کے نزدیک بالکل مصنوعی اور حقیقت کے برعکس ہے، قربیاً پانچ سو کے قریب چھوٹی موٹی وڈیوز اور ہزاروں پوسٹس اس سیریز کے خلاف پاکستان بھر میں بنائی اور لکھی گئی تاکہ اس سیریز کو بکواس اور فلاپ قرار دے کر انڈین فلم انڈسٹری کو بھاری مالی نقصان پہنچایا جاسکے اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو ایک بار پھر سے اپنا ہیروز قرار دیتے ہوئے ان کی جملہ کرتوت کا عَلم بلند کیا جائے۔

چند اصحاب جنھیں خود کو تاریخ دان اور سوشل سائنسز کا ماہر منوانے کا بڑا شوق ہے انھوں نے اپنی پوڈکاسٹ میں بھنسالی کو معافی مانگنے اور سیریز کو بین کرنے کا مشورہ تک دے ڈالا ہے، عجیب بات ہے کہ پاکستانیوں کو ہیرا منڈی کی اس سیریز سے اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ ہیرا منڈی جو لاہور کے ٹکسالی گیٹ کے اندرون ایک زمانہ میں آباد تھی، وہ اب بھی اسی جگہ خفیہ اور گمنام جگہوں پر اپنی باقیات کو سمیٹے ہوئے موجود ہے۔

ہیرا منڈی کو بنانے والے بے شک ہیرا سنگھ تھے جنھوں نےاسے مختلف اجناس کی خریدو فروخت کی غرض سے بنوایا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بازار بطور کاروباری منڈی کے مدتوں کامیابی سے چلتا رہا۔ مرورِ وقت کے ساتھ ہیرا منڈی میں عورت کو بطور جنس خریدو فروخت کے لیے لانے اور لے جانے کا کاروبار چل نکلا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہیرا منڈی کو جنس و شہوت پرستی کا اڈہ بنا دیا۔

ہیرا منڈی قیامِ پاکستان سے قبل اور جنرل ضیا الحق صاحب کے بعد سے جنرل مشرف کے دورِ حکومت تک جنس و شہوت کا مرکز رہا ہے۔ جنرل ضیا الحق کی کوشش سے یہاں سے بے دخل کی ہوئی طوائفوں کو پورے شہر میں قبحہ گری کے لیے پھیلا دیا گیا تھا، رہی سہی کسر جنرل مشرف نے نکال دی کہ ان طوائفوں اور جسم فروشوں کو پورے پاکستان میں پھیلا دیا کہ اب پاکستان کا کوئی چھوٹا بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں ہیرامنڈی کی باقیات کا وجود سرگرم نہ ہو۔

ہیرا منڈی میں عورت یعنی خوبصورت عورت کو رقصایا، ٹھہرایا، گرمایا، تڑپایا اور شہوایا جاتا تھا، یہاں ہر قسم کا میراثی، بانڈ، لُچا، لفنگا، بدمعاش، اداکار، صدا کار، ڈراما باز، شریف النفس اور ذی شعور انسان رہتا تھا۔ ہیرا منڈی میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی تھی، جن طوائفوں کے کوٹھے یہاں آباد تھے وہ اتنی امیر ہوتی تھیں کہ حکومت میں موجود افراد ان سے الیکشن کی تشہیر کے لیے فنڈنگ لیا کرتے تھے، نام نہاد کاروباری افراد کے کاروبار میں ان کا باقاعدہ حصہ ہوتا تھا اور یہ اپنے علاقے کا پاوا سمجھی جاتی تھیں، کسی تھانے دار اور علاقے کے بدمعاش کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان سے پنگا لے کہ ہر مردِ دانا کی خواہشیںِ اولیں کا سامان لطیف ان کے پاس وافر مقداد میں موجود ہوتا تھا۔

ہیر امنڈی میں فقط گانے بجانے کی مد میں کروڑوں روپے روزانہ اکھٹا ہوتے تھے، خوب صورت ہیروں کی ایک رات کی بکنگ لاکھوں روپے میں ہوتی تھی، اس حمام میں سرکار، ریاست، قانون، محافظ اور باغبان سبھی ننگے تھے، کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا، ایک طرح کا نظم و نسق قائم تھا اور ہر شخص اپنی حد جانتا تھا۔ ناچ گانے سے جسم فروشی تک یہ کاروبار کم و بیش پچاس برس کامیابی سے چلتا رہا۔

گناہ کی طاقت اور سطوت کو ایک دن تنزل کا شکار ہونا پڑتا ہے، ہیرا منڈی کا یہ گرم بازار مرورِ وقت کے ساتھ خود ہی ٹھنڈا ہوگیا، پے در پے حکومتوں کی تبدیلی، امریکی ڈالروں کی آمد، سیاست میں آمریت کی مداخلت، قابو سے باہر مہنگائی، دہشت گردی کا ناسور اور تعلیم سے شناسائی نے اس منڈی کی رونق کو ایسا زوال آمادہ کیا کہ تماش بینوں کی آمد کا رجحان کم ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بازار اپنی موت آپ مرگیا۔

سنجے لیلا بھنسالی کی سیریز یعنی ہیرا منڈی میں جو عہد دکھایا گیا ہے، اُس کا تعلق پاکستان کے ساتھ بنتا ہی نہیں ہے، پاکستان کا قیام 1947 میں ہواہے جبکہ ہیرا منڈی سیریز میں 1910 سے 1940 کا عہد دکھایا گیا ہے، ہیرا منڈی کا یہ عہد فقط نوابوں، جاگیر داروں، لٹیروں اور انگریزوں کی جنسی شہوت کو پورا کرنے کا عہد تھا، ایک عام آدمی اس بازار میں جانے کی اُس وقت جرات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سادہ سا اُصول ہے کسی عمارت یا ریاست کو بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے اور بن جانے کے بعد اس کے استعمال کے بعد اس کے انہدام کی صورت کیا ہوتی ہے، یہ دو مختلف حالتیں اور کیفیتیں ہیں۔

پاکستان کو بنانے کا مقصد کیا تھا اور آج پاکستان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، پچاس سال بعد ہم کیا یہ بتائیں گے کہ پاکستان کے قیام سے آج تک یہاں اسلام کا ڈنکا بجتا رہا ہے، کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ قانون کو ہاتھ میں لے سکے اور اس کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کی حرکت کر سکے، یہ ملک دودھ کی نہریں بہاتا رہا، شہد کے پہاڑ غریب رعایا میں خیرات کرتا رہا ہے اور یہاں کبھی کوئی گناہِ صغیر بھی سرزد نہیں ہوا۔ کیا اس دعویٰ کو دُنیا مِن و عن مبنی بر حقیقت تسلیم کر لے گی؟

حقیقت یہ ہے کہ ہیرا منڈی میں عورتوں کے ساتھ ریپ سے لے کر جسموں کو زبردستی ادھیڑنے تک کا فریضہ غیر مسلم ناسوروں کے ساتھ مل کر نام نہاد مسلمانوں نے برس ہا برس انجام دیاہے، اس حقیقت کو آپ جھٹلاتے رہیں، آپ کے جھٹلانے سے ندامت و شرمندگی کا یہ باب گورکھ دھندہ نہیں بن سکتا۔ جس قوم کے تعقل پسند اذہان اپنے بزرگوں کی غلطیوں اور گناہوں کے کارناموں کا اعتراف کرکے انھیں قصور وار نہیں گردانتے وہ کبھی آگے بڑھنے کا سفر شروع نہیں کرتے۔

ہمارا اجتماعی اور بہ حیثیتِ قوم یہ مسئلہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ خود کو معصوم اور فرشتہ سیرت ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی توانیاں صرف کرڈالتے ہیں، ہم کوہلو کے بیل کی طرح صدیوں سے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز ہونا ہے۔ خدا کے لیے آگے بڑھیے اور اپنے ساتھ رُکے ہوئے سفر کو بھی بڑھاوا دیجیے۔ دُنیا آپ کی سوچ کی پستی اور اقدار کی ارزانی کا مذاق اُڑا رہی ہے اور آپ اپنے تئیں منہ میاں مٹھو بنے خود کو دُنیائے عالم کا واحد فاتح سمجھ بیٹھے ہیں۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan