Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Dr Nasir Abbas Nayyar, Hadaf e Malamat Kyun?

Dr Nasir Abbas Nayyar, Hadaf e Malamat Kyun?

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر، ہدفِ ملامت کیوں؟

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر اُردو ادب کے جانے پہچانے بلکہ بہت اچھے سے جانے پہچانے شخص ہیں۔ ناصر عباس نئیر نے اُردو ادب کو اُن موضوعات سے روشناس کروایا جس سے اُردو ادب واقف نہ تھا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر ایک کامیاب اُستاد، نقاد، افسانہ نگار اور محقق ہیں۔ ناصر عباس نئیر کی سوانح و شخصیت سب پر عیاں ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر پنجاب یونیورسٹی کے اورنٹل کالج میں برسوں سے تدریس کے فرائض انجام دے رہیں۔ ان کے علم ہزاروں جوئندگانِ علم نے فیض پایا ہے جو شعبہ تعلیم میں مختلف درس گاہوں میں کامیابی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

حال ہی میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کو پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے جن میں اُردو ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا حصہ خاصا زرخیر ہے جو خوش آئند ہے۔ اُردو ادب سے متعلق ان احباب کے علمی و ادبی اور تحقیقی و تخلیقی کو تقابل کے اعتبار سے ناصر عباس نئیر کے کام سے موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ آئینہ خود آئینے کے روبروہوجائے گا۔

پرائڈ آف پرفارمنس لینے والے احباب سے میرا ذاتی کوئی تعارض نہیں ہے مجھے خوشی ہے کہ ان کے کام کے معیار کو دیکھا، پرکھا، آنکا گیا اور پھر انھیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ لائقِ تحسین روش ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔ میرا ذاتی احساس اور احتجاج یہ ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کی ذات کو ہدفِ ملامت کیوں بنا یا جا رہا ہے۔ ان کے کام کو کیوں نہیں سراہا جا رہا۔ ان کا کام کیا اس لائق نہیں ہے کہ حکومتِ پاکستان انھیں ایوارڈ سے نوازے۔

اُردو ادب اور زبانِ اُردو کو جس انداز میں ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے دیکھا ہے اور اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور اسے جدید اور مابعد جدید نظریات و تصورات سے آشنا کیا ہے یہ کام بذاتِ خود اتنا بڑا ہے کہ جب تک اُردو زبان اور اُردو ادب باقی ہے اور ڈاکٹر ناصر عباص نئیر بطور حوالہ قارئین میں موجود رہیں گے۔ ایک شخص جس نے اپنی پوری عمر ادب کی خدمت میں گزاری ہے اور اُس نے جو کام کیا ہے وہ ہر اعتبار سے اس لائق ہے کہ اس پر بات کی جاتی ہے، حوالہ دیا جاتا ہے اور نصابات میں شامل کیا جاتا ہے اور نقد و نظر میں پرکھا ٹٹولا جاتا ہے تو اس شخص کی جذباتی رَو اور محب الوطنی کے جذبے کو ایوارڈ کی نامزدگی سے تسکین دے کر اس کی قوتِ تخلیق کو مہمیز کیا جاسکتا ہے۔

اُردو ادب کے زوال میں کارفرما عناصر میں سب سے مہک عنصر ادب تخلیق کرنے والے گروپس کا ہے جنھوں نے باہمی چپلقش اور ذاتی انا کو لے کر رنجشوں کو اس قدر بڑھاوا دیا ہے کہ ادب کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔ پاکستانی جامعات میں جو تحقیق ہو رہی ہے اور اس کا جو معیار اُسے دُنیا کی کسی جامعات کی تحقیق کے معیار کی کسوٹی پر پرکھ دیکھ لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ایم فل، پی ایچ۔ ڈی کرنے والے طالب علم اپنے موضوع کا بنیادی دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ ایچ ای سی کے اصول کے مطابق فقط ایک مقالہ لکھنے کے لیے جامعات کے مصدقہ ریسرچ جنرل نے مقالہ شائع کروانے کے لیے پانچ ہزار سے لے کر لاکھ روپے تک ریٹ رکھا ہوا ہے اور پھر جو جتنا گُڑ ڈالے، وہ اُتنا ہی میٹھا اور سَوا ہو کر دوسروں پر زہر اُگلے۔

عجب تماشا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جامعات میں کیا تحقیق ہورہی ہے اور معیار کا کوئی خیال اور لحاظ روا رکھا گیا ہے جو ستائشِ باہمی کی محافل آباد ہیں۔ اُردو تحقیق کے معاملے میں ایچ ای سی کے اصول بھی ادب کُش اور مہمیز شکن ہیں۔ پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ کسی کو پڑھنے نہ دیا جائے اور شعور کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے اور اگر کوئی بچ بچا کر ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی تک آگیا ہے تو پھر اس سے کوئی ایسا کام نہ کروائیں کہ اس کا نام ہو اور ادب میں اس کی جگہ بن جائے۔

جامعات کے اساتذہ کسی کو اپنی جگہ دینے کو تیار نہیں۔ یہ مثل بن چکی کہ سرکاری جامعات میں کسی کو کام نہیں کرنے دینا اور نجی جامعات میں کسی سے کام نہیں لینا۔ عجب تماشا ہے بھیا! کس کس بات کا رونا رُویا جائے۔ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ایسے تنزل آمیز، مہمیز شکن حالات میں ڈاکٹر ناصر عباس نئیر اور ان کے ہم عصر ہمہ جہت نقاد و محقق و دانشواران کو ہدفِ ملامت بناکر ان کی علمی و ادبی خدمات کو مسلسل نظرانداز کرنا کس عنصر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پرائڈ آف پرفارمنس، ہلالِ امتیاز اور نشانِ امتیاز دینے والی سلیکشن کمیٹی کو ایسی شخصیات کیوں دکھائی نہیں دیتیں جنھوں نے اپنی عمر آرٹ کو سونپ دی اور جواب میں معاشرے میں ان کے لیے طنز و تعارف اور تنقید و تنقیس کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟ میں اُردو ادب کے جملہ ادب خلق کرنے والے جملہ احباب سے پوچھتا ہوں کہ ادب کی خدمت کی تحسین کا معیار کیا ہے؟ علمی و ادبی خدمات قدر افزائی کا کرائی ٹیرئیا کیا ہے؟ اگرچاپلوسی، منافقت، مفاد پرست مبالغی، ٹی سی، بہتان تراشی، طعن و ملامت، تنقید و تنقیس ہی اس کا کرائی ٹیرئیا ہے تو ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کو کسی ایوارڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کا ایوارڈ ہم ایسے ہزاروں طلبا ہیں جنھوں نے اُردو ادب کو صحیح طریق سے سمجھنے اور تنقید کے پیراڈائم کو اس کی مبادیات کے اوریجنل ڈسکورس میں جاننے کا گیان ان سے حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کا ایوارڈ پاکستان بھر میں سرکاری و نجی کالجز اور جامعات میں شعبہ ہائے تدریس سے وابستہ ہزاروں طالب علم ہیں جو ان کے پڑھائے ہوئے، بتلائے ہوئے اور سکھائے ہوئے اُصول نقد و نظر کو لے کر ادب کے میدان میں کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔

میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ مضمون میرے ذاتی تاثرات پر مبنی ہے۔ اس مضمون کو ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کی طرف بطور احتجاج ہرگز منسوب نہ سمجھا جائے۔ ایک استاد معاشرے کا معمار ہوتا ہے۔ جو معاشرہ معمار کے فن میں نقص ٹٹولتا ہے، وہ خود کو مضبوط عمارت سے منسوب کرنے کی نسبت سے محروم ہوتا ہے۔ پاکستانی ریاست کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ پاکستان کی خدمت کرنے والوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

ایوارڈ اور امتیازات دراصل حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے جو انسان کو مزید خدمت کرنے پر مہمیز کرتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، مائیں اپنے بچوں سے سوتیلا پن اختیار کریں گی تو بچوں سے وفاداری کی توقع کرنا گویا بنجر کوکھ کو زرخیر کرنے کی آرزو محض خوابِ شیخ چلی ہے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed