Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Doctor Munawar Hashmi

Doctor Munawar Hashmi

ڈاکٹر منور ہاشمی

کانفرنس ہال کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ مشکل سے ایک سیٹ بیٹھنے کی غرض سے کسی صاحب نے اوندھا کر رکھی تھی۔ میں جا کر آرام سے وہاں بیٹھ گیا۔ دو چار منٹ بعد وہ صاحب تشریف لائے جنھوں نے سیٹ کو اس طرح اوندھا کر رکھا تھا کہ کوئی اسے ٹوٹی ہوئی سمجھ کر بیٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ مجھے سیٹ پر قابض دیکھ کر وہ صاحب غصے سے تِلملا کر رہ گئے۔ خفگی وپشیمانی کے عالم میں غراتے ہوئے کہیں اور تشریف لے گئے۔

میں نے انھیں کن انکھیوں سے دیکھا اور چُپکا ہو رہا کہ اب کچھ کہنے اور مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیٹ مل گئی ہے۔ باقی جائے بھاڑ میں۔ اسٹیج سیکرٹری نے حاضرین کو متوجہ کیا کہ یہ جلسہ جن عظیم اُستاد، شاعر، محقق، نشر کار، سماجی کارکُن اور اقبال شناس کے اعزاز میں منعقد کیا جا رہا ہے، وہ بس تشریف لایا ہی چاہتے ہیں۔ آپ اپنی سماعتوں کو بیدار رکھیں اور شعور کی نکیل کو ڈھیلا نہ پڑنے دیں کہ سیکھ ایسے مواقع بار بار میسر نہیں آتے۔

قصہ مختصر وہ صاحب تشریف لائے اور مرکزی سیٹ پر مصاحبین سے مصاحفہ کے تبادلہ کے بعد تشریف فرما ہوئے۔ حاضرین نے کھڑے ہو کر مودبانہ تالیاں بجاکر استقبال کیا۔ تقریب کی ظاہری ہیت تحکم آمیز اور مہمانِ خصوصی کی وضع قطع انتہائی شریفانہ، عاجزانہ بلکہ خاکسارانہ تھی۔ ذہن میں شک گزرا کہ یہ کیسے صاحب ہیں جو اپنی وضع قطع سے بھلے مانس معلوم ہوتے ہیں اور مزاج سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ اچانک ذہن میں خیال نے انگڑائی لی کہ سُنے بغیر رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔ حوصلہ جمع رکھو اور اطمینان سے لیکچر کا لطف لو۔ موصوف کو سُننے کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ علم کی وسعت اور تجربے کی حدت سے ان کے تفکر کی اوج کس مدار پر محوِ گردش ہے۔

یہ صاحب ڈاکٹر سید منور ہاشمی ہیں۔ نام تو سُنا تھا تاہم ان سے رسم وراہِ اُلفت کا موقع ہنوز میسر نہ آیا تھا۔ حمد و نعت کے بعد اسٹیج سیکرٹری نے مہمانِ خصوصی کا تعارف کروایا اور بغیر کسی مبالغہ اور خوشامد کے لیکچر کے لیے اسٹیج پر انھیں مدعو کیا۔ ڈاکٹر منور ہاشمی صاحب نے نہایت عاجزی سے کھڑے ہو کر سب کو سلام کہا اور ڈائس کے سامنے ایستادہ ہو کر اظہارِ خیال شروع کیا۔ جیسے جیسے بولتے جاتے تھے۔ لہجے کی شیرنی، الفاظ کا چناو، ادائیگی کا انداز اور خیالات کی منطقی ترتیب کا حُسن، ایک ایسا طلسم طاری کر رہا تھا کہ سُننے والے دم بہ خود ساکت رہ گئے۔

علامہ اقبال کی شخصیت و شاعری پر ایک گھنٹہ کی اس گفتگو نے سامعین و ناظرین کے دل موہ لیے۔ گویا یہ وہ بات تھی کہ دل سے بات نکلی اور سیدھی دل میں اُتر گئی۔ علامہ اقبال کے ڈاکٹر صاحب نے وہ نا شنیدہ اشعار سُنائے جو بہت بار پڑھنے کے باوجود سمجھ سے بالاتر تھے۔ علامہ اقبال کی شخصیت سے متصل جزوی واقعات کی تفہیم کو ڈاکٹر صاحب نےاس طرح سامعین پر یوں واضح کیا کہ گویا علامہ اقبال بہ نفس نفیس خود اس بزم میں تشریف لایا ہی چاہتے ہیں۔

علامہ اقبال کے شیدائیوں، قدر شناسوں، محققین اور اقبال شناسی کے دعواداروں کو بہت سُنا اور ان کی تنقیدی و تحقیقی تحاریر سے بھی گاہے گاہے متعارف ہونے کا موقع ملتا رہا ہے تاہم ڈاکٹر منور ہاشمی صاحب نے علامہ اقبال کی فطرت نگاری، رب تعالیٰ سے الفت و موانست کا تعلق اور مسلمانوں کے لیے اسلام کی جدید تشکیل کے مضمرات پر جس محققانہ اور دل پذیرانہ انداز میں گفتگو کی، سبھی شرکا، سامعین اور ناظرین کے لیے یہ بالکل نئی اور ہوش ربا معلومات تھی۔ لیکچر کے اختتام پر سامعین کے پُر زور اصرار پر ہاشمی صاحب نے اپنے اشعار سنائے جنھوں نے اس لیکچر اور بزم کے جملہ احوال کو یادگار بنا دیا: ؎

ایک ہی مسئلہ مرا تا عمر حل نہ ہوا

نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا

؎

جن کو اک عمر کا نذرانہ دئیے بیٹھے ہیں

آج تک اُس سے تعارف بھی مفصل نہ ہوا

؎

تمہار انام اِسی واسطے تو زندہ ہے

تمہارے نام پہ مرنا تھا جن کو مر بھی گئے

؎

سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے

اپنی پہچان مگر سب سے جدا رکھی ہے

جانے کس راہ سے آجائے وہ آنے والا

میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے

مکرر، مکر اور واہ واہ کی دادِ و تحسین سےبزم کا اختتام ہوا۔ طلبا و طالبات کی ایک کثیر تعداد نے سلیفیاں لیں اور من پسند فوٹو بنوائے۔ چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں سیدھا ہاشمی صاحب کے پاس چلا آیا۔ اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں تھوڑا بہت سُنا تھا لیکن براہ راست آج سننے کا اتفاق ہوا۔ علامہ اقبال پر کام کرنے والوں اور عشق کا دعوی کرنے والوں میں آپ کی شخصیت کو سب سے منفرد، جدا اور دلا ٓویز پایا۔ انھوں نے انتہائی عاجزی اور آہستگی سے نوازش، نوازش پکارا اور آگے بڑھ گئے۔ اس ملاقات کے بعد ہاشمی صاحب سے ایک تعلق قائم ہوا جو ہنوز برقرار ہے۔

ڈاکٹر منور ہاشمی کی زیرِ نگرانی نادرن یونیورسٹی نوشہرہ سے پی ایچ۔ ڈی(اُردو) کی تحصیل کی۔ یہ اعزاز اپنی جگہ ہے۔ تاہم ان کی صحبت میں رہ کر اقبال شناسی کے باب میں دبے کتبوں کی دریافت سے جو علم و شعور میسر آیا، وہ خالصتاً ان کی توجہ اور محبت کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر منور ہاشمی نے علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ علامہ پر پانچ کتب سمیت درجنوں مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ بطور محقق ان کا کام چھپا ہوا ہے اور معیار کے سبھی تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔

ڈاکٹر منور ہاشمی نے تیس کے قریب کتب تالیف و تخلیق کی ہیں جن میں علامہ اقبال کی فطرت نگاری، فیضِ اقبال، اقبال ایک فکر، ایک تحریک، اقبال کے معاصرین پر اثرات اور تجزئیات اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر منور ہاشمی بطور شاعر اُردو دُنیا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ جہاں جہاں اُردو زبان بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں ڈاکٹر منور ہاشمی کی شاعری کا چرچا ہے۔

ڈاکٹر منورہاشمی نے غزل کے علاوہ نعت میں بھی طبع آزمائی کی ہے جو ان کے خاندان کا حضور اکرم ﷺ سے عقیدت کا انفرادی وصف ہے۔ ڈاکٹر منور ہاشمی کے شعری مجموعوں میں سوچ کا صحرا، کرب آگہی، بے ساختہ، لوح بھی تو قلم بھی تو، نیند پوری نہ ہوئی قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا شعری کلیات غزل اے غزل کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر منور ہاشمی نے علم و ادب کی آبیاری کے علاوہ علمی صحافت میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے علمی صحافت کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی ہےجو جامعات کے سلیبس میں شامل ہے۔ انھوں نے ایک عرصہ ریڈیو میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔

ڈاکٹر منور ہاشمی نے مختلف جہات پر کام کیا ہے۔ عمرِ عزیز کا ایک تہائی حصہ سیر و سیاحت کی آوارگی میں گزارا۔ علم و شعور کی آگہی میں جہاں جہاں ممکن ہوا ریاضت و مشقت کا تسلسل جاری رکھا۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے عوض درجنوں مختلف علمی و ادبی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جن میں اقبال ایوارڈ، محسن اُردو ایوارڈ، ایوان ایوارڈ، نشان فصلیت، نشان کارکردگی، ایشین ایوارڈ، نشان اقبال اور اہل قلم ایوارڈ قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر منور ہاشمی وفاقی اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔

گذشتہ پانچ برس سے نادردن یونیورسٹی، نوشہرہ میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی زیرِ نگرانی سیکڑوں طلبا و طالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تحصیل کی ہے اور اپنی زندگی میں کامیاب مدرس و محقق کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نادرن یونیورسٹی نے ڈاکٹر منور ہاشمی کی لیاقت، معاملہ فہمی اور وسیع انتظامی تجربے اور جہد و لیاقت کی لائقِ مثال ریاضت سے متاثر ہو کر میرٹ پر انھیں یونیورسٹی کا ریکٹر مقرر کیا ہے۔

بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو ڈاکٹر منور ہاشمی کے حصے میں آئی ہے۔ ڈاکٹر منور ہاشمی کی شخصیت اور شاعری پر درجنوں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جاچکے ہیں اور ملک بھر کے نمائندہ میڈیا نیٹ ورک نے ان کے انٹرویوز کیے ہیں۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر منور ہاشمی کی شخصیت کسی مبالغہ آمیز تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ میں نے ذاتی حیثیت سے ان سے جتنا فیض اُٹھایا ہے، وہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اپنی بات کو احمد فراز کے اس شعر سے ختم کرتا ہوں: ؎

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra