Dehati Dost Se Shehri Babu Ka Mukalma
دیہاتی دوست سے شہری بابو کا مکالمہ
میں سوچ رہا ہوں، یہ والی بھینس خرید لوں، بچوں کو دُودھ مل جائے گا، اماں بیمار رہنے لگی ہیں، کٹّی بیچ کر اِن کا علاج کروا لوں گا، ابا ابھی ہٹے کٹے ہیں، ان کو دو قت کی روٹی چاہیے، گزارا چل رہا ہے۔ بیوی کو تو زبان درازی کی عادت ہے، اللہ نے اسے چہرہ خوبصورت اور زبان بد صورت عطا کی گئی ہے، یہ ناشکری مخلوق کبھی راضی نہیں ہو تی، چاہے اِ ن کے آگے دل و جگر کے ٹکرے کر ڈالو، اپنی ہڈیاں قصاب کو دے آؤ۔
انھیں کچھ فرق نہیں پڑتا، پانچ بچے مشکل سے پیدا کیے ہیں، بس دو بچے اور لینے ہیں، پھر اِسے چلتا کرنا ہے، بہت تماشا دیکھ لیا اِس کا، یہ گھر گھر کی ٹھوکریں کھائے گی تو عقل ٹھکانے آجائے گی، اللہ کرے چودھری کا بیمار بیٹا مرجائے، تو ہمارے نصیب جاگ اُٹھیں، ہمسائے نے تنگ کر رکھا ہے، اس کی دیوار میں کسی روز بارش کے موقع سے فائدہ اُٹھا کرگھڑوں پانی ڈالنا ہے تاکہ یہ چھت گرنے سے مر جائے اور اس منحوس سے جان چھوٹ جائے۔۔
بس یار، اور کیا بتاؤں یہی حالات ہیں آج کل، تم سناؤ، شہر میں تو سب اچھا ہی اچھا کا ہے، سُنا ہے، تم نے پلاٹ لے لیا ہے، کتنے کا لیا ہے، تمہاری بیوی تو کمانے والی ہے، ہماری تو روٹیوں کے بخیے ادھیڑ دیتی ہے، پھر بھی اِس کی بھوک ختم نہیں ہوتی، تمہارا بیٹا کس جماعت میں پڑھتا ہے، میرا تو نِرا نکما نکلا ہے، میں سوچ رہا ہوں، اسے فیکٹری میں ڈال دوں، چار پیسے کمانے لائق ہو جائے تو اِس کی شادی کردوں۔۔
آرام سے بیٹھو، چارپائی چُبتی ہے تو کُرسی لے آتا ہوں، بابو صاحب ہو، بھائی، چارپائی پہ اب تم سے کیوں کر بیٹھا جائے گا، ہم تو غریب لوگ ہیں، اماں نے چار پائی کے دو جوڑے دئیے تھے، ایک بیوی کی پتلی کمر سے شرما کر ٹوٹ گئی اور دوسری کا ایک پایہ بیل نے سینگ اٹکا کر توڑ ڈالا ہے، رات کو ٹوٹے پائے والی چار پائی کو رسی سے باندھ کر سو رہتا ہوں، ہمارے نصیب میں کُرسی، بیڈ اور آرام دہ صوفے کہاں ہیں، ہم تو مٹی کے ماتے ہیں، اسی میں سو رہتے ہیں، ہمارا رب ہی ہم سے روٹھ گیا ہے، سب کی بن آئی ہے بس ایک میں بد نصیب ہوں، جس چیز میں ہاتھ ڈالتا ہوں، راکھ ہی نکلتی ہے۔۔
تم اتنے مایوس، نااُمید اور رب سے ناراض کیوں ہو۔۔ تم بھی عجیب بات کرتے ہو، یار، میری بات سُنو، میں نے رب کا کیا بگاڑا ہے، مجھے بھی کھانے پینے اور اوڑھنے کے لیے سب کچھ چاہیے۔ میں تہجد کے وقت اُٹھتا ہوں، دن بھر مزدوری کرتا ہوں، رات کو گھر آتا ہوں، بیوی لڑائی کا موڈ بنا کر بیٹھی ہوتی ہے، اس کُتیا کے منہ لگنے کی بجائے دوستوں کے ہاں چلا جاتا ہوں، رات بھیگ جاتی ہے، گھر آتا ہوں تو دروازہ مقفل کر لیتی ہے، کھٹ کھٹا کھٹ کھٹا کر ہانپ جاتا ہوں، کہتی ہے جس کُتیا کے پاس گئے تھے، وہیں سُو رہو، اب یہاں کون سی رام لیلا کا سوانگ رچانے آئے ہو۔۔
زندگی عذاب ہوگئی ہے، نہ ماں خوش ہے، نہ باپ، بیوی بچے بھی نارا ض اور خفا رہتے ہیں۔ کاش میں بھی تمہاری طرح پڑھ لکھ جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ تم بڑے میسنے نکلے، مجھے اچھی طرح یاد ہے، میری کتابیں ادھار مانگ کر پڑھا کرتے تھے، سکول میں سب نے نقل سے میٹرک پاس کیا، تم بھی ایسے ہی پاس ہوئے تھے، پتہ نہیں تمہارے ہاتھ کون سی گیڈر سنگھی لگی کہ تم ایم فل، پی ایچ ڈی کر گئے اور اب بابو صاحب بن کر گاؤں آتے ہو، ہر شخص تمہاری عزت کرتا ہے اور مجھے دیکھو میں جانوروں میں رہ کر جانور بن گیا ہوں۔
میری زندگی جانوروں والی اور میری اُولاد بھی جانور ہی بن جائے گی ایک دن۔۔ یار، ایسا نہیں سوچتے، یہ نصیب کی بات ہے، میں نے محنت ضرور کی ہے لیکن یہ میری محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ ماں باپ کی دُعا اور اللہ کا فضل ہے۔۔ یار، میں نہیں مانتا ان باتوں کو، جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ یہی باتیں کرتا ہے، مجھے تو ماں باپ کی دُعا نہیں لگی اور نہ ہی میرے نصیب اچھے رہے، میں بھی محنت کرتا تھا لیکن میرے نمبر کبھی بیس سے اوپر نہیں آئے۔
ماسٹر جی کے جانوروں کو سارا سال چارا میں نے ڈالا ہے، اُن کے گھر کے کام میں نے کیے ہیں، ان کی بچیوں کو شہر چھوڑنے میں جاتا رہا اور جواب میں کیا ملا، خالی خولی پیار، پھیکی دُعائیں اور بڑا سا ٹھینگا۔ ماں باپ نے مجھے ہمیشہ بد دُعا ہی دی ہے، کہتے ہیں تو ہمارے گھر میں ناسور پیدا ہوا ہے، جس دن سے تو نے آنکھ کُھولی ہے، مصیبتوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے، پتہ نہیں اماں کہا ں کہاں سے تعوز، گنڈے کروا کر لاتی تھی، سارے گھر میں یہاں وہاں تعویذ بندھے رہتے تھے، گھر میں پانی کا روزانہ چھڑکاؤ کر تی تھی، اب بھی تمہاری بھابھی سے جھگڑا کرکے ہر جمعرات کو زردہ پکا کر بچوں میں بانٹتی ہیں، خود بھوکا رہتی ہے لیکن محلے کےبچوں کو بابا جی کے نام پر کھلاتی ہے۔
یہ عورتیں پتہ نہیں بابوں کے پاس کیا لینے جاتی ہیں، میری ماں نے پورا گھر ان بابوں کے ڈیروں ڈھو ڈالا ہے، بیوی بھی اماں سے کم نہیں ہے، اِس نے بھی قریب دور کا کوئی بابا نہیں چھوڑ ا جس سے مجھے زیر کرنے کے لیے تعویذ نہیں کروایا، کہتی ہے گھر میں بے برکتی کا راج ہے، جنات کا سایہ ہے، یقین نہیں آتا تو دیکھو، مٹی سے آٹا چوری ہوجاتا ہے، کپڑے کٹ جاتے ہیں، جوتے گُم ہو جاتے ہیں، میں اِس سے کہتا ہوں کہ کوئی ایسا تعویذ کروا کے لاؤ کہ میں ہی گم ہو جاؤں، کٹ جاؤں اور مر جاؤں تا کہ تمہارے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے اور تمہارے بابے بھی سکون کا سانس لیں۔۔
اچھا، چھوڑو، ان باتوں کو، اُس کی سناؤ، کس حال میں ہے۔۔ کون، ابے وہی، جس کے حُسن کا چرچا اور تمہارے عشق کا تذکرہ پورے گاؤں میں پھیلا ہوا تھا۔۔ اچھا، وہ، اُس کی مت پوچھو یار، وہ میرے کلیجے کا زخم ہے جو کبھی مُند مل نہیں ہو سکتا، اب تو مدت ہوئی اُسےدیکھے، پتہ نہیں کس حال میں ہے، کیا بتاؤں یار، زندگی اجیرن ہوگئی ہے، دن کا پتہ ہے، نہ رات کا، اب تو مہینوں اُس کے کوچے کا چکر نہیں لگتا۔۔
شادی کر لی اُسے نہیں۔۔ نہیں یار، ابھی نہیں کی، بیٹھی ہے میرے انتظار میں، میں نے کئی بار سرِ راہ ملاقات اُسے سمجھایا ہے کہ میری قسمت میں ایک چڑیل لکھی تھی، سُو وہ آگئی اور تمہارا راستہ ہمیشہ کے لیے کاٹ گئی، اب تم میرا انتظار نہ کرو، بوڑھی ہوچلی ہو، تمہاری جوانی اور حُسن بھی ماند پڑ تا جا رہا ہے، شادی کر لو، بڑھاپا ہی اچھا گزر جائےتو غنیمت ہے، لیکن وہ نہیں مانتی، کہتی ہے کہ تمہیں چاہا ہے اور دل سے عشق کیا ہے، تم بے وفا نکلے ہو تو اس میں میری چاہت کا کیا قصور ہے، میں عمر بھر تمہارا انتظار کرو گی، چوھری گھرانے کی مُٹیار ہوں، اتنی آسانی سے محبت کی وفا داری کو غروب نہیں ہونے دوں گی۔۔
تو کیا واقعی وہ شادی نہیں کرے گی۔۔ لگتا تو یہی ہے کہ نہیں کرے گی، ا ُس کی مٹتی جوانی اور ماند ہوتا حُسن اور شریکوں کے طعنے سُن کر میرا کلیجا کٹتا ہے، اُسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، رات اُس کی یاد میں کروٹیں لیتے گزر جاتی ہے، صبح لوہا کوٹ کوٹ کر ہاتھ زخما لیتا ہوں۔۔ یار مجھ سے غلطی ہوئی ہے، محبت میں بے وفائی نہیں ہونی چاہیے، اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ بھاگ چلتے ہیں، میں نے ہمت نہیں دکھائی، کا ش میں اُس وقت ہمت کر لیتا تو آج پچھتاوے کا ڈنک مجھے ہر لمحہ یوں نہ ڈستا۔۔
تمہارے بڑے بھائی والے عدالتی مقدمے کا کیا بنا، سُنا ہے اُس نے تمہارےباپ کی ساری جائیداد ہڑپ لی ہے، شیدے نے مجھے راستے میں تمہاری طرف آتے ہوئے یہ قصہ سنایا ہے۔۔ ہاں یار، بھائی کہاں کا، بے غیرت ہے سالا، اُس سے یہی توقع تھی، اماں کو میرے گھر پھینک گیا ہے اور باپ کو لالے پوپے لگا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ پتہ نہیں اِس کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ باپ کو باتوں میں لبھا کر سالے نے یہ کانٹ کر ڈالا۔
مجھے تو رانجھے نے بتایا جو اُس کا سگا یار ہے، اکھٹے شہر آتے جاتے ہیں، ننگا ناچ دیکھتے، شرابیں پیتے ہیں اور منڈے بازی کرتے ہیں۔ رانجھے نے بتایا کہ یہ معاملہ نہایت چالاکی سے اُس نے باپ کی آنکھیں بنوانے کے بہانے چھے ماہ پہلے کر لیا تھا، تیر ےباپ نے تیری حصے کی زمین بھی تمہاری بڑے بھائی کےنام تحصیل خانے جا کر لگو دی ہے اور بہنوں کو مُردہ قرار دے ڈالا ہے۔ پتہ نہیں، اُنھیں کس نے یہ انہونی خبر دی، بچاری ہفتہ قبل روتی پیٹتی میرے پاس آئی تھیں، میں نے کہا، میرے پاس کچھ نہیں ہے، میں کیا کر سکتا ہوں، شیدا کہتا ہے کہ حکومت نے ایک قانو ن پاس کیا ہے کہ باب اپنی اُولاد میں سے کسی ایک کے نام ساری جائیداد نہیں لگو ا سکتا، اگر اُس نے ایسا کیا ہے تو اُولاد مقدمہ دائر کرے، اُنھیں جائیداد میں قانون کے مطابق مل جائے گا۔۔
یار، میں کافی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ مقدمہ کرنا چاہیے لیکن میرا شہرمیں کوئی واقف نہیں اور وکیلوں کے ہتھے چڑھ کر میں اپنے بیلوں کی جوڑی اور تین مرلہ گھر سے ہاتھ نہیں دُھونا چاہتا۔ تمہاری بھابھی روزانہ کھانا کھاتے ہوئے مجھے یہی طعنے دیتی ہے کہ تمہارے بھائی کنجر نے ساری زمین ہڑپ لی ہے اور یہ (ماں) بوجھ ہمارے متھے مار گیا ہے، اِسے بھی ساتھ لے جائے، میں نے اُسے کئی بار اس بات پر پیٹا ہے کہ میری ماں کو یوں نہ کہا کرو کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور ماں کا کیا قصور ہے، جب باب کو شرم نہیں آئی اور وہ چار دن سیب کیلے کھا کر ہم سب کو بھول گیا ہے، کوئی بات نہیں، رب ہے نا، اُس نے اگر یہاں ہمیں امتحان میں ڈال رکھا ہےتو قیامت کے دن اُسی کے سامنے فریاد کریں گے۔
ہم غریبوں کے پاس رب کے سِوا اور کس کا سہارا ہے۔۔ یار، تم، میرا رونا ہی سنتے رہو گے یا کوئی اپنی بات بھی سناؤ گے۔۔ میری باتیں بھی تمہارے احوال ایسی ہے، کوئی خاص فر ق نہیں ہے، شہر میں لوگ کسی کے مرنے جینے کی پروا نہیں کرتے، وہاں تو ہمسائے کو پتہ نہیں ہوتا کہ کوئی مر گیا ہے، زندہ ہے یا کس حال میں ہے۔
تم لوگ یہاں اچھے ہو، کم از کم ایک دوسرے کے احوال سے باخبر تو رہتے ہو۔۔ یہ تو ہے، یار، گاؤں کی زندگی میں ویسے اب کچھ نہیں رہا ہے پھر بھی اس مٹی سے جُدا ہونے کو جی نہیں چاہتا۔