Adhoore, Na Mukammal Jumle
ادھورے، نامکمل جملے
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی رُک سی گئی ہے۔ کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ اب مر جانا چاہیے۔ مزید جی کر کیا کرنا ہے۔ کچھ بھی تو باقی نہیں رہا۔ یہ انقباض کی کیفیت جزوقتی ہو تو اچھا ہے۔ اگر یہ مستقل صورت میں ڈھل جائے تو مار ڈالتی ہے۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی نا اُمیدی کی دبیز لہر مہینوں کی عمر کھا جاتی ہے۔ حاصل اور لاحاصل کے درمیان غیر یقینی صورت میں جنم لینے والے عارضی واہمے بڑے معنی خیز ہوتے ہیں۔
انسان اپنے تئیں سب اچھا تصور کرکے بیٹھا ہوتا ہے اور نتیجہ اس قدر برعکس آتا ہے کہ سانس کی روانی نزع کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ دُنیا بھی عجب گورکھ دھندہ ہے۔ یہاں سب کچھ اپنا ہے اور سب کچھ پرایا ہے۔ جسے قریب کرو، وہ دور ہو جاتا ہے اور جو دور ہے وہ نزدیک کیسے آسکتا ہے۔ جو پاس ہے، وہ پاس نہیں رہتا اور جو ہے ہی نہیں، وہ اپنا کیسے ہو سکتا ہے۔ رشتوں، محبتوں، چاہتوں اور جذبوں میں بھی یہی غیر یقینی سی صورت حائل رہتی ہے۔
ماہرینِ روحانیات و دینیات کا کہنا ہے کہ یہ دُنیا آزمائش کے نکتہ نظر سے پیدا کی گئی ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہے، وہ سراسر نظر کا دھوکا اور سراب ہے۔ حاصل اور لاحاصل بھی دھوکا ہے۔ نظر سے دیکھا اور دل سے بھانپا ہوا بھی دھوکا ہے۔ دُنیا ایک سراب نگر ہے جہاں ہر چہرے پر کئی چہرے اور ہر بدن پر سیکڑوں بدن پُتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں۔ بہروپیے کو بہروپ کے سراب میں مبتلا کر رکھا ہے قدرت نے۔ یہ کائنات بھی اپنے اندر عجب رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کی تسخیر کی خواہش بے معنی سی لگتی ہے۔
دُنیا جو بظاہر اتنی بڑی ہے کہ آج تک کسی سے فتح نہ ہو سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اینڈومریڈا کہکشاں کی وسعت میں ننھے سے نکتہ جتنی دکھائی دیتی ہے۔ رب تعالیٰ نے انسان کو پانچ چھے، سات یا آٹھ فٹ کا بنایا ہے۔ اس پانچ چھے، سات اور آٹھ فٹے انسان نے دُنیا کو اپنے تجربات کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ اس کی مرضی اور اختیار کے آگے ہر چیز بے اختیار دکھائی دیتی ہے۔
انسانی جسم بھی عجب چیز ہے۔ اس میں پوری کائنات کا اسَراری عمل کارفرما ہے۔ عقل کو ہر چیز پر تقدم حاصل ہے۔ عشق عقل کو نکیل ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ دُنیا ایک مچھلی ہے جو اپنی سے بڑی مچھلی کی خوراک بن رہی ہے اور یہ سلسلہ کہیں رُکتا دکھائی نہیں دیتا۔ انسان، کائنات، ماورائے کائنات، کہکشائیں اور ان سے آگے کا منظر نامہ۔ یہ سب ہے کیا۔ کوئی سمجھتا ہے اور کوئی بس ہنس کر بات ٹال جاتا ہے۔
مزدور کو روٹی کی فکری ہے۔ زاہد کو جنت کی اور دُنیا دار کو دولت کی۔ یہ فکر بھی عجیب ہے۔ نہیں ہونی چاہیے یہ فکر۔ اس فکر نے افکار کو جنم دیا جس سے عشق کا چشمہ پھوٹا۔ عشق کے چشمے سے قربانی نے جنم لیا۔ قربانی نہیں دینی چاہیے۔ قوموں کے دیوتاؤں کو بھلی دان بھینٹ کرنے سے رزق ہجرت کر جاتا ہے۔ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے۔ اب سائنس کو لگام ڈالنی چاہیے۔ قدامت پسندی نے مار ڈالا ہے۔ جدت سے آگے مابعد جدیدیت کو دیکھنا ہوگا۔ ادب میں کیا رکھا ہے۔ شاعری بکواس ہے۔ مصوری میں کچھ دم ہے۔ معاشرہ اپنی قبر کھود چکا۔ تہذیب مر کھپ گئی۔ ثقافت کا جنازہ نکل چکا۔ انفرادیت مدغم ہوگئی۔ اجتماعیت کا دور دورہ ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اکیلے گھر میں جی گھبراتا ہے۔ ایک بیوی ہی اچھی ہے میاں۔ چلو جانے دو۔ درد بڑھے گا تو دوا ہوگا۔ وہ مر کر بھی زندہ رہے گا۔ کیا سب کو موت نہیں آئے گی۔ جنت اور جہنم بھی عجب بحث کا موضو ع ہے۔ رب تو سب دیکھتا ہے۔ انبیا اپنا کام کر چکے۔ ولایت گھٹنوں پاجانے جھانک رہی ہے۔ تم یہ کیا باتیں کر رہے ہو۔ پاگل ہو گئے ہو۔ چلو۔ دور ہٹو۔ باتیں بنا رہے ہو۔ اب آپ خاموش ہو جاؤ۔ جانے دو، اُسے مت روکو۔ دن ڈھل چکا ہے۔ رات ابھی اونگ رہی ہے۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ تم یہ کیا لیے بیٹھے ہو۔ چڑیا کے بچے ٹھنڈ میں بیٹھے ہیں۔ گائے کی بچھیا کو دودھ پورا نہیں ملتا۔ کھیتوں میں ہل چلانا ضروری ہیں۔
فصل اب پک چکی ہے۔ گندم کا دانہ پھوٹ بہا ہے۔ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے۔ دردِ دل کی دوا نہیں ہوتی۔ امید سے دُنیا قائم ہے۔ بادشاہ کو بغاوت کا سامنا ہے۔ کل کا دن اچھا رہے گا۔ کیا تم نے میری طرف دیکھا تھا۔ میں سب کچھ بھول چکا ہوں۔ برسات آنے والی ہے۔ دل میں چھید کرنے والا کون ہے۔ نگاہ کو اب کچھ نہیں سوجھتا۔ میں اب تھک گیا ہوں۔ تم یہ کر سکتے ہو۔ جاؤ اپنا کام کرو۔ فقیر کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ وقت بدل کر رہتا ہے۔ قسمت پر یقین نہ رکھو۔ محنت کا کوئی مول نہیں ہے۔ سزا سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔ اب یہ نہ کہو۔