Ache Rishtay Kahan Talash Karen
اچھے رشتے کیسے تلاش کریں؟
لگتا ہے ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا ہے، ڈھنگ کا رشتہ ہی نہیں مل رہا۔ پانچ سال ہو گئے ہیں، سیکڑوں رشتے دیکھ چکی ہوں لیکن مناسب رشتہ نہیں مل رہا۔ مناسب رشتہ سے کیا مراد ہے؟ میں نے سوال کیا۔ ماسی ریشماں نے بتایا: مناسب رشتہ سے مراد یہ ہے کہ لڑکا خوبصورت ہو، پڑھا لکھا ہو، سرکاری ملازمت کرتا ہو، گھر اِس کا اپنا ہو، بہن بھائی کی فوج نہ ہو، والدہ ٹانگ نہ اُڑائے اور باپ شریف النفس ہو۔ میں نے کہا: ماسی ریشماں! ایسا رشتہ ملنا بہت مشکل ہے، آپ اس پیکج میں کمی کریں۔
ماسی ریشماں نے کہا: لو بھائی! یہ کیا بات ہوئی، میں نے کون سا ہیرے جواہرات اور گاڑی بنگلہ مانگ لیا ہے، میں چاہتی ہوں میری بیٹی سُکھی رہے، اسے گرم ہوا نہ لگے، اس کے نصیب اچھے ہوں، اللہ اُولاد سے نوازے اور صدا سہاگن رہے۔ ریشماں ماسی کو مذکور معیار کے مطابق رشتہ تلاش کرتے ہوئے سات برس ہو چکے ہیں لیکن کامیابی نہ ہوسکی جبکہ اس کی بیٹی کا کہنا ہے کہ میری جوانی ڈھل چکی ہے، چہرے پر چھائیاں پڑ گئی ہیں، اماں مجھے شہزادے سے بیاہنا چاہتی ہے اور حال یہ ہے کہ مجھے کوئی گداگر بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔
پاکستانی معاشرت میں اُولاد کے رشتوں کو لے کر اس قدر نزاعات کیوں پائی جاتی ہے؟ یوں لگتا ہے دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اچھا رشتہ تلاش کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھا رشتہ تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے برسوں پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ عرفِ عام میں اچھے رشتے سے مراد وہ رشتہ ہے جس میں کوئی نقص اور فنی خرابی نہ ہو، یہ رشتہ نہ ہوا بلکہ ہنڈا کی نئی آٹو میٹک گاڑی ہے جس کے برس ہا برس بغیر خرابی چلنے کی ضمانت کمپنی لکھ کر دیتی ہے، خرابی کی صورت میں ٹیونگ اور آئل بدلی فری کیا جاتا ہے نیز انشورنس بھی کی جاتی ہے کہ گاڑی کہیں ٹُھک جائے تو نئی گاڑی فوراً لے سکتے ہیں۔
پاکستانی معاشرت میں بیٹے اور بیٹیوں کے لیے رشتے دیکھنے کا فریضہ عام طور پر عورتوں کے سپرد ہوتا ہے جو اپنے معیارات از خود متعین کرتی ہیں۔ خاتونِ خانہ یعنی اماں جان نے بیس پچیس برس اس معاشرت میں گزارے ہیں جہاں ہر قسم کی بدمعاشی سے لے کر تانیثی استیصال تک سب کچھ اس نے سہا، کیا اور برتا ہے۔ لعن طعن سے شروع ہونے والا ازواجی رشتہ نفرت و حقارت کے وسیع سلاسل لیے گھر کی چار دیواری میں رینگتا تو رہتا ہے لیکن صحت مند فضا میں پنپنے کی اس پر کبھی نوبت نہیں آتی۔
اس نزاعات کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو مڈل کلاس سماج کے کسی ایک گھر میں چلے جائیے، میاں بیوی کو بٹھا کر پوچھیے کہ سُنائیے! کیسی گزر برس ہو رہی ہے؟ یہ پوچھنے کی دیر ہوگی کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر کُتے کی طرح جھپٹ پڑیں گے، دُنیا جہان کے نقص اور خامیاں ایک دوسرے میں نکالتے نکالتے ہاتھا پائی پر اُتر آئیں گے۔ پوچھنے والا اپنی حرکت پر شرم سے غرق ہوا جاتا ہے کہ میں نے مکھیوں کے چھتے کو کیوں چھیڑا؟ میاں بیوی کے اس دنگل کی اُکھاڑ پچھاڑ میں کچلی جانے والی گھاس نما اُولاد کی نفسیات پر والدین کے منفی رویے کے اثرات اس قدر مہلک اور خطرناک پڑتے ہیں کہ ہوش رُبا انکشافات کیس سٹڈی میں سامنے آتے ہیں۔
مڈل کلاس سوسائٹی میں نوے فیصد اُولاد اپنے ماں باپ کے روئیے سے تنگ ہوتی ہے، والدین کی ترجیحات اور معیارات کے سانچے میں ان کے بچے کسی صورت فِٹ نہیں آتے۔ ڈانواں ڈول یہ ٹھوٹیاں کُجے اپنےچچیروں، پھپھیروں، خلیروں اور ممیروں سے شادی کے لیے کسی صورت رضا مند نہیں ہوتے۔ پاکستانی سماج میں بیشتر گھرانوں میں اُولاد سے ان کی خواہش پوچھی نہیں جاتی۔ ماں باپ کی اکثریت کو اِس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ہمارے بچے کب سے ذہنی و قلبی طور پر ہمارے نہیں رہے۔ یہ بچے نہایت خاموشی سے اپنے لیے ایسے رشتے بنا چکے جن کے ساتھ ان کی شامیں اور صبحیں بسر ہوتی ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
میں دسیوں ایسے خاندان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کی اُولاد نے عین نکاح کے موقع پر قبول نکاح سے انکار کیا ہے، ان میں سے بیشتر باغیوں کو ایسی عبرت ناک سزادی گئی ہے کہ زمانہ توبہ توبہ کر اُٹھا ہے۔ دیہات میں والدین کی پسند سے انکار کا رجحان شہر کی نسبت زیادہ ہے۔ دیہات میں"مس میچ" کا تصور نہیں ہے جبکہ شہر میں فقط معاشی استحکام کو رشتے کے انتخاب کا نوے فیصد عُنصر قرار دیا جاتا ہے۔
شہر میں رشتہ کرنے کے لیے لڑکے لڑکی کی باہمی رضا مندی کے ساتھ دونوں اطراف کے خاندان کا معاشی طور پر مستحکم ہو نا کافی ہے جبکہ دیہات میں رشتہ دیکھنے سے لے کر رشتے کے فائنل انتخاب تک سیکڑوں قباحتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ان قباحتوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ رشتہ کروانے والے وچولہ حضرات جھوٹ، مکر، فریب اور دُھوکا دہی کا سہارا لیتے ہیں اور بے جوڑ رشتے کرواتے ہیں جو مشکل سے سال چھے مہینے چلتے ہیں اور بات خلع و طلاق کے سانحہ پر ختم ہوتی ہے۔ بے جوڑ رشتہ کروانے میں ان کمرشل وچولہ سنٹر یعی بیورو میرج کے کنسلٹنٹ کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔
شہروں میں میرج کنسلٹنٹ حضرات کی فیس لاکھوں روپے ہے۔ آجکل رشتہ ایپ تیزی سے اس نیک کام کو کاروبار کے تناظر کے پیشِ نظر فروغ دینے میں پیش پیش ہیں، میرج ایپ میں"دل کا رشتہ، بندھن، قبول ہے، میچ اینڈ میٹ، میرج 365، شادی ڈاٹ کام، ویڈ می گُڈ، مسلم میرج، مِلن" وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان ایپ میں لاگن ان ہونے کے بعد لڑکا لڑکی اپنی پروفائل بناتے ہیں۔ میرج ایپ میں موجود معلومات پچاسی فیصد فیک ہوتی ہے۔
میں نے ذاتی حیثیت میں ان پروفائل کو دیکھ کر رشتہ کے لیے ریکوسٹ بھیجی تو رابطہ کرنے والے نوے فیصد افراد میرج بیورو کے کنسلٹنٹ نکلے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو یہ لڑکا/لڑکی پسند ہے تو آپ اتنی فیس ہمیں جیز کیش کر دیں ہم آپ کی والدین سے بات کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں ایسا ہوا کہ والدین بھی یہ کنسلٹنٹ خود ہی بن جاتے ہیں اور اپنی طرف سے ایسی اداکاری کرتے ہیں کہ بندہ چٹے دن لُٹ جاتا ہے۔ لُٹنے اور دُھوکا کھانے کے بعد یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ یہ فراڈئیے میری اور میرے خاندان کی ذاتی معلومات کسی منفی سرگرمی میں استعمال نہ کرلیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا ایک رُخ ہے، اسی طرح دسیوں ایسی قباحتیں اور ہیں جس نے شادی کے اہل نوجوانوں کو شادی کے تصور سے اس قدر خوفزدہ کیا ہے کہ یہ لڑکے/لڑکیاں شادی کانام سُن کر یوں بھڑکتے ہیں جیسے کسی بچھو نے انھیں ڈس لیا ہو۔ پاکستانی معاشرے میں شادی کا مطلب پندرہ سے پچاس لاکھ روپے کا وہ فضول خرچہ ہے جو معاشرے کے رسوم و رواج اور ناک رکھنے کی غرض سے ضائع کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرت کے پچانوے فیصد افراد مسلمان ہیں لیکن ان پچانوے فیصد مسلمانوں گھرانوں میں پانچ فیصد صحیح معنوں میں مسلمان ہیں جو دینِ اسلام کے تقاضوں کے عین مطابق شادی کرتے ہیں اور فضول قسم کی سرگرمیوں میں روپیہ ضائع نہیں کرتے۔
سادگی یعنی دینِ اسلام کی روح کے مطابق شادی کرنے والے خاندان کے ساتھ پاس پڑوس اور شریک برادری کے لوگ وہ سلوک کرتے ہیں کہ منہ چھپانے کو انھیں اپنا ہی پَلو کم پڑتا محسوس ہوتا ہے۔ لوگ ایسے ایسے طعنے دیتے ہیں اور شکوے کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے بیٹی کو گھر سے رُخصت نہیں کیا بلکہ اس کا جنازہ پڑھا ڈالا ہے۔ شادی کے رشتوں کے معاملے میں پاکستانی معاشرت میں سنجیدگی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میری بیٹی/بیٹے کے لیے ایسا رشتہ مل جائے کہ عمر بھر کی بھوک ننگ ختم ہو جائے۔
پاکستانی سماج میں رشتہ دیکھنے کی شرائط میں نوے فیصد شرائط کا تعلق دولت کے ارزاں حصول سے منسلک ہے۔ تعلیم کی اہمیت تبھی ہے اگر لڑکا/لڑکی ملازمت کرتے ہیں اور خوبصورتی، شکل و قامت کی اہمیت تبھی ہے اگر والدین صرف کماتے اور جوڑتے ہیں۔ گذشتہ دس برس سے خلع اور طلاق کی جو شرح پاکستان میں بڑھی ہے وہ شرم دلانے کے لیے کافی ہے۔ لڑکی اگر خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ملازمت بھی کرتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ ناگا پربت پر رہتی ہے اور ایک خلع لے کر ہی اس کا مزاجِ عالی ناگا پربت سے نشیبی ٹیلے پر براجمان ہوگا۔
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ والدین کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دے کر شادی کے بندھن کو ہر طرح کی مشکل اور آزمائش سے گزار کر ایک کامیاب خاندان کی بنیاد کو اُستوار کر سکے۔ اسی طرح لڑکا اگر خوبصورت ہے، پڑھا لکھا ہے اور ملازمت یا کاروبار کرتا ہے یا فقط والدین کے اثاثوں پر نظر رکھے اکڑ اکڑ کر چلتا ہے تو سمجھ جائیے کہ شغل شغل میں ایک طلاق دینے کے بعد اس کی جھوٹی انا اور گھمنڈ میں کچھ نرمی آئے گی۔ پاکستانی معاشرت میں کمانے والے لڑکے لڑکیوں کو اپنی مرضی کے آگے ہانکنے سے سوائے تباہی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔
میری دست بستہ والدین سے گزارش ہے کہ ان پڑھے لکھے سو کالڈ ابنارمل لڑکے لڑکیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ بیمار ذہن کی یہ ابنارمل مخلوق جب، جہاں، جس سے شادی کرنا چاہے، انھیں کی مرضی اور پسند کو سراہتے ہوئے ان کا فرض ادا کریں۔ شادی کے موقع پر انھیں پیار سے روبرو بٹھا کر یہ احساس دلا دیں کہ بیٹا/بیٹی! شادی کا فیصلہ اور رشتے کا انتخاب آپ نے اپنی مرضی سے کیا ہے، ہم آپ کی مرضی اور پسند کو سراہتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں۔ کل کو اگر تم لڑ جھگڑ کر یہ رشتہ ختم کرو گے تو ہم آپ کے ساتھ تو ہوں گے لیکن رشتے کی ناکامی اور علاحدگی کا الزام ہم پر عائد نہیں ہوگا۔ آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ رشتے کو کب تک، کہاں تک اور کس حد تک نبھاہنا ہے۔ ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے کُھلے رہیں گے لیکن ہم بطور والدین آپ کے فیصلے پر مثبت یا منفی رائے دیں گے اور نہ ہی آپ کے ساتھ زیادتی کرنے یا سہنے کے لیے موجود ہوں گے کہ یہ جنگ تم نے خود لڑنی ہے، ہم صرف ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔
اگر تم نے ہمیں اپنے رشتے کی ذمہ داری سونپی ہوتی تو ہم اس ذمہ داری کو آخری تک نبھاہتے اور تمہارے لیے ہر ممکنہ کوشش کرتے لیکن جب یہ اختیار تم نے خود اپنے پاس رکھا ہے تو ہم اس معاملے میں آپ کے ساتھ ہمدردی تو کر سکتے ہیں لیکن فیصلہ بہرحال تم ہی کو کرنا ہے اور اس کا ردِعمل بھی تمہی کو دیکھنا ہوگا۔ یہ بات جب ان ابنارمل لڑکے/لڑکیوں کے کان میں پڑ جائے گی تو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے معاملات کو ممکنہ حد تک درست سمت پر اُستوار رکھنے کی کوشش کریں گے۔
میں ذاتی طور پر اس تجربے سے گزرا ہوں، میری نیم رضامندی کے ساتھ ہونے والے رشتے کو والدین نے بڑھ چڑھ کر سہارا دینے کی کوشش کی لیکن ناکامی کی صورت یعنی طلاق کے نتیجے میں، میں نے سارا نزلہ والدین اور رشتہ داروں پر گرایا کہ تم لوگوں نے میری زندگی تباہ کی حالاں کہ رشتے کی ناکامی اور طلاق کی جملہ وجوبات و اسباب ہم میاں بیوی کے مشترکہ کرتوت سے متصل تھے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے ہم دونوں تیار نہ تھے۔
پاکستانی سماج میں جہاں ہر ادارہ تنزل کا شکار ہے وہاں معاشرتی اقدار کا مورال بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ایک سے ایک ٹھگ، چور، لُٹیرا نظر جمائے تاک میں بیٹھا ہے کہ کوئی چیز ہاتھ لگے اور ہتھیا لے۔ والدین سے گزارش ہے کہ اپنے معیارات کو کم کریں، جتنی حیثیت ہے اُسی میں رہ کر رشتہ دیکھیں، زیادہ چھلانگیں مت ماریں، اوقات سے باہر نہ نکلیں، پڑھائی، ملازمت، کاروبار، حُسن، جوانی، دولت، ذات پات، رنگ نسل، شکل و قامت، اونچ نیچ سمیت بناوٹی معیارات کے چکر میں بچوں کی عمریں اور ان کے مستقبل کو ضائع مت کریں۔
رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کریں۔ دینِ اسلام سادگی اور کفایت شعار کا درس دیتا ہے اور اپنی چادر میں پاؤں سمیٹ کر معاملات کی انجام دہی کی تلقین کرتا ہے۔ رب تعالیٰ جب رازق ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے رزق کا وعدہ کیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں نے کس کو کیا دینا ہے۔
اگر آپ کا رب تعالیٰ پر یقین کامل ہے تو ٹھونک بجا کر رشتہ دیکھیں اور ہاں کریں۔ دُنیا کا کوئی کاروبار ایسا نہیں ہے جس میں اونچ نیچ اور نشیب و فراز کے مرحلے نہیں آتے۔
اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی بجائے حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بچوں کی شادیوں کے فرائض ادا کریں۔ شادی کے لیے رشتہ تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے تاش کے پتوں میں یکا تلاش کرنا۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ بے شک و ہ بہترین کارساز اور منصوبہ ساز ہے۔