Afham o Tafheem
افہام و تفہیم
حکمت ودانائی، فہم وفراست خدائی نعمتیں ہیں۔ جنہیں یہ نعمتیں عطا کی گئیں، انہیں الٰہی تعلیمات کے مطابق "اوتی خیراً کثیرا" عطا ہوئی لیکن ہماری فہم و فراست کے استدلال میں عصرِ حاضر میں تھوڑی خرابی پیدا ہوگئی ہے جبکہ تمام حوالہ جات کا انتساب آنحضورِ اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی طرف کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مفکرین اِس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آپﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں معمولات زندگی کے متعلق رہنمائی کے لئے دو بنیادی مراکز یا سلاسل موجود تھے جن میں سے ایک وحی الٰہی اور دوسرا اپنے احباب سے مشاورت کا ذریعہ۔
آپﷺ کی حیات طیبہ اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ہدایات کی روشنی میں بسر ہورہی تھی جبکہ آپﷺ کا اس دنیا سے پردہ کرنے کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مشاورت کا سلسلہ اصحاب کے درمیان موجود رہا۔ اصحابِ رسول، آپﷺ کی سیرت سے اخذ واستفادہ کرتے یا باہمی مشاورت سےمعاملات کو طے کرتے لیکن آج کا مبلغ اِن دونوں ذرائع سےدور ہوتا نظر آتا ہے۔
خودی کا استدلال قابل رجوع ہوسکتا ہے اور مشاورت کو اہل اسلام آہستہ آہستہ ترک کرتے جا رہے ہیں جن کے سبب عصری مسائل اور انسانی زندگی میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ داعییّن اسی خیال میں گم رہتے ہیں کہ ان کا استدلال حتمی اور درست ہے جبکہ حالات و واقعات سے ان کا انطباق ممکن نہیں ہو پاتا لہذا جہاں اسلامی تعلیمات اور مسلمان کے درمیان تطبیق کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح بعض داعییّن پر بھی لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے لہذا اہل فکر ونظر کو اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیےکہ اسلامی تعلیمات سے ان کا اخذواستفادہ کرنا اور پھر اسی کو حتمی قرار دے لینا اور پھر درست اختلاف کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا صحیح طرزِعمل نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اختلاف کی وجوہات قابل توجہ ہوں، ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہوں، فکرکے نئے دروا کرتی ہوں۔ لہذا اپنی تحریر و تقریر میں تھوڑی سی گنجائش رکھی جانی چاہیے تاکہ رجوع کرنے میں دقت پیش نہ آئے اور کسی بھی اختلاف کو برملا سرعام پھیلانے سے قبل اس پر باہمی مشاورت سے ایک رائے کا تعین کر لینا چاہیے۔ بعض اوقات، اختلاف اتنا گہرا نہیں ہوتا جتنا گہرا اس اختلاف کے سبب پیدا ہونے والا خلا ہوتا ہے۔ تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں۔ نفرت و عداوت کو ہوا ملتی ہے۔ یہ عمل بعض دفعہ دلوں میں کدورت پیدا کر دیتا ہےاور افہام وتفہیم کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔
لہذا گنجائش پیدا کیجیےتاکہ دوسرے بھی اُسی گنجائش کے سبب ہمارے قریب ہو سکیں اور فہم و فراست سے باہمی معاملات کو طےکیا جا سکے اور اتحاد کو فروغ ملےاور موجودہ دور میں اسی کی کمی سب سے زیادہ محسوس ہورہی ہے کہ دوسروں کے اختلافی نقطہ کو وسعتِ قلب کےساتھ سننا اور مؤثر دلائل کے ساتھ نہ صرف اس اختلاف کا حل تلاش کرنا بلکہ معترض کو بھی قائل ومائل کرنا کہ آپس میں گہری وابستگی پیدا ہوسکے، ایسا اب مبلغین ومفکرین میں کم ہی دیکھائی دیتا ہے۔ گنجائش کا پیدا کیا جانا از حد ضروری ہوگیا ہے۔