Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehak Rabnawaz
  4. Privacy Bara e Naam

Privacy Bara e Naam

پرائیویسی براۓ نام

تم کسی بھی انسان کو برا نہ سمجھو، شاید وہ ویسا نہ ہو، جس طرح تم سمجھتے ہو۔ حقیقی علم تو اللہ تعالی کے پاس ہے اور تم تو لا علم ہو۔

(سورۃ البقرہ)

انسان میں تجسس کا مادہ ازل سے ہی پایا جاتا ہے۔ کئی انسانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے، کہ ہر خبر سب سے پہلے انکے پاس ان کے علم میں ہو اس کے لئے بعض اوقات لوگ جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ ہر وقت اسی ٹوہ میں رہتے ہیں، کہ کسی نہ کسی کا کوئی راز ہمارے ہاتھ لگ جائے اور پھر شہرت و مقبولیت حاصل کرنے کے لئے خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے لئے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لوگوں میں اپنی واہ واہ کروائی جائے۔

ایک وقت تھا کہ جب پیغام رسانی کو صرف ریڈیو پھر ٹیلی ویژن اور اخبارات کا آسرا تھا۔ جبکہ آج میسج ڈیلیور کرنا منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈ کا کھیل ہے۔ کیونکہ آج ہزاروں سوشل اکا ؤنٹس نئی خبروں کے منتظر ہیں، اور آپ کے ایک کلک کی دیر ہے۔ جہاں میڈیا فاسٹ ہونے کے فوائد زیادہ ہیں وہیں اسکے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں اب نہیں کوئی بات خطرے کی۔

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے (جون ایلیا)پرائیویسی فقط نام کی رہ چکی ہے۔ گزشتہ چند روز سے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جو خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ پہلے ان کی ویڈیوز تصاویر اور نجی معاملات میں مداخلت کرنا اور وہ سب منظر عام پر لانا۔ چند روز بعد اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کی اطلاع کو افسوسناک انداز میں بیان کرنا اور انکی موت کو ڈپریشن کا سبب قرار دینا۔ شاید انکی موت کی اصل وجہ بھی ڈپریشن ہی ہے۔

مگر اس جرم اور ظلم کا اصل مرتکب کون ٹہھرا؟ کیا وہ لوگ جو ان کی برہنہ ویڈیوز کو میڈیا پر وائرل کرتے رہے تاکہ دیکھنے والےان کی اصلیت جان کر ان سے نفرت کرنے لگیں۔ مگر سوال یہاں پر یہ بھی پیدا ہوتا ہے، کہ یہ سب کرنے والوں کو آخرکار کیا ملا، کونسا فیم اور ذہنی سکون حاصل ہوا؟ جس کے لیے زمین کو تنگ کر دیا جائے پھر اسے موت ہی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے۔

گفتگو کیجیے مگر احتیاط کیساتھ

لوگ مر بھی جاتے ہیں الفاظ کیساتھ

یہاں بات صرف ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر ہی آکر ختم نہی ہوتی۔ بلکہ ہر دن نت نئ خبر منظر عام پر آتی ہے۔ کسی کی ویڈیوز اور تصاویر کو لیک کر دیا گیا اکاؤنٹس ہیک کر دیۓ جاتے ہیں، اور پھر اس ذلت و رسوای کا خاتمہ خودکشی پر جا کر ہوتا ہے۔ ہتک عزت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پر سختی کا مظاہرہ کر نا چایے تاکہ کوی بھی کسی کی پرایئویسی کا غلط استعال نا کرنے پاۓ۔

پاکستان میں ہتک عزت کا قانون ملک کے مختلف قوانین میں دیوانی اور فوجداری حیثیت سے موجود ہے۔ تعزیرات پاکستان دفع499 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص(زندہ یا مردہ) کمپنی یا ادارے کی عزت، معاشرے میں مقام، جائیداد ساکھ کے بارے میں کوئی ایسی بات یا عمل جو تحریری زبانی اشاراتی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچاتا ہے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے کرتا ہے۔

ہتک عزت کے قانون کے زمرے میں آتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفع499 کے مطابق فوجداری حیثیت میں قابل گرفت جرم ہے۔ جسکی سزا دو سال قید، جرمانہ یا دونوں ہیں۔ جبکہ ہتک عزت آرڈیننس2002 کے مطابق ایک دیوانی مقدمے کی حیثیت سے قانون میں شامل ہے۔ جس میں ہتک عزت کرنے والے شخص کو جرمانہ اور معافی مانگنی پڑتی ہے۔

جب کہ سنہ2016 میں پاکستان پریوینشن آف الیکٹرانک میڈیا پیکا کے مطابق یہ ایک فوجداری نوعیت کا قابل گرفتاری جرم ہے۔ بیرسٹر سعد رسول کے مطابق پاکستان میں الیکٹرونک پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا آنے کے بعد یہ مسائل جنم لے رہے تھے، کہ آن لائن ہتک عزت کے معاملات کو کیسے قابل گرفت بنایا جائے۔ اس لیے پیکا ایکٹ2016 میں ہتک عزت اور ایک فوجداری قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔

پیکا ایکٹ کے تحت اس پر وفاقی تحقیقاتی ایف۔ آئی۔ آر کروائی کرتی ہے۔ نبی پاک مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جو کسی مومن کو بد نام کرنے کے لیے اسکا ذکر کرے اور اسطرح لوگوں کی نظر میں اسکا احترام ختم کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالی اسے اپنی ولایت سے نکال کر شیطان کی ولایت میں دے دیتا ہے۔ لیکن شیطان بھی اسے قبول نہیں کرتا۔

ایک مرتبہ ایک بزرگ نے سفید کاغذ دیوار پر لگایا، اور اس پر ایک چھوٹا سا نشان لگا دیا اور پھر سامعین سے سوال کیا، کہ آپ کو کیا نظر آ رہا ہے۔ تو انہوں نے جوابا کہا کالا نشان نظر آ رہا ہے۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ اتنا بڑا سفید کاغذ نظر نہیں آیا مگر ایک چھوٹا سا کالا نشان سب کو نظر آگیا۔ لوگوں کی اچھائیاں یاد رکھنا سیکھیں برائیاں نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، اور غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اسکی غلطی کو اسکا گناہ سمجھ کر اسے نفرت نہیں کی جا سکتی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نفرت گناہ سے کرو گناہ کرنے والے سے نہیں شاید تمہاری محبت میں آکر وہ گناہ کرنا ہی چھوڑ دے۔ آج ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ جس کا سبب نفرت، بے حیائی کی باتوں کو سرعام پھیلانا، پرائیویٹ خفیہ راز فاش کرنا، جس سے نہ صرف لوگوں میں خوف ختم ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ سب معمول کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔

حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ اور جو کسی کی پردہ دری کرتا ہے، تو اسکے عیوب سے بھی اللہ ذوالجلال پردے ہٹا دیتے ہیں۔ اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے۔ جو کسی کے بارے میں غیبت کرتا اور عیب جوئی میں مبتلا رہتا ہے۔ پھر کچھ وقت کے بعد وہ خود اسی گناہ میں مرتکب دکھائی دیتا ہے۔

کبھی اپنی زبان سے کسی کے عیب بیان نہ کرو کیونکہ عیب تم میں بھی ہیں، اور زبان لوگوں کی بھی(حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ)پاک ہے، وہ پروردگار جو عیبوں کو چہروں پر ظاہر نہیں کرتا۔ قرآن پاک میں خداوند کریم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ جبکہ آج ہماری سوسائٹی میں بعض بیویاں اپنے شوہروں کی اور شوہر اپنی بیویوں کی برائیاں دوسرے تیسرے گھر میں جا کر کر رہے ہوتے ہیں۔

خدارا ایک دوسرے کی عزت کو تار تار مت کریں۔ اس سے معاشرہ نہ صرف بد امنی اور بے راہ روی کی لپیٹ میں ہے، بلکہ نتیجتا گناہ کرنے والا بے خوف تو ہو ہی جاتا ہے۔ مگر گناہ کو گناہ بھی نہیں سمجھتا۔ اور گناہ کو گناہ نہ سمجھنا یہ اس کیے ہوئے گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے۔ ہر کسی کے سامنے اپنی کہانی بیان کرنے سے پہلے یہ تصدیق کر لیں کہ وہ آپکا کتنا خیرخواہ اور راز دار ہے۔ اور کیا وہ آپکو مناسب تجا ویز پیش کرے گا۔

اگرتم خود میں حقیقی ذات کے مشاہدے کا وصف نہیں پاتے تو پھر کسی ایسے بندے کے سپرد خود کو کر دو جو ان رازوں سے آشنا ہو تاکہ وہ تمہاری درست سمت میں رہنمائی کرسکے۔ (مولانا جلال الدین رومی)میں سمجھتی ہوں ہر شخص کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے، کیونکہ گناہگار کو معاف صرف خدا ہی کرسکتا ہے۔ اس کی مخلوق نہیں۔

جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اوردوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو پھر فیصلے نہیں فاصلے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی قدر کرنی ہے، تو زندگی میں کریں چہرے سے کفن اٹھاتے وقت تو نفرت کرنے والے بھی رو پڑتے ہیں۔ دنیا سے انسان کے پردہ کر جانے کے بعد اگر آپکے دل میں اس شخص کے لئے خیال عزت یا احساس پیدا ہو جائے اور اپنے کیے پر ندامت محسوس ہو تو اسے قدر نہیں بلکہ پچھتاوا کہتے ہیں۔

پچھتاوا ایک یا دو دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا ہوتا ہے۔ اور آپکو ذہنی مریض بنانے اور راتوں کی نیند اڑانے کے لئے پچھتاوا کافی رہتا ہے۔ جو دنیا سے چلے جائیں انہیں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کریں، تاکہ جب ہم دنیا سے جائیں تو ہمیں بھی اچھے الفاظ کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ دنیا میں آنا اور آکے چلے جانا کوئ بڑی بات نہیں۔ مزہ تو تب ہے، کچھ ایسا کرکے جائیں کہ ہمارے جانے کے بعد بھی ہمیں ہمیشہ اچھے الفاظ کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

میرے عیب مجھے انگلیوں پہ گنواؤ دوستوں

بس میری غیر موجودگی میں مجھے برا نہ کہنا

کسی کا عیب تلاش کرنے والے کی مثال اس مکھی جیسی ہے۔ جو سارا خوبصورت بدن چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے۔ جب تم کسی میں کوئ عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو۔ یہ حقیقی تبلیغ ہے۔ عزتوں کو اچھالنے کی بجاۓ ایک دوسرے کی عزتوں کے محافظ بنیں۔

نگاہ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو

کوئی کافر کوئی فاسق کوئی زندیق اکبر تھا

مگر جب ہو گیا دل احتساب نفس پر مائل

ہوا ثابت کہ ہر فرزند آدم مجھ سے بہتر تھا

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti