Ghurbat Kya Hai
غربت کیا ہے
ارشاد باری تعالی ہے: اے ایمان والو: عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے۔ اگر مفلسی و غربت مجھے کسی شکل یا وجود میں نظر آ جائے تو کفر و باطل سے پہلے میں اسے قتل کروں گا کیونکہ افلاس و غربت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو سب سے زیادہ کفر کی طرف لےکر جاتی ہے۔
شیر خدا فرماتے ہیں کہ ایسی غربت پر صبر کرنا جس میں عزت محفوظ ہو اس امیری سے بہتر ہے جس میں ذلت اور رسوائی ہو۔
مولا علی کا فرمان ہے کہ جب تم دنیا کی مفلسی سے تنگ آ جاؤ اور رزق کا کوئی راستہ نہ نکلے تو صدقہ دیکر اللہ کیساتھ تجارت کرو۔
امیر اور غریب کا جیب کے مال سے پتہ نہیں چلتا ان کے خیال اور ان کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر کون ہے اور غریب کون ہے۔ غربت کا لفظ مختلف اوقات میں مختلف معنوں میں استمعال ہوتا آ رہا ہے۔
ایک ادمی سے کسی نے پوچھا کہ آج کل اتنی غربت کیوں ہے؟
توجوابا انہوں نے کہا۔ میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں ہے جتنا شور ہے۔ آج کل ہم جس چیز کو غربت کہتے ہیں۔ دراصل وہ خواہشات کے پورا نہ ہونے کا نام ہے۔
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں۔ کہ جب اسکول میں تختی پر گاچی لگانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ تو سہاگہ لگایا کرتے تھے۔ سلیٹ پر لکھنے کے لیے سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے سیل کا سکہ استعمال کرتے تھے۔ اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے۔ تو اسکول والے رنگ کے ہی لیتے تھے تاکہ یونیفارم الگ سے نہ بنانا پڑے۔ کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کرکے بار بار پہنتے تھے۔
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں بلکہ مقامی کمپنی کا پلاسٹک کا ہوا کرتا تھا۔
گھر میں اگر مہمان آ جاتا تو پڑوس کے کسی گھر سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔ آج تو ماشاءاللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے۔
آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات یونیفارم استری کرکے گھر میں رکھے ہوتے ہیں۔ روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات ولیمے کے لیے الگ الگ جوڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔
ہمارے بابا جی کے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان شکر ادا کرتا تھا جس کا لباس 300 تک بوٹ 200 تک کا ہوتا اور جیب خالی ہوتی تھی۔ آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ اسکی جیب میں 30 ہزار کا موبائل کپڑے کم سے کم دو ہزار کے جوتا کم سے کم تین ہزار کا اور ہاتھ پہ گھڑی ہوتی ہے۔
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا تو روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے تھے۔۔ اگر آج کوئی کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے کپڑوں کے تین جوڑے یا عید کیلئے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے۔ تو وہ سمجھتا ہے میں غریب ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج خواہشات کے پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے۔ میں اس بات پر اکتفا کرتی ہوں۔
آپ فطرت کے مطابق زندگی گزاریں گے تو کبھی غریب نہیں ہوں گے لیکن اگر دنیا کے اصولوں کے مطابق گزاریں گے تو آپ کبھی امیر نہیں ہو سکتے۔
(بقول فلاسفر آف اینسائنٹ روم)
ہم نا شکرے ہو گئے ہیں اس لیے تو برکتیں اٹھ گئی ہیں۔
اگر ہم متوسط طبقے کے لوگ بھی غربت کا رونا روئیں گے۔ تو جو حقیقی معنوں میں غریب ہیں انکا احساس کون کرہے گا؟
3 سال قبل کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے حوالے سے ایک ہولناک سچائی سامنے آئی ہے۔۔ وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے۔
پاکستان میں درپیش حالات و واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
وہ جسکا ایک ہی بیٹا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ! اہلِ دانش تم وہ گندم لے یا تختی لے!
ماہرین کے نزدیک غربت کی مختلف وجوہات ہیں۔ جنگ، قحط، اور دیگر آفات کی غیر موجودگی میں اکثریت کی غربت کی اصل وجہ نچلے طبقے کی دولت کا امیروں تک منتقل ہونا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دو ارب بچوں میں سے ایک ارب بچے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں 40 کروڑ پینے کے صاف پانی کو ترستے ہیں 21 کروڑ طبی سہولیات سے محروم ہے ہیں۔ جبکہ ہمارے حکمران گزشتہ نصف صدی سے اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان میں غربت میں کمی لانے کے لیے بے تحاشہ کام کیا ہے۔
مگر غربت پھر بھی روز افزون بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے گی تو غربت کیسے نہیں پھیلے گی۔
غربت تو وہ ہے، جہاں کہیں کہیں روز تک گھر میں چولہا نہیں جلتا۔۔ ماں بھوک سے نڈھال بچوں کو دلاسہ دینے کی غرض سے پانی کا برتن چولہے پر چڑھا کر انہیں یہ کہتی ہے کہ کھانا پک رہا ہے اور وہ معصوم پھول روتے بلکتے اسی امید سے کہ ماں کھانا بنا رہی ہے، انتظار میں سو جاتے ہیں۔
سو گئے بچے غریب کے جلدی سے یہ سن کر
فرشتے آتے ہیں خوابوں میں روٹیاں لیکر
غربت تو وہ ہے، جہاں تن ڈھانپنے کے لیے ڈھنگ کا لباس نہیں سر چھپانے کے لیے چھت نہیں۔ پاؤں میں پہننے کو جوتا نہیں۔
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
آج ہم اپنے گھروں میں روز پکاتے اور کھاتے ہیں
مگر پھر بھی غربت کا شکوہ زبانوں پر سجاتے ہیں
کہیں گھروں میں کام کرنے والے معصوم بچوں اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غریب تو وہ ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے اپنے مالکان کے تماچے کھاتے ہیں۔۔ پھر بھی زبان پر شکوے نہیں لاتے شاید وہ جانتے ہیں کہ انکے دکھ درد انکی چیخ پُکار سننے والا کوئی نہیں۔
چھوٹی سی زندگی میں ارمان بہت تھے
ہمدرد نہ تھا کوئی مگر انسان بہت تھے
خدارا ان غریبوں کی آواز بنیں اُنکا سہارا اُنکا آسرا بنیں۔ انکی خوشیوں کا سبب اور دکھوں کا مداوا بنیں۔ ہمیں اپنے غم بھول جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیم اور ڈگریوں کے انبار اگر ہمیں فقط انسانیت کی قدر کرنا نہ سیکھا سکیں تو یقین جانیں ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور ہم سے بڑا جاھل کوئی نہیں۔
لفظ تاثیر سے بنتے ہیں، تلفظ سے نہیں
اہل دل آج بھی ہیں اہل زباں سے اگے!
امیروں سے نہ ڈرو بلکہ غریبوں کی آہ سے ڈرو اس لیے کہ اگر امیر بھاگے گا تو حاکم کے دروازے پر جائے گا اور اگر غریب نے آہ بھر لی تو اللہ تعالی کے دروازے کو کھٹکھٹائے گا۔
کل ایک انسان مجھ سے روٹی مانگ کر لے گیا اور کروڑوں کی دعائیں دے گیا پتہ ہی نہ چلا کہ غریب وہ تھا یا میں!
محمّد کے صحابی کا وہ شانہ یاد آتا ہے
بدل کے بھیس گلیوں میں جانا یاد آتا ہے
اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہیں
عمر تیری خلافت کا زمانہ یاد آتا ہے!