Baba e Qaum Muhammad Ali Jinnah Ki Qayadat Ke Karishmat
بابائے قوم محمد علی جناح کی قیادت کےکرشمات
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور نصیحت کرتے رہو نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔ (القرآن سورۃ الذاریات آیت نمبر 55)نسل انسانی کی پیدائش کا سلسلہ ازل تا ابد جاری وساری رہے گا۔ دنیا میں کئی انسان ایسے بھی آئے ہیں، جو جیسےآئے ویسے ہی لوٹ گئے وہیں۔ ایسے نامور علمبرداروں نے بھی اس فانی دنیا پر قدم رکھا، جو اپنی محنت کے بل بوتے پر دنیا کے نقشے کو بدلنے کی سکت رکھتے تھے۔ جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ محنت و کوشش انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اس کا اجر خداوند کریم عطا فرماتا ہے جس کے سبب ان کے نام وکارنامے رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گے۔
25 دسمبر ایک نامور شخصیت قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے۔
دنیاکی تاریخ کے لب پہ تیری سیاست کے چرچےہیں
تیرے تدبر کی باتیں تیری فراست کے چرچے ہیں
جیتے وہ نہیں جو کبھی ناکام نہ ہوئے ہوں بلکہ جیتتے وہی ہیں جو کبھی کوشش کرنا نہیں چھوڑتے اور کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
یہ قائد ملت محمد علی جناح کے ناقابل شکست ارادوں کی کرشمہ سازی ہے، کہ آج ہم وطن عزیز میں ایک آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندوں کی حیثیت سے سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ محمد علی جناح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے اپنے دشمنوں کو بھی لاجواب کر دیتے تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ہندو محمد علی جناح کے پاس آیا، اور اپنے لیڈر گاندھی کی تعریفوں کے پل باندھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنےلگا۔
گاندھی آپ سے بڑا لیڈرہے، انہوں نے اپنی قوم کی فلاح و بہبود کےلیے بے شمار کام کیے ہیں اور عوام کی خاطر دو بار جیلگئے ہیں، جب کہ آپ ایک بار بھی جیل نہیں گئے۔ جواباً محمد علی جناح نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس ہندو کو لاجواب کر دیا کہ جیل وہی لوگ جاتے ہیں جو غلط کام یا جرم کرتے ہیں جبکہ میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا جس کے لئے مجھے جیل جانا پڑے۔ قائد اعظم اپنی ذات کے حوالےسے پروٹو کول جیسی چیز کی سخت مذمت کرتے تھے۔
ایک بار اپنے ڈرائیور کے ساتھ سفر پر روانہ تھے، کہ راستے میں ریلوے ٹریک بندہو گیا، قائد کےاحترم انتظار اور تاخیر کے پیش نظر ڈرائیور نے وہاں کے ملازم سے کہا:گورنر جنرل آئے ہیں، ٹریک کو کھول دیں، جس پر گورنر جنرل محمد علی جناح نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ٹریک کوبند رکھنے کا حکم دیا ا ور کہا کہ میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو کہ پروٹوکولجیسی چیز پر مبنی ہو۔ قائد اعظم نے بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں قدم رکھا ان کے انصاف بہادری جرات مندی ذہانت شجاعت کے تودشمن و غیر مسلم بھی قائل تھے۔
جب برصغیر پر انگریزوں کا دوردورہ تھا، حکومت نے پورے شہر کی تمام دکانیں چھ بجے بند کرنے کا حکم صادرکیا ایک دکان کا مالک جسکی گھڑی غلطی سے دس نٹ پیچھے ہونے کے باعث اپنی دکان کو مقررہ اوقات پر بند نہ کرسکا، اس جرم کی پاداش میں منت سماجت کے باوجود انگریز سپاہیوں نے اس کی ایک دلیل نہ سنتے ہوۓجج کے سامنے پیش کردیا، وکیل نے حقائق کی روشنی میں اپنامؤقف ظاہر کیا، مگر جج اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔
جس پر وکیل نے کمرے میں موجود تمام لوگوں کی گھڑیاں لیکر جج کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہااپنی اور یہ تمام گھڑیاں پکڑ کر دیکھیں کیا یہ سب ایک ہی سمت کا تعین کرتی ہیں اس پر جج نے اپنی اور تمام دوسری گھڑیوں کی طرف نظر ثانی کرتے ہوئے کہا کہ نہیں جس پر جوابًا وکیل نے کہا جب کمرے میں موجود تمام لوگوں کی گھڑیوں کا وقت ایک جیسا نہیں ہوسکتا تو پورے شہر کے شہریوں کا وقت ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔
اس دانش مندانہ سوچ نے سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا، جج نے بے حد متاثر ہوتےہوۓ اپنی سیٹ سے اٹھ کر وکیل سے ہاتھ ملایا اور بغور دیکھنےلگا یہ وکیل کوئی غیر معمولی انسان نہیں ہمارے عظیم لیڈر اس قوم کا فخر قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ قائد اعظم نے اپنے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خدمت ہمت اور برداشت کے سچے جذبات کا مظاہرہ کریں، ایسی شریفانہ اور بلند مثالیں قائم کریں، کہ آپ کے علم ہم عصر اور آنے والی نسلیں آپکی تقلید کریں، ہر قسم کے احتیاج کو پورا کرنا ہر طرح کے خوف کو دور کرنا یہ ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔
بلکہ وہ آزادی اخوت و مساوات حاصل کرنے پر زور دیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ہم سب مملکت کے خادم ہیں اس سے بہتر کوئی ذریعہ نجات نہیں ہو سکتا۔ کہ صداقت کی خاطر شہید کی موت مر جائیں۔ قائد کے فرمان کے مطابق دنیا میں دو قوتیں ہیں ایک تلوار اور دوسرا علم۔ یہ جو تلوار آپ نے مجھے عنایت کی ہے، صرف حفاظت کے لیے اٹھے گی، لیکن فی الحال جو سب سے زیادہ ضروری امر ہے وہ تعلیم ہے جائیے اور علم حاصل کیجیے۔
(بقول قائد اعظم) علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے، اس لیے علم کو اپنے ملک میں بڑھائیں کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے، ہم جتنی زیادہ تکلیف سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اتنی ہی زیادہ پاکیزہ خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے، جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے۔ میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں کام کام اور بس کام۔
اپنی تنظیم اس طور کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بد خواہی یا عناد رکھیں، اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کر لیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کر سکیں۔
Keep up your morale. Do not be afraid of death. Our religion teaches us to be always prepared for death. We should face it bravely to save the honour of Pakistan and Islam. There is no better salvation for a Muslim than the death of a martyr for a righteous cause َ.
If we are right، we can not fail. &
we shall live,and not die. Do your duty. & Have faith in God.
قائد عظم کے فرمودات کو ذہن نشین کرتے ہوئے ہمیں دیانت داری خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنا ہو گی، کہ الفاظ کی اتنی نہیں جتنی قدر و قیمت افعال کی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے، جب پاکستان کے دفاع اور قوم کی سلامتی اور حفاظت کے لیے آپ کو بلایا جائےگا، تو آپ اپنے اسلام کی روایات کے مطابق شاندار کارناموں کا مظاہرہ کریں، آپ اپنے سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی عظیم قوم کے عزت و وقار کو برقرار رکھیں گے۔ ہم سب بھائی بھائی ہیں، یہ مصنوعی حدبندیاں ہمیں علیحدہ نہیں کر سکتیں، مسلمان جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا، اگر اسے جھکانے کی کوشش کی گئی، تو بابر بن جائے گا یا ٹیپو سلطان کی صورت میں نمودار ہوگا یہ مر جائے گا، لیکن محکومی قبول نہیں کرے گا۔ یہاں ایک بات قابل توجہ اور سوالیہ نشان بن کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ خواب جو پاکستان کی تعمیر و مرمت کے وقت سجائے گئے تھے، تب وطن عزیز کی خاطر بے دریغ جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے تھے۔
آج ہم اس ملک کی ترقی کے لیے کیا خدمات انجام دے رہے ہیں موجودہ حکومت سے عوام کو کتنا ریلیف حاصل ہے کیا ہم واقعی ہی میں بے غرض بے لوث بغیر مفاد کے اس قوم کی خوشحالی اور امن کے ئے رول پلے کر رہے ہیں؟ یہ ایک قابل تردید حقیقت ہے قائد اعظم کی زندگی کے قابل رشک لمحات میں اس قوم کے لئے مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں میرےپیغام کا خلاصہ اور تمام تر وضاحتوں کا نچوڑ یہی ہے قائد اعظم کی زندگی سے ہمیں یہ سبق حاصل کرنا چاہیےکہ کامیابی بازاروں میں نہیں بکتی بلکہ انسان اپنے عزم و حوصلے اور لگن سے حاصل کرتا ہے۔ کامیاب لوگ دوسروں سے مختلف نہیں ہوتے، بلکہ ان کے سوچنے کا مثبت و منفرد انداز انہیں دوسروں سے جدا کرتا ہے۔
"Education is the most powerful weapon which you can use to change the world."
"Education is the key to unlock the golden door of freedom."
There is no power on earth that can undo Pakistan. پاکستان زندہ باد