Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehak Rabnawaz
  4. Aurat Ki Takhleeq o Maqam Se Mutaliqa Waz o Wasiat

Aurat Ki Takhleeq o Maqam Se Mutaliqa Waz o Wasiat

عورت کی تخلیق و مقام سے متعلقہ وعظ و وصیت

"اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ "

البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور خدا غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔

قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

"یقیناََ ہم نے انسان کو کالی، سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے۔ "

آخری وصیت نبی اکرم ﷺ نے جو اپنی امت کو فرمائی وہ یہ تھی۔

میں تمہیں دو چیزوں کی وصیت کرتا ہوں۔

1)۔ اصلاۃ۔

2)۔ دو کمزوروں کے بارے میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں ایک غلام، دوسری تمہاری بیویاں۔ ان پر ظلم نہ کرنا۔

عورت کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے خاوند کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

مرد کو عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا جو خود کھاؤ اسے کھلاؤ جو خود پہنو اسے پہناؤ۔

اگر کوئی نوبت تکرار کی آجائے تو اس کے چہرے پر نہ مارنا۔

علمائے کرام کی بعض روایات کے مطابق اگر عورت سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو مار الم والی نہ ہو۔ جبکہ بعض نے کہا مسواک کی مقدار کے اندر روئی لیکر اس روئی کا ایک ڈنڈا بنایا جائے اور اس روئی کے ڈنڈے سے عورت کو مارا جائے۔ مقصد مرد کا عورت پر غصے کا اظہار ہے۔

سورۃ النساء کے مطابق اسے ذہنی تکلیف پہنچانا مقصود ہو۔

رسول اکرم ﷺ نے عورت کی نزاکت کا اس قدر لحاظ رکھا۔ ایک سفر پر تھے کہ ایک انجشا نامی شخص جو اونٹوں کو جلدی جلدی ہانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جس پر عورتیں سوار تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ انجشاء آہستہ آہستہ۔ عورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ نازک آبگینے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں۔

ربّ کریم نے جب انسان کو پیدا کرنا چاہا تو عزرائیلؑ کو حکم دیا کہ زمین پر جاؤ ایک مٹھی مٹی لاؤ تو عزرائیلؑ نے بحکم خدا زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھائی تو پوری روئے زمین کی اوپری پرت چھلکے کی مانند اتر کر آپ کی مٹھی میں آ گئی گی۔ جس میں 7 رنگوں اور مختلف کمیتوں والی مٹی یعنی "سفید و سیاہ"، "سر خ و زرد"، "نرم شیرینی" اور "سخت نمکین" وغیرہ کیفیتوں والی مٹیاں شامل تھیں۔

کچھ عرصہ بعد ربّ ذوالجلال نے حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی سے ایک عورت کی تخلیق فرمائی جس کا نام حوا رکھا گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اللہ ربّ العزت اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے اور خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ کیونکہ انھیں بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے اگر اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی۔

اب یہاں کہیں ذہنوں میں یہ سوال امنڈتا ہے کہ عورت، مرد کی ٹیڑھی پسلی سے کیوں نکلی؟

کیا ٹیڑھا پن اسے وہاں سے ملا ہے؟

اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ بے شک اللہ سب جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔

انسانی جسم میں دل اور بہت سے نازک اعضاء پسلی کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ یعنی پسلی سے پیدا کرنا ربّ العزت کے ہاں ایک حکمت تھی۔ یہ سمجھانا مقصود تھا عورت ایک ڈھال ہے ان اعضاء کیلئے تو اللہ نے عورت کو پسلی سے نکال کر یہ نہیں بتایا کہ عورت میں ٹیڑھا پن ہے بلکہ ربّ تعالیٰ نے عورت کو پسلی سے تخلیق کر کے یہ بات سمجھانا چاہی کہ عورت وقت پڑنے پر ڈھال بھی بن سکتی ہے عورت ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بھی بن سکتی ہے۔ لہٰذا خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔

(سورۃ طٰہٰ) کی آیت پر بعض مفسرین غور و فکر کے بعد یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اللہ ربّ العزت نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔

بعض کے مطابق مرد کی پسلی سے عورت کو بنا کر ربّ العزت نے مرد کو اپنی اس حکمت کی طرف اشارہ دیا۔ کہ میں نے عورت کی تخلیق فرشتوں کی لائی ہوئی مٹی سے نہیں کی بلکہ انسان کی پسلی سے کی۔ میں نے اسے تمہارے جسم کے حصے سے اس لیے نکالا کہ عورت کا تقدس اور پردہ حیا قائم رہے۔ فرشتوں کو بھی خبر نہ ہونے پائے کے زمین سے لائی ہوئی کونسی مٹی سے عورت کی تخلیق کی گئی۔ یعنی عورت کے تقدس کی حد یہ ہے کہ فرشتوں سے بھی اس کی بناوٹ کا پردہ رکھا گیا۔

حضرت حواؑ، حضرت آدمؑ کی پسلی سے نکلی جن کی منکوحہ کہلائیں۔

عورت کا مقام یہ ہے عورت کا دنیا میں پہلا روپ ہی باعث رحمت ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے بیٹی کی پیدائش پر باپ کو جنت کی نوید عطا فرمائی۔

تین بہنوں، تین خالاٶں، تین پھپھیوں کی کفالت پر مرد کو جنت کی بشارت عطا فرمائی۔

لڑکی بیٹی بن کر بھائی کی سچی مخلص دوست اور ماں کا بازو بن جاتی ہے۔

بیوی بن کر ہمیشہ ساتھ نبھانے والی جیون ساتھی بن جاتی ہے۔

جب ماں بنتی ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا رتبہ اتنا بلند کر دیتا ہے کہ جنت کو اٹھا کر اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔

اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اسکی حفاظت اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تسلط حاصل ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ حکمت و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ گویا عورت رعایا اور مرد بادشاہ ہے۔ لہٰذا عورت پر مرد کی اطاعت لازم قرار دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں مسلم معاشرے میں ذمہ داریوں اور حدود کا تعین کرتے ہوئے مرد و خواتین دونوں کو برابر اہمیت دی گئی ہے۔

ہمارے معاشرے کے آج بھی پسماندہ علاقوں میں عورت کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کہ نہایت غیر اخلاقی فعل ہے۔ اور ایسا کرنے والے اشخاص زمانہ جاہلیت کی مثال قائم کرتے ہیں۔ جس میں عورت کو زندہ درگو اور تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ انہی سب کے پیش نظر غیروں کے اکسانے پر مخالف پارٹیاں ہماری بعض خواتین کے جذبات کو ابھار کر انہیں بطور پروپیگنڈا استعمال کرتے ہوئے ان سے ناجائز حقوق پورے کروانے کے مطالبات کرواتی ہیں۔ اس سے نہ صرف عورت کی حرمت پامال ہوتی ہے بلکہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔

گھریلو زندگی میں ناچاکیاں اور تباہی کے دہانے لا کھڑا کرنے کا سبب لوگوں کے وہ منفی رویے اور نظریات ہیں جو آج بھی ہمارے ارد گرد تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ عورت کی زندگی میں اولاد مرد کے نصیب سے جبکہ مرد کی زندگی میں دولت عورت کے نصیب سے آتی ہے یہ بات مرد و عورت دونوں کو سمجھنے کی از حد ضرورت ہے۔

مرد چاہے جسا بھی مکان بنا لے لیکن اس مکان کو گھر کی شکل دینے کے لیے وہ ہمیشہ عورت کا محتاج ہوتا ہے۔

گھر چلانے کے لیے عورت جتنا بھی کما لے لیکن اسکی کمائی میں وہ برکت نہیں جو مرد کی کمائی میں رکھی گئی ہے۔

مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں انہیں دوسرے کی قدر کرنی چاہیے۔

اللہ کا حکم ہے، بیوی کو لباس کہا گیا ہے انکے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اللہ کا نام لیکر تم نے انکو حلال کیا ہے اور اللہ کے آگے تم نے جواب دہ ہونا ہے۔

25 نومبر خواتین پر تشدد کا عالمی دن اسی غرض سے منایا جاتا ہے کہ خواتین پر تشدد کرنے والوں کے ساتھ حکومت اقتدار سرزنش کا معاملہ کرے۔ تاکہ کوئی بھی عورت ظلمت کا نشانہ نہ بنے۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari