Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehak Rabnawaz
  4. Aadatein Naslon Ka Pata Deti Hain

Aadatein Naslon Ka Pata Deti Hain

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں

سو ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے منہ پھیرتے ہیں (سورۃ المدثر)۔ رسول ﷺ سے پوچھا گیا سب سے افضل انسان کون ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہر وہ شخص جو دل کا صاف اور زبان کا سچا ہو۔

ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص آیا۔ اور کہنے لگا: اے علی میں انسان کی پہچان کرنے میں ہمیشہ غلط غلطی کرتا ہوں۔ مجھے پتہ نہیں لگتا کہ کون شخص میرے بارے میں کیسی سوچ رکھتا ہے۔ رشتہ دار ہوں یا کاروباری معاملات یا دوست ہوں میں ہمیشہ اس چیز سے نقصان اٹھاتا ہوں۔ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے میں انسان کا اصلی روپ پہچان سکوں اور نقصانات سے بچ سکوں۔

یہ سنتے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم نے فرمایا اگر تم انسان کا ظرف دیکھنا چاہتے ہو تو اس انسان کو عزت دو۔ اگر وہ باوقار ہوا تو اس سے زیادہ عزت دے گا اگر وہ کم ظرف ہوا تو اپنے اپ کو بہتر اور محترم سمجھے گا اور یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے یا بدتر۔ اور تمہارے لیے کیسی سوچ رکھتا ہے۔

تو ایک مرتبہ سورۃ انصر پڑھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھو اور اگر اس کا چہرہ مسلسل مطمئن رہے۔ تو سمجھ لینا کہ یہ انسان تمہارے لیے اچھا ہے اور تمہارے لیے نیک نیت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پریشان ہو جائے یا گھبرا جائے تو یہ سمجھ جاؤ یہ شخص تمہارے حق میں بہتر نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے دل میں اچھی سوچ نہیں رکھتا۔

اپنے قرابت داروں کی کمزوریاں اچھالنے والے دوسروں کی عزتوں پر باتیں بنانے والے خود کو خاندانی اور دوسروں کو کم تر سمجھنے والے کبھی بھی عزت دار نہیں ہوتے۔ اچھا دوست ہاتھ اور آنکھ کیطرح ہوتا ہے۔

جب ہاتھ کو درد ہوتی ہے تو آنکھ روتی ہے اور جب آنکھ روتی ہے تو ہاتھ آنسوؤں کو صاف کرتے ہیں (فرمان حضرت علیؓ)

کہتے ہیں عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ ماتھے پہ کسی کے کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ بری عادات کی مثال پودے کی سی ہے۔ شروع میں ہی اکھاڑ دو تو ٹھیک ورنہ تناور درخت بن جاتی ہے۔

ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب کے لیے حاضر ہوا قابلیت پوچھی گئی تو اس نے کہا سیاسی ہوں۔ بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھرمار تھی اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا لیا۔ جو حال ہی میں فوت ہو چکا تھا۔ چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا: اس نے کہا نسلی نہیں ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا اس نے جنگل سے سائیس کو بلا کر دریافت کیا۔

اس نے بتایا گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے۔ مسئول کو بلایا گیا۔ تم کو کیسے پتہ چلا اصلی نہیں ہے۔ اس نے کہا جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کرکے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا لیتا ہے۔

بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا، مسئول کے گھر اناج، گھی، دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا۔

چند دنوں بعد بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے متعلق رائے مانگی۔ اس نے بتایا طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے۔ مصاحب کی بات سنتے بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ساس کو بلایا۔

اس نے کہا: حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا۔ لیکن ہماری بیٹی چھ ماہ ہی میں فوت ہوگئی تھی۔ چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنا لیا۔ بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا تم کو کیسے علم ہوا۔ اس نے کہا اس لئے کہ شہزادی کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بدتر ہے۔

اگر ہم غور کریں۔ تو روز مرہ زندگی میں ہمارا واسطہ بھی کہیں ایسے لوگوں سے پڑتا ہے۔ جو اپنے لہجوں رویوں الفاظ سے اپنی پہچان کروا دیتے ہیں۔

(جو خاندانی رئیس ہیں مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا

تمہارا لہجہ بتا رہا ہے۔ تمہاری دولت نئی نئی ہے

ذرا سا قدرت نے کیا نوازا، کہ آکے بیٹھے ہو پہلی صف میں۔

ابھی تو شہرت نئی نئی ہے۔)

بہرکیف بادشاہ مصاحب کی فراست سے متاثر ہوا بہت سا اناج بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں اور اُسے اپنے دربار میں متعین کر دیا۔ کچھ وقت گزرا۔ مصاحب کو بلایا اپنے بارے میں دریافت کیا: مصاحب نے کہا، جان کی امان۔ بادشاہ نے وعدہ کیا۔ ٹھیک ہے۔

اس نے کہا: نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے۔ بادشاہ کو تاؤ آیا۔ مگر جان کی امان دے چکا تھا کہ پھر بادشاہ سیدھا والدہ کے محل پہنچا، والدہ نے کہا یہ سچ ہے۔ تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو۔ ہماری اولاد نہیں تھی۔ تو تمہیں لے کر پالا۔ بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا تجھے کیسے علم ہوا۔

اس نے کہا بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ہیرے موتی جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں۔ لیکن آپ بھیڑ بکریاں کھانے پینے کی چیزیں دیتے ہیں۔ یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے، اسی لیے کہتے ہیں عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔

عادات اخلاق اور طرز عمل خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ جب ہم بولتے ہیں ہمارے ان الفاظ کے پیچھے ہمارے والدین کی تربیت بولتی ہے۔ آپکے الفاظ اپکی تربیت خاندان اور آپ کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔

بے لگام الفاظ بے لگام جانور کی مانند ہوتے ہیں۔ ظاہر کو دیکھ کر ہم بعض اوقات دھوکہ کھا جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ جیسے کہ آگ دیکھنے میں سرخ ہوتی ہے۔ مگر اس کا جلایا ہوا سیاہ ہو جاتا ہے۔

پردہ آنکھوں سے ہٹانےمیں بہت دیر لگی

ہمیں دنیا نظر انے میں بہت دیر لگی

نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص

خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib