Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Sahil
  4. Saaz e Hasti Aik Mutalea

Saaz e Hasti Aik Mutalea

ساز ہستی ایک مطالعہ

دوستو سکی نے کہا تھا "تاہم یہ سوال رہتا ہے کہ ایک ادیب عام لوگ یعنی بے حد معمولی قسم کے افراد کو کس طرح پیش کرے کہ اس کے قارئین ان میں دلچسپی لے سکیں یہ تو ناممکن ہے کہ انہیں (عام لوگوں) کو کہانی سے الگ ہی رکھا جائے اس لیے کہ معمولی لوگ انسانی واقعات کے درمیان خاص اور اہم کڑیاں ہیں"۔

(باقر مہدی) ساز ہستی (شبو، ساز ہستی) کی کہانیاں ان عام لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ جن میں قاری غیر معمولی دلچسپی لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میاں شمس الحق کا شمار نئے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے متاثر ہوں اور ان کی یہ صلاحیتیں ان کہانیوں میں بھر پور شراکت دار ہیں۔ ساز ہستی دو مختصر ناولٹ پر مشتمل ہے پہلے ناولٹ کا عنوان "شبو" ہے جس میں سلیم احمد، شبو، شعیب اور کرن کی رومانوی داستانیں زیر بحث ہیں۔

آغاز میں سلیم احمد محبت کے رموز و اسرار سے نا واقفیت کا اظہار کرتا ہے لیکن شبو کی سیاہی مائل بھوری زلفوں، تیکھے نقوش، خوبصورت و سرخ چہرے، بڑی اور بولتی آنکھوں، ناک اور اس میں لگی لونگ جس پر ننھا سا موتی چمک رہا تھا نے سلیم پر محبت کی دنیاؤں کے در وا کیے اور آخر کار شبو کو آب حیات اور شریک حیات تسلیم کرلیا۔

دوسری جانب شعیب اور کرن کی کہانی منٹو کے "باسط" افسانے کی یاد دلاتی ہے۔ جس میں مرد کے کردار کی ڈی کنسٹرکشن کی گئی ہے جو بظاہر سنگ دل، بے درد اور لاپرواہ جیسے القابات سے منسوب ہے شعیب کے روپ میں کمپرومائز ہمدرد اور خیر خواہ کے طور پر سامنے آتا ہے کرن جس کی پہلے سے عزت و اوریجنٹلی ضائع ہوتی ہے لیکن شعیب کرن کو محبت و عقیدت کے ساتھ قبول کرتا ہے، بقول میڈم روبینہ شاہین ادب وہ واحد ذریعہ ہے جو بدصورت چہروں کو بھی خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، حال جیسا بھی ہو مگر روشن کل کے امکانات سے ادب کا دامن بھرپور ہے"۔

اسلوب کے حوالے سے شبو میں دو مختلف اسالیب موجود ہیں ایک عامیت سے بھر پور ہے اور دوسرا رومانیت سے۔ ناولٹ میں دائروی تکنیک کا استعمال ہے جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی اختتام بھی اس منظر نامے میں گم ہو جاتا ہے اور قاری پر اس یکسانیت کی تفہیم آشکارہ ہوتی ہے جو کرداروں، منظروں اور لفظیات کی مرہون منت تھی۔

دوسرا ناولٹ باموسوم "ساز ہستی" ہے۔ کہانی عام ذہن کی پیداوار ہے اور ہر شخص خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ روز چار پانچ کہانیاں تخلیق کرکے ان کا بیان و اظہار کرتا ہے۔ لیکن ادبی کہانی کے لیے رومانس، تجسس، امیجری، رمز و کنایہ وغیرہ جیسے عناصر ضروری ہیں۔ ساز ہستی ایک ایسی ادبی کہانی ہے جس میں مذکورہ بالا تمام خوبیاں موجود ہیں۔

ابدال کا کردار جدید دور کا بالغ و عاقل کردار ہے۔ جذبات کی سچائی کا جو معیار میاں شمس الحق ابدال کی صورت قائم کرتے ہیں وہ قابل داد ہے۔ ابتداء سے لے کر آخر تک ابدال کا بیانیہ اس لڑکے کا بیانیہ ہے جو احساس کی دھندلی فضاؤں سے ارفع ہوکر شعور کی روشنی سے براہ راست پیوست ہے۔ اس کے علاؤہ ضمنی کرداروں میں تسلیم، صائمہ، احمد، عارفہ بھی شامل ہیں جن کے ذریعے سے کہانی آگے بڑھتی ہے

ساز ہستی میں شمس الحق نے کہیں کہیں بے جا حقیقت نگاری پر زور، جدید ٹیکنالوجی پر سوالات اور انسانی رویوں پر تنقید بھی کی ہے اور خصوصاً آخری لیکچر "جس سے مصنف کی اسلام ازم فکر بھی سامنے آتی ہے (اس کے بھی محرکات ہیں ایک ادیب کی ظاہری شکل و صورت ہے اور ایک اندر کی ذات اس سے فکشن تبلیغ کے قریب پہنچتا ہے حالانکہ جدید فکشن میں ذیادہ تر سماجی و اشتراکی حقیقت نگاری سے گریز کیا گیا ہے) مجموعی طور پر ساز ہستی کی تکنیک سیدھی سادی ہے۔

واقعات کے منطقی ارتباط کے نتیجہ میں ایک کلائمکس عروج پاتا ہے جو قاری کو متجسس رکھتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام واقعات بیانیہ کے ساتھ ساتھ ڈرامائیت کی مدد سے کرداروں کی باطنی کیفیات و واردات کے آئینہ دار ہوکر سامنے آتے ہیں۔۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan