Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Sahil
  4. Nazeer Tabassum, Yas Ke Andhero Mein Umeed Ki Kiran

Nazeer Tabassum, Yas Ke Andhero Mein Umeed Ki Kiran

نذیر تبسم، یاس کے اندھیروں میں امید کی کرن

نذیر تبسم کا اداسی کے باوجود تخلیقی عمل جاری رکھنا ان کے فنکارانہ عزم کی دلیل ہے۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں: "میں بھی قلم قبیلے کا ایک فرد ہوں اور نوک قلم سے اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات کے ابلاغ کا ہنر مجھے عطا ہوا ہے"۔ ان کا مجموعہ کلام "تم اداس مت ہونا" اسی منفرد تخلیقی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں ان کا لہجہ ایک پختہ کار ہنرمند کی طرح پراثر اور خوداعتماد ہے۔

جدید شاعری میں جہاں عام طور پر شاعر اپنی ذات کو تخلیق کے پس پشت چھپا دیتا ہے نذیر تبسم کی شاعری اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں شاعر کی ذات براہِ راست قاری سے راز و نیاز کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ہم کلامی نہ صرف داخلی اور علامتی سطح پر ہوتی ہے بلکہ اس میں ایک وجد آفرین اور نشاط انگیز جذبہ بھی کارفرما رہتا ہےجو قاری کو اپنی لہر میں جذب کیے بغیر نہیں رہتا۔

یہ کیا کہا مرے گھر میں شجر نہیں لگتے
شجر تو لگتے ہیں ان پر ثمر نہیں لگتے

وہاں پھر چند بوندوں سے محبت اگ نہیں سکتی
جہاں پر مدتوں سے گرم ہو بازار نفرت کا

کلاسیکی شاعری میں محبوب کے تصور کو عام طور پر ایک غمگین اور المناکی کیفیات سے تعبیر کیا جاتا ہے جہاں شاعر محبوب کے ظلم و ستم پر نالہ و فریاد کرتا نظر آتا ہے اور اس کی شاعری کی منزل صرف شکایت تک محدود رہ جاتی ہے۔ تاہم نذیر تبسم ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جنہوں نے اس روایتی تصور کو یکسر بدل دیا ہے۔ ان کی شاعری میں محبوب کا وجود مسرت، سر مستی، نشاط، وارفتگی، شیفتگی اور بے خودی جیسی مثبت اور رجائیتی کیفیات کا مرکز و محور بن کر ابھرتا ہے جو ان کے اسلوب کی امتیازی شان ہے۔

کیوں بدلتا رہتا ہے رنگ تیرے چہرے کا
ہم ترے مقابل تو آئینہ نہیں رکھتے

اپنے ہاتھ پہ لکھ کر تیرا نام چوما تھا
آج بھی لبوں پر ہیں روشنی کے ہالے سے

میں کبھی تجھ کو رو برو پاکر بات کرنے کا حوصلہ بھی کروں
تیری آنکھوں کی سرد جھیلوں میں میری آواز ڈوب جاتی ہے

ساری تیری باتیں تھیں اس لیے تبسم کا
برف برف لہجہ بھی اتنا شاعرانہ تھا

نذیر تبسم کے نزدیک گہری محبت کے لیے دلی وابستگی اوررفاقت و رقابت کا جذبہ بہت ضروری ہے۔ جو افراد ان کیفیات اور احساسات سے عاری ہوں، وہ زندگی کے سفر میں آپ کے سچے ساتھی نہیں بن سکتے۔

رفاقتوں کا قرینہ جنہیں نہیں آتا
ہزار ساتھ چلیں ہم سفر نہیں لگتے

نذیر تبسم کی شاعری میں محبت کا ہمہ گیر تصور ملتا ہے جس میں ہجر و فراق کی تلخی بھی ہے اور وصال کی شیرینی بھی۔ اُن کے اشعار میں نہ صرف محبت کے حسین اور دلکش لمحات کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ فراق کی تکلیف اور جدائی کی اذیت بھی سوز و گداز کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ وہ زندگی کے ہر موسم سے گزرے ہیں خزاں کے اختتام کی ویرانی بھی اُن کی شاعری کا حصہ ہے اور بہار کے انتظار کی حسرت بھی۔

رات اس لیے میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رویا
ہجرتوں کے موسم کی پہلی برف باری تھی

وہ لفظوں کی حدوں سے ماوراء ہیں
لبوں کے لمس میں جو ذائقے ہیں

عشق اور ضرورت میں اک عجیب ناتا ہے
وصل کس سے ہوتا ہے یاد کون آتا ہے

نذیر تبسم کی شاعری میں سفر، ایک مرکزی استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مسافر ازل سے ابد تک جاری اس انسانی کشمکش کی طرف بھی مائل نظر آتا ہے جو وجود کے اسرار سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے گریزاں بھی۔ یہ ایک ایسا لاوارث سفر ہے جس کے راستے گم گشتہ ہیں اور منزلیں قریب ہو کر بھی ہمیشہ بعید رہتی ہیں گویا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کا کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام۔

یہ دائروں کا سفر ہے تمام کیا ہوتا
ہزار شکر کہ تو میرا ہم سفر ہی نہیں

مگر جو مرحلے طے ہوچکے ہیں
وہ پھر سے کیوں سفر میں آگئے ہیں

رنجشوں کا سفر عجیب رہا
طے ہوئے سارے مرحلے چپ چاپ

چند سانسوں میں بھلا کیسے کٹے گا یہ سفر
رنجشوں کا ایک صحرا ہے دلوں کے درمیاں

درندوں کا بھی ڈر ہے سوچ لینا
یہ جنگل کا سفر ہے سوچ لینا

روسو کا "جدید انسان" دراصل اُس مثالی آزاد فرد کا استعارہ تھاجس کی آزادی کی تلاش نے جدید تاریخ کے دھارے کو ہی بدل ڈالا۔ تاہم 1947ء کے بعد کے عالمی منظر نامے نے اس انسان کو دو متضاد سیاسی و تہذیبی نظاموں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ معاشرہ ہے جہاں پرانی اقدار، روایات اور سماجی رشتوں کے ٹوٹنے سے ایک ایسا فرد سامنے آتا ہے جو گہری تنہائی، احساس غیرت اور زندگی کی بے معنویت کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اشتراکی نظام (اور بالخصوص نومارکس ازم کی تجدید نظر) کے تحت انسان ایک مختلف نوعیت کی اجتماعی تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔ نذیر تبسم کے ہاں بھی انسان کا یہی پیچیدہ تصور ملتا ہےجہاں اس کے اردگرد کی سماجی سرگرمیاں محض وہمی شکلیں بن کر رہ گئی ہیں۔

واہموں کی بستی میں کون آئینہ دیکھے
اگ رہے ہیں چہروں پر حیرتوں کے سارے دکھ

ہم نے اپنے بچوں کو کیا دیا ہے ورثے میں
عمر بھر کی محرومی سازشوں کے سارے دکھ

طوفاں کا خوف ہے نہ سمندر کا خوف ہے
مجھ میں چھپا ہوا مرے اندر کا خوف ہے

میں بھی اسی قبیلے کا اک فرد ہوں نذیر
دستار سے زیادہ جسے سر کا خوف ہے

نذیر تبسم کے ہاں زمان و مکان کی وسعت ایک ایسی روشن اور لامتناہی دھارا بن کر ابھرتی ہے جس میں وقت کی تمام پیچیدگیاں چمک اٹھتی ہیں۔ وہ وقت کے دقیق فلسفے کو بھاری بھرکم اصطلاحات کے پیراہن میں پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ ان کا تصورِ وقت ایک ہمہ گیر اور وسیع اکائی کا حامل ہے۔ ان کے خیال میں وقت کی مسلسل بہاؤ کو قابو میں لینا محال ہے۔ نذیر تبسم ماضی، حال اور مستقیم کو ایک ہی تسلسل میں پرونے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ انسان کو یہ سبق دیتے ہیں کہ وقت کی تیز رفتار لہروں کے وحشیانہ رستوں پر خود کو ضائع نہ کیا جائے، بلکہ "آج" کے موجود لمحے پر ٹھہر کر اس کا گہرا تجزیہ کرنا ہی حقیقت میں زندگی کو برتنے کا طریقہ ہے۔

موسموں کے دکھ نے دریا سے روانی چھین لی
وقت کے آسیب نے ہم سے جوانی چھین لی

مرے دل نے تجھ سے کیا کبھی تری کم توجہی کا گلہ
یہ ستم ظریفی ہے وقت کی یہ کرشمے گردش حال کے

نذیر تبسم کی نظمیں غنائیت و رجائیت سے بھرپور ہیں خواب اور امید کے اشارے ان کی شاعری میں ہمیں ملتے ہیں ان کی یہ رومانوی نظمیں قنوطی و غم کے ماحول میں جینے اور آگے بڑھنے کا درس دیتی ہیں۔

"صدائے جرس، محیط، دھند، دکھ، ایک پگلی کے نام ان کی نمایاں نظمیں ہیں۔

تم اداس مت ہونا کے مطالعے کی مثال آخری لیکچر جیسی ہے شروع سے آخر تک لفظ کی آشنائی منتشر جذبات کو راستہ دے کر گلشن کی سیر کراتی ہے۔

میں بھی اپنے آخری لیکچر میں افسر دہ رہا
ڈیسک پر سر رکھ کر وہ بھی دیر تک روتی رہی

Check Also

Kalam e Iqbal Ba Khat e Iqbal

By Rao Manzar Hayat