Khwab Nagar Mein Saat Din
خواب نگر میں سات دن

سات ساعتوں نے خواب کی نگری میں خلل پیدا کرنے کی کوششیں کیں لیکن ہم بھی ساتھ ساتھ چلنے کے عادی ہیں اس لیے سات نشستوں میں "خواب نگر میں سات دن" کا مطالعہ کیا۔ سفر نامہ کسی شخص کے سفر کی تفصیلات، تجربات و ذاتی احساسات، مشاہدات اور خیالات کا اظہاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی خاص مقام کی سیر کی، مختلف ثقافتوں کا مشاہدہ کرنے کی اور خاص واقعات کی مکمل روداد ہوتا ہے۔
سفر نامے میں سفر نامہ نگار اپنے تجربے میں مقامی لوگوں کے تجربات و متعلقات کو شامل کرکے قاری کو ان لوگوں کی زندگی و طور طریقوں اور وہاں کی ثقافت و رسم و رواج کے بارے میں آگاہی و معلومات فراہم کرتا ہے۔
خواب نگر میں سات دن ڈاکٹر سید زبیر شاہ کا سفر نامہ ہے جو چترال کے سفر پر مشتمل ہے۔ اس سفر نامے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف معلوماتی ہے بلکہ اس میں کہانی (مصنف کا شمار خیبر پختون خواہ کے نامور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے) کا عنصر بھی شامل ہے، جس سے قاری کی دلچسپی اول سے آخر تک برقرار رہتی ہے۔
آغاز میں سات کے ہندسے کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے "سات کی بات" میں سات کے بابت عجیب و حیران کن اتفاقات کا تذکرہ کیا ہے، مثلاََ بائیبل میں سات ہندسے کا استعمال، سات آسمان و زمین، آدم و ابلیس کا ذکر سات بار، جہنم کے سات طبقات، یوسف علیہ سلام کے خواب میں سات کا ذکر، سات طواف، صفا و مروہ میں سات چکر، قربانی کے جانور میں سات حصے، قران کی سات منزلیں، دنیا کے سات براعظم، یہ سفر سال کے ساتواں مہینے میں سات دنوں میں سات مقامات سے گزر کر سات لوگوں پر مشتمل ہے۔
چترال جانے کا محرک "میں ڈاکٹر صاحب نے اس سفر کی وجہ بتائی ہے ساتھ ساتھ شفیق صاحب کے مقالے جو ظفر اللہ پرواز کے ناول کے اردو ترجمہ و حواشی پر مشتمل ہے کا ذکر ہے۔
اس کے بعد پہلا پڑاو اور مختصر قیام کی جگہ اپر دیر ٹھہرتی ہے اس مختصر حصے میں دیر کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور وہاں کے مسائل زیر بحث ہیں۔
ٹنل پار کرکے جغور پل پر اداسی اور حسین شام کی ملاقات کی کیفیات دیدنی ہیں۔
خواب نگر کی جانب سے "لے کر خدا حافظ چترال" تک یہ پورا سفر نامہ ایک مکمل دائرے کی صورت سامنے اتا ہے۔ سطر سطر مقامی لوگوں اور جگہوں کی تاریخ و تفصیل پر دال ہے۔
اس کے علاؤہ خواب نگر میں سات دن مشاہدات فطرت، چترال کی علمی، ادبی، سیاسی، فضا کے ساتھ ساتھ پوری سماجیات کی تفصیل کا عکس پیش کرتا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحب کی اسلوبیاتی سلاست، بے ساختگی، روانی اور ایک سیاح کی ادبی سرشاری اس سفر نامے میں بلندیوں پر ہے۔ محاورات اور ادبی استعارات کی وجہ سے گہرائی پیدا ہوگئی ہے جو اس سفر نامے کا حسن ہے۔
چند پسندیدہ اقتباسات:
بھوک انسان کی واحد جبلت ہے جس پر وہ قابو پا نہیں سکتا۔ پھر پیٹ خالی ہو تو مسکراہٹوں کا مرہم زائد المیعاد دوا کی مانند نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے۔
زندگی کو خاک اور ہڈیوں میں بدلتے دیکھ کر بھی زندہ رہنے کا احساس مغلوب نہ ہوا۔
وسائل کا فقدان خواتین کی نزاکتوں کو کھا جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی بچیاں روایتی لباس میں لکڑیوں کی سیڑھیوں پر چڑھ کر چھلانگیں لگا رہی تھیں لیکن بے فکر ہرنوٹوں کو معلوم نہ تھا کہ زندگی کے کتنے سخت موسم ان کی جوانی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پتھریلی راستوں کی مسافتیں ان کے روشن چہروں پر گرد ملنے کے لیے ہر لمحہ بے تاب رہتی ہیں۔
دل کا تعلق جوڑنا جتنا مشکل ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل اسے توڑنا ہوتا ہے۔
وقت کے دھاروں میں بہتے انسانوں کو یہ خبر نہین ہوتی کہ وہ کب کہاں کس سے ملیں گے اور پھر ملن کا وہ لمحہ مختصر کتنے زمانوں پر محیط ہوگا۔
اظہار میں اخلاص ہو تو وہ خود ایک فن کی صورت اختیار کرت ہے۔
گویا غیریت پر اپنائیت کے اتنے غلاف چڑھ چکے ہیں کہ کسی قسم کا کوئی بعد محسوس ہی نہیں ہوتا۔
میں خواب و خیال کو حقیقت کے روپ میں دیکھ کر آیا تھا لیکن اب ایک عجیب سا دھڑکا لگا تھا کہ جو کچھ میں دامن دل میں سمیٹ کر لایا ہوں وہ خواب و خیال ہے یا حقیقت۔

