Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Sahil
  4. Beeswi Sadi Mein Urdu Novel

Beeswi Sadi Mein Urdu Novel

بیسویں صدی میں اردو ناول

یہ کتاب بیسویں صدی میں اردو ناول کی تاریخ و تجزیے پر مشتمل ہے اس تبصرے میں چیدہ چیدہ نکات شامل ہیں۔

20 ویں صدی اردو کی جوانی کی صدی ہے کیوں کہ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی رونما ہوئی اس تبدیلی میں ناول بھی شامل ہے۔ ناول حقیقی زندگی کا تذکرہ ہے، ایک خاص طوالت کا نثری بیانیہ ہے، روز مرہ واقعات کا آنکھوں دیکھا ربط بھی ناول ہے، زندگی کی تصویر بھی ناول ہے ناول میں اہم چیز انسان ہے۔

نذیر احمد کا ناول میرات العروس پہلا ناول ہے نذیر احمد کے ناولوں میں حقیقی سوسائٹی کی تصویر سامنے آتی ہے اپنے عہد کے سماجی مسائل پر نظر ڈالتے ہیں۔ زندگی کے حقائق اور اس کے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے انسان اور انسانی زندگی کو بہتر بنانا فرد کی اصلاح کرتے ہیں، اس لیے نصیحت کا پہلو نمایاں ہے۔ مولوی صاحب پر مولویت اور اسلامزم کا الزام لیکن یہ ماحول کا اثر تھا ایامی ناول میں آزادی بیگم کی زبانی محبت کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ نذیر احمد محبت کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے۔

سرشار کے ناولوں میں لکھنوئی تہذیب کی عکاسی کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام رنگ بھی موجود ہیں۔

منشی سجاد حسین کے ناول (حاجی بغلول، احمق الذی، میٹھی چھری) میں سماجی مسائل زیر بحث ہیں۔

مرزا ہادی رسوا کا ناول امراو جان ادا ایک مکمل رودادی کہانی پر مشتمل ہے، شرر (فردوس بریں، منصور موہنا، ملک العزیز ورجینا)نے تاریخ کو فکشن میں پیش کی، راشد الخیری (شام زندگی، صبح زندگی) حقیقی سماج پرست کے طور پر سامنے آئے، مرزا محمد سعید (خواب ہستی، یاسمین) سماجی حالات اور فرد کی باطنی کشمکش کو پیش کرتے ہیں۔

پریم چند (اسرار معاہد، گئودان، بازار حسن) حقیقتوں کے ترجمان ہیں، نیاز فتح پوری (ایک شاعر کا انجام، شہاب کی سرگزشت)، قاضی عبد الغفار(لیلی کے خطوط، مجنون کی ڈائری) نے محبت و عشق کی وادیوں ہوکر ناول کے کینوس کو وسیع کیا، کرشن چندر (شکست، دوسری برف باری سے پہلے) انسان کی ازلی فطرت کی بازیافت اور رومانی بیانیوں کے علمبردار ٹھہرے، تو قرات العین حیدر (چاندنی بیگم، آگ کا دریا، میرے بھی صنم خانے، گردش رنگ چمن) نے تاریخ، تہذیب و تقسیم کے المیے کو زبانی پیش کیا۔

عزیز احمد (ایسی بلندی ایسی پستی، مرمر اور خون، گریز) نے جنس کی عدم اطمینانی کی وجہ سے جدید سماج کا زوال، بدلتے تصورات کا بیان اور جنگوں کے اثرات سے پیدا شدہ خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شوکت صدیقی کا فکشن (خدا کی بستی، جانگلوس) اجتماعی بیانیوں، نئی اقدار کی شکست اور جرائم کی دنیا کا ایک خزانہ ہے۔

آخری حصے میں ان ناول نگاروں کے علاوہ عصمت چغتائی (ضدی، ٹیڑھی لکیر) احسن فاروقی (شام اودھ)، انور سجاد (خوشیوں کا باغ، جنم روپ)، جمیلہ ہاشمی (دشت سوس) بانو قدسیہ (راجہ گدھ) رضیہ فصیح احمد (صدیوں کی زنجیر) انیس ناگی (میں اور وہ، دیوار کے پیچھے) طارق محمود (اللہ میگھ دے) وغیرہ وغیرہ کی ناول نگاری کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر اردو ناول کی تفہیم کے لیے یہ کتاب بڑی مفید ہے اور یوسف صاحب نے نہایت آسان پیرائے میں اپنی بات قاری کے سامنے رکھی ہے۔

ادب کے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں۔

Check Also

Balochistan Mein Kya Ho Raha Hai? (1)

By Javed Chaudhry