Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Yateem Shehzadi

Yateem Shehzadi

یتیم شہزادی

دروازہ بند تھا۔ کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ امی کہیں نہیں تھیں۔ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں گلے میں بستہ لٹکائے میں گلی میں کھڑا تھا۔ مئی کی دوپہر کی دھوپ میرے ماتھے کو بھگو رہی تھی۔ میں نے دائیں بائیں سنسان گلی کو دیکھا اور میری چیخ نکل گئی۔ امی۔ ی۔ ی۔ ی۔ ی۔ جانے کتنی دیر کھڑا دروازے کو دیکھ دیکھ روتا رہا کہ یکایک ایک جانب سے امی بھاگتی ہوئی آئیں اور مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔

اس روز رات گئے تک وہ دادا، دادی، اور ابو کو اپنی اس "لاپرواہی" کی بات سنا سنا کر خود کو کوستی رہیں اور ان کو اکساتی رہیں کہ وہ ان کو ڈانٹیں۔ ہئے بچہ وچارا کلا کارا گلی میں روتا رہا، میں ساتھ والی ہمسائی کو ختم کے چاول دینے گئی تھی، اس نے زبردستی باتوں میں لگا لیا۔ قصور امی کا نہیں تھا مگر قصور میرا بھی نہیں تھا۔ اسکول سے واپسی پر کبھی گھر کے دروازے کی کنڈی لگی ہوئی نہ دیکھی تھی، نہ اس سے پہلے اوع نہ کبھی اس کے بعد۔

امی کے گھر ہونے کا تصور اس قدر پختہ تھا کہ اسکول، کالج، جاب، پھر بیرون ملک سے واپسی پر گھر داخل ہوتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا، امی کتھے؟ اور جواب پر اندر کا بلکتا بچہ مطمئن ہو جاتا تھا۔ امی اندر ہے، کچھ سمیٹ رہی ہے۔ امی کچن میں ہے، کھانا بنا رہی ہے۔ امی چھت پر ہے، مرچوں کو دھوپ لگوا رہی ہے۔ امی کا میکہ موجود تھا مگر وہ کبھی نہ گئیں۔ ماموں سسر کے گھر کو اپنی پہلی اور آخری ترجیح بنا لیا۔

نانی کبھی تیسرے چوتھے سال ہماری طرف رہنے آ جاتیں تو ان دس پندرہ دنوں میں ایک روز ایسا ہوتا کہ میں اسکول سے پلٹتا تو نانی اور امی کے چہرے زور زور سے ہنسنے کے باعث سرخ ہوتے۔ وہ دونوں لاہور کینٹ کے اس دو کمرے مکان کے برامدے کے ٹھنڈے سیمنٹ پر بیٹھے اس قدر ہنستیں کہ میں حیرانی سے چڑ جاتا۔ بات کیا ہے؟ میں بڑی بہن سے پوچھتا اور وہ بھی کاندھے اچکا کر کچن میں جا گھستی۔

بات کچھ بھی نہ ہوتی۔ ماں بیٹی کے گاؤں کی کوئی پرانی یاد ہوتی، کسی کی بھینس کا کھل جانا، کسی کے کھیت سے مالٹے چرانے والے کی دھوتی کا پیچھے رہ جانا، جیسے بچگانہ اور عام سے واقعات ہوتے تھے۔ مگر امی اور نانی ہنستے ہنستے چپ ہوتیں۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھتیں اور ہنسی کا ایک لاپرواہ فوارا ان کے منہ سے نکلتا اور وہ دونوں لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔

میں قسم کھا سکتا ہوں ایسی زندگی سے بھرپور ہنسی میں نے کم کم ہی دیکھی ہے۔ یہ بس ایک دن ہوتا۔ شام کو وہ چور سی ہم سے نظریں ملائے بغیر کھانا دیتیں۔ جیسے کھل کر ہنسنے سے ان سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ آج مجھ سے کوئی پوچھے تو امی کی زندگی میں ان کے اپنے لیے جئے ہوئے وہ چار پانچ دفعہ کی ہنسی والے لمحے ہی تھے۔ باقی کی ساری زندگی انہوں نے خدا اور رسولﷺ کے بتائے فرضوں میں بیتا دی۔

بچپن میں یتیم ہونے والی بڑی تفصیل سے ہمیں نانا ابا کا سنا سنایا حلیہ بتایا کرتی تھیں۔ وہ بہت خوبصورت تھے، آخر میں فخریہ ضرور کہتیں۔ اپنی نزاکت کے بیان میں گاؤں میں دھوتی باندھنے سے چھل جانے والی کمر کا ضرور بتاتی تھیں۔ میں ہنستا، آپ تو مغل شہزادیوں جیسی نازک تھیں۔ ان کی کمر مٹر کے دانوں سے چھل جاتی تھی۔ وہ ایسی نظروں سے مجھے دیکھتیں جیسے کہتی ہوں، ہم بھی بابل کی مغل شہزادیاں ہی ہوتیں اگر نانا جوانی میں فوت نہ ہوتے۔

پتلی کمر والی اس "مغل شہزادی" کو نہ کبھی بنتے سنورتے دیکھا اور نہ کھاتے پیتے۔ برمودا ٹرائی اینگل کے بعد میری جنریشن کے لیے دوسرا مشکل سوال یہی ہے کہ ہماری مائیں کھانا کب کھایا کرتی تھیں؟ برسوں اولاد کے منہ میں نوالا ڈالنے کی لذت شائد ایسے ہی بھوک اڑا دیتی ہے۔ (موجودہ نسل ان ماؤں سے محروم ہو چکی ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔)

چھوٹے بھائی کو تیز بخار تھا۔ وہ بخار میں اٹھا اور صحن میں بنے باتھ روم چلا گیا۔ کمزوری شدید تھی کہ باتھ روم سے باہر آتے چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ اس کو بیہوش ہوتے دیکھ کر امی بھی گر گئیں۔ بھائی جلدی ہوش میں آ گیا اور ہم امی کو ہوش میں لانے لگے۔ امی امی۔ دیکھو کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہے۔ امی نے آنکھیں کھولیں۔ مجھے اپنے اوپر جھکے دیکھا۔ مجھ سے بھائی کی خیریت کا جملہ سنا اور بے اختیار ہو کر مجھے سینے سے بھینچ لیا۔

بچپن میں اسکول سے واپسی والے واقعے کے بعد یہ دوسری بار تھی جب امی نے ایسے گلے لگایا۔ پھر برسوں بعد، امی میرے ساتھ عمرے پر تھیں کہ ہجوم میں کھو گئیں۔ وہ آدھ گھنٹہ جب تک مجھے نظر نہ آئیں، قیامت تھی۔ کیسے کیسے وہم آنکھوں میں لہرا گئے اور اچانک ہجوم سے ایک چہرہ ابھرا۔ امی۔ ی۔ ی۔ ی۔ میری چیخ نکلی اور امی نے بھاگ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ کتنی دیر تک مجھے تسلی دیتی رہیں، اور خود کو بھی۔

کل رات، پھر وہی مئی کی تیز دھوپ میرے ماتھے پر تھی۔ بستہ میرے گلے سے لٹکا ہوا تھا۔ میں نے سنسان گلی میں دائیں بائیں دیکھا اور بہت چیخا۔ امی۔ ی۔ ی۔ ی۔ ی۔ امی۔ ی۔ ی۔ ی۔ ی۔ گلی سنسان ہی رہی۔ دروازے کی کنڈی لگی ہی رہی۔ جانے والی جا چکی ہے۔ چار سالہ بچہ بلکتا رہا۔ یادوں کی دھوپ چمکتی ہی رہی۔

خواہش ہے کاش اللہ میاں جنت کے اس کونے کی جھلک دکھلا دے، جہاں سیمنٹ کے ٹھنڈے فرش پر امی، نانی کے ساتھ بیٹھی کھکھلا کر ہنس رہی ہوں گی۔ ان کا چہرہ سرخ ہوگا خوشی کے ساتھ اور اس پل میں وہ آٹھ بچوں کی فکر کرنے والی ماں نہیں بلکہ ایک نازک شہزادی ہوں گی۔ جن کی کمر دھوتی کے پلو سے چھل جاتی ہوگی۔ خدا سے دعا ہے ہماری خوشیوں کی خاطر جینے والی یتیم شہزادی کو اپنے بابا ماما کی شہزادی بنا کر رکھے۔

Check Also

Dard Dil Ki Qeemat

By Shahzad Malik