Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Rishton Ka Ehteram

Rishton Ka Ehteram

رشتوں کا احترام

آج میں نے اپنی وال پر آپ سے دو سوال پوچھے۔ پہلا سوال تھا کہ کیا آپ اپنی ساس کے پاؤں (احتراماً) چوم سکتے ہیں؟اور دوسرا سوال تھا کہ کیا آپ اپنی ماں کے پاؤں احتراماً چوم سکتے ہیں؟پہلے سوال پر تقریباً ننانوے فیصد کا جواب ناں میں تھا، جبکہ دوسرے سوال کا جواب ننانوے فیصدی ہاں میں تھااور یہی نارمل صحتمند رویہ ہے۔ دونوں جواب غلط نہیں ہیں۔ انسانی فطرت اور مزاج کے قریب تر ہیں۔ماں کے پاؤں چومنے کو دل کرتا ہے۔ ہم اسکے وجود کا حصہ ہوتے ہیں۔ ساس کتنی بھی اچھی ہو، دل میں کتنا بھی اسکا احترام ہو، آپ کا دل اس طرف مائل نہیں ہوتا کہ احترام میں اس قدر کیا جائے۔

یہ بات ہماری سمجھ میں آسانی سے آ سکتی ہے۔ اسی لیے میں نے سوال بھی ایسا ہی کیا تھاتاکہ آپ آسانی سے اور وضاحت سے جواب دے سکیں۔اس سے یہ نتیجہ آسانی سے نکالا جا سکتا ہے کہ جیسے ہمارا دل نہیں کرتا کہ ماں جیسی محبت کسی اور سے کر سکیں، بالکل ویسے ہی ہم کسی اور کو ہماری ماں (یا باپ) سے ویسی محبت کرنے کا نہیں کہہ سکتے ،نہ ہی کسی سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ماں باپ کے ساتھ بالکل ویسے ہی جذبات رکھے جو ہم خود رکھتے ہیں۔ازدواجی زندگی میں سب سے بڑے جو مسائل ہیں، ان میں سے ایک اس اصول کی ٹھیک سمجھ نہ ہونا بھی ہے۔

ہم اپنے ساتھی سے یہ امید لگا لیتے ہیں کہ وہ ہمارے ماں باپ کے بارے میں ویسا ہی محسوس کرے جیسا ہم خود کرتے ہیں۔ جب وہ ایسا نہیں کرتا یا کرتی تو ہمیں برا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے درمیان جھگڑے ہونے لگتے ہیں اور بالآخر بات ماں باپ کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ الجھاؤ اور بیزاری کی طرف بڑھ جاتی ہے۔اگر ہم شادی سے پہلے اپنے رویوں کو میچور کر لیں اور ہر رشتے کے آداب سمجھ لیں تو یقینی طور پر ہم اپنی بیوی یا خاوند سے وہ رویے ڈیمانڈ نہیں کریں گے جو نارمل ہی نہیں ہیں۔

اگر آپ کا شوہر آپ کے میکے جانے سے چڑتا ہے یا اتنا ایکسائیٹڈ شو نہیں کرتا تو یہ آپ کے لیے نارمل ہونا چاہئیے، اور اسی طرح اگر آپ کی بیوی آپ کے والدین کی کسی تکلیف پر تڑپ نہیں اٹھتی، انکے کھانے پینے میں لاپرواہی کر جاتی ہے، یا ان کو ویسا احترام نہیں دے پاتی، جو آپ اپنے دل میں امڈتا محسوس کرتے ہیں، تو یہ رویہ بھی آپ کے لیے نارمل ہونا چاہئیے۔کل میں نے ماں کی محبت میں بےحال لوگوں کے کچھ کامنٹس دیکھے جن سے یہ تاثر ملا کہ ہم ماں سے محبت کا سارا زور اپنی بیوی کو ماں کے سامنے کمتر ثابت کر کے لگانا چاہتے ہیں، اس لیے اس تحریر اور ان سوالات کی ضرورت پیش آئی۔

مجھے لگتا ہے (اور ضروری نہیں کہ آپ کو بھی لگے) کہ ہمیں اپنے رشتوں کی ساری زمہ داری خود اٹھانا چاہئیے۔ جیسے ہم اپنی بیوی کو پیار کرنے کی زمہ داری تن تنہا اٹھاتے ہیں اور کسی کو اس میں شریک نہیں کرنا چاہتے (بری مثال مگر سمجھانے کے ضروری ہے) بالکل اسی طرح ہمیں ماں سے محبت، باپ کی خدمت، بہن بھائیوں کی دلداری، اور دوستوں کی یاری سب کچھ اپنے کاندھوں کی ہمت سے کرنا چاہئیے اور اپنے کسی دوست، بیلی، بیوی، شوہر پر اسکا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئیے۔

آپ کی ماں کے پاؤں دبانے ہیں، آپ خود دبائیں۔ باپ کے جوتے اٹھانے ہیں آپ خود اٹھائیں ۔ یہ ایکسٹریم مثالیں ہیں۔ آپکی ماں کو چائے دینا ہے، آپ اٹھ جائیں اور ان کو چائے دیں، بیوی سے یہ امید نہ رکھیں چاہے وہ بیس سال سے آپکی ماں کے لیے چائے بنا رہی ہو۔ باپ کے چپل چارپائی کے نیچے سے نکال کر دینا ہیں، تو خود جھک جائیے، چاہے آپ کا جوان سال بیٹا ساتھ کھڑا ہو۔ اس سے مت کہیں کہ چلو، دادا کو چپل پہناؤ۔

یقیناً حقیقی منظر یہی ہوگا کہ اس سب کے باوجود آپ کی بیوی ہی آپ کی ماں کو چائے دے رہی ہوگی، اور آپکا بیٹا ہی دادا کو چپل پہنا رہا ہوگا۔ مگر اگر آپ نے یہ رویہ اپنے دل و ذہن میں رکھا اور اس پر گاہے عمل بھی کرتے رہے تو آپ کی بیوی بھی آپکی عزت دل سے کریگی اور آپکا بیٹا بھی کل کو خود آپ کی دلداری کریگا، بجائے نوکر رکھ کر دینے کے۔

اپنے رشتوں کو خود محبت دیجیے۔ آپکو خؤد بخود خالص محبت، خالص عزت ملنے لگے گی۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari