Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Mooli Ke Parathay

Mooli Ke Parathay

مولی کے پراٹھے

سردیوں میں ساگ، مولی، آلو کے پراٹھے پہلے سے بڑھے پیٹ کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ تو کل سے سوچا تھا کہ اب نہیں۔۔ سیلف کنٹرول کی انتہا دیکھیں، بیگم نے خود آفر کی مولی کے پراٹھے کی اور میں نے کہا نہیں، میں آج صرف چائے پیوں گا، ہاں ساتھ میں عربی سویٹس کا ایک ٹکڑا دے دینا، بس! ۔۔ اور کچھ نہیں۔۔ میں نے بسسسسس کی سین پر سارا زور ڈال دیا۔

تھوڑی دیر بعد گھی کے ترترانے کی خوشبو بیڈروم تک آنے لگی تو سمجھ میں آ گئی کہ بیگم نے مجازی خدا کے "حکم" کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو عوام کے ترلوں پر نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے یعنی اپنی من مرضی۔

خیر، بیٹی نے مولی کا پراٹھا لا کر سامنے رکھا تو میں نے احتیاط سے انصاف کے ساتھ کاٹ کر آدھا رکھ لیا اور باقی واپس کر دیا اور خود کو داد دی کہ آہستہ آہستہ ایسے ہی ڈائٹنگ کی طرف چلا جاؤنگا۔۔ اصل چیز مستقل مزاجی ہے۔۔ جو میں نے پراٹھے کے سامنے آنے کے بعد دکھائی ہے۔ مولی کے پراٹھے کو آدھا واپس بھیجنے کا عمل وہی کر سکتا ہے جس کو مستقبل میں سیلف کنٹرول پر کتاب لکھنا ہو کہ نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا۔

جانے آپ مولی کے پراٹھے کے بارے میں جانتے ہیں یا نہیں، مگر مولی کے ریشے کدوکش کیے جانے کے بعد اپنا سارا پانی نکال دیں تو محض دھاگے رہ جاتے ہیں، اور اگر انکو خاص حد تک پکایا نہ جائے تو کچی مولی کرچ کرچ کرتی دانتوں اور پراٹھے پر ناگوار گزرتی ہے۔ اسکے بعد پراٹھے میں اناڑی طریقے سے بھری ہوئی مولی کسی جگہ زیادہ اور کسی جگہ کم ہوتی ہے۔ کنارے اگر نصف سینٹی میٹر سے زیادہ موٹے ہوں تو آدھا پراٹھا محض سادہ پراٹھا ہوتا ہے مولی کا پراٹھا نہیں۔ آخری مرحلہ پراٹھے کی تہوں کا پتلا پن ہوتا ہے۔ آٹے کی موٹی تہہ والا پراٹھا پیٹ پر بھاری اور منہ میں آٹا بھر دیتا ہے۔

اللہ لمبی زندگی و سلامتی دے، میری بیگم کے ہاتھ کے مولی کے پراٹھے کے پہلے لقمے سے ذائقے کا جو تجربہ کام و دہن کو ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ خستہ پتلی تہہ والے کرکراتے لقمے میں رسیلی مولی اور ہری مرچ و دیگر کا قوام منہ میں گھلتا چلا جاتا ہے۔ چائے کا گھونٹ نوالے کو تین بار چبانے کے بعد لینے سے منہ میں گھلے ذائقے کی ست رنگی دھنک میں آٹھواں رنگ چڑھتا ہے۔

جتنی دیر میں آپ نے یہ پڑھا، آدھا پراٹھا پورے کپ چائے کے ساتھ اندر جا چکا تھا اور میں خود کو شاباشی دے رہا تھا کہ مرد دانا وہی ہوتا ہے جو خود اپنے اوپر جبر کی حد لگا سکے۔ اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہی میدان عمل میں ایک کامیاب انسان کی کسوٹی ہوتی ہے۔

اتنے میں بیگم اپنے حصے کا پراٹھا سامنے رکھ کر کسی کام سے دوسرے کمرے میں گئی۔ مجھے لگا کہ اس پراٹھے کی اوپری تہہ زیادہ خستہ ہے۔ تو صرف اوپری تہہ کو چھیل کر ایک نوالہ بنایا اور موبائل اسکرول کرتے کرتے آج کی خبریں دیکھنے لگا۔

دوستو! انسانی حواس کی بساط بس دیکھنے، سننے، محسوس کرنے کی حد تک ہی ہے۔ کچھ باتیں اس کائنات میں انسانی حلقہ ادراک سے باہر کی ہوتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس پراٹھے کے ساتھ ہوا۔ موبائل سے نظر ہٹا کر دیکھا تو پراٹھے کی پوری اوپری سطح غائب تھی۔۔ بیگم ابھی تک کمرے سے غائب تھیں۔۔ اب اوپری سطح کہاں گئی اس پر غور کرنے کا مقام نہیں تھا۔۔ میرے سامنے ایک کھلا پراٹھا ایسے پڑا تھا کہ کدوکش مولی کا ہر ریشہ گویا چیلنج کر رہا ہو۔۔

ویسے بھی آپ جانتے ہونگے کہ پراٹھے کا اوپری حصہ خستہ بن بھی جائے تو نچلا حصہ کافی موٹا ہوتا ہے۔ میں نے اسی خیال سے زرا سے لقمہ بنا کر اسکو چکھا۔۔ کچھ دیر میں چکھنے کا یہ عمل مکمل ہوا تو پلیٹ میں خالی رومال پڑا ہوا تھا۔ بیگم کمرے میں آئی تو حیران کہ پورا پراٹھا کہاں چلا گیا۔۔ بڑبڑاتی ہوئی واپس چلی گئی کہ اسکو یقین تھا کہ کوئی کتنا بھی ندیدہ کیوں نہ ہو۔۔ بغیر رائتے، یا چائے کے سوکھا پراٹھا کہاں ہڑپ جائے گا؟

بیگم کے جانے کے بعد میں نے کمال سنجیدگی سے خلال کا تنکا دانتوں میں گھماتے ہوئے سوچا کہ تبدیلی ایک آدھ ہفتے میں آنا ممکن نہیں ہوتا۔۔ اسکے لیے ذہن بنا لینا کافی ہے، ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔۔ نیت کر لی تو اسکا ثواب تو ملنا شروع ہوگیا، اب عمل بھی ہو ہی جائیگا۔

Check Also

Yasmin Rashid Is Haal Mein Kyun Hai?

By Najam Wali Khan