Munafiqat Ka Aaina, Hamari Ijtemai Sachai
منافقت کا آئینہ، ہماری اجتماعی سچائی

پاکستانی معاشرے میں رویوں کی ایک عجیب کشمکش جاری ہے۔ ہم سب اپنے روزمرہ کے معاملات میں ایسے تضادات کا شکار ہیں جو ہماری اجتماعی اخلاقیات اور انفرادی اعمال کے درمیان گہری خلیج کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو تعلیم یافتہ ہیں یا جنہیں معاشرے میں کسی قسم کا اثر و رسوخ حاصل ہے، ان کے قول و فعل کے فرق سے نہ صرف معاشرے میں بے اعتمادی بڑھ رہی ہے بلکہ ایک ایسی منافقت بھی فروغ پا رہی ہے جو ہماری سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
ہمارے ہاں اخلاقی دوہرے معیار اس قدر رچ بسے ہیں کہ ہم انہیں معمول کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ ایک طرف، ہم اپنے مذہبی اور اخلاقی نظریات کا کھلے عام اظہار کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارے عمل ان نظریات کی نفی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سچ بولنے اور دیانت داری کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، لیکن جب یہی اصول ہمارے اپنے ذاتی یا پیشہ ورانہ مفاد کے خلاف جاتے ہیں تو ہم فوراً ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
یہی دوہرا معیار ہمیں ایک اور جگہ بھی نظر آتا ہے، جہاں معاشرے کے بااثر اور تعلیم یافتہ افراد اپنی حیثیت اور طاقت کے ذریعے ایک خاص تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عام رواج بن چکا ہے کہ لوگ بڑی شخصیات کے ساتھ تصویریں کھنچوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جیسے کہ اس سے ان کی کوئی سماجی یا پیشہ ورانہ حیثیت مستحکم ہو جائے گی۔ لیکن جب عملی زندگی میں کسی کو ان کی مدد درکار ہوتی ہے، تو یہی لوگ مختلف حیلے بہانوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی شخص جو کسی معروف سیاستدان، صنعتکار، یا سماجی رہنما کے ساتھ کھڑا ہو کر خود کو بااثر ظاہر کرتا ہے، کسی ضرورت مند کے لیے ایک چھوٹا سا قدم اٹھانے سے بھی گریز کرتا ہے۔
اس رویے کا سب سے تکلیف دہ پہلو سماجی خدمت کے میدان میں نظر آتا ہے۔ میں خود ایک سماجی کارکن کے طور پر ملکی و عالمی سطح کی تنظیموں کے ساتھ کام کر چکا ہوں، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میں نے کہیں بھی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ، اللہ کی رضا کے لیے کسی کو کام کرتے نہیں دیکھا۔ بیشتر افراد صرف اپنی نمائش کے لیے، کسی کو خوش کرنے کے لیے، اپنی شہرت بنانے کے لیے، یا تنظیموں کو دکھانے کے لیے فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ حقیقت میں، گراؤنڈ ریالٹی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ فلاحی کام بھی اب ایک نمائشی سرگرمی بن چکا ہے، جس میں اصل مقصد دوسروں کی مدد نہیں بلکہ ذاتی تشہیر ہوتی ہے۔
یہ دوہرا معیار معاشرے میں بے اعتمادی، بے یقینی اور غیر یقینی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ جب عام لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ افراد جو علم اور طاقت رکھتے ہیں، خود اپنے اصولوں پر عمل نہیں کرتے، تو وہ بھی ان اصولوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اخلاقی اقدار صرف تقریروں اور کتابوں میں رہ جاتی ہیں اور عملی زندگی میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے صاحبِ اختیار اور بااثر افراد اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے واقعی دستیاب ہوں، ان کے لیے ایک عملی سہارا اور مددگار بنیں، نہ کہ صرف الفاظ اور تصاویر کے ذریعے اپنی اہمیت بڑھانے میں لگے رہیں۔ طاقت، اختیار اور علم کا اصل مقصد دوسروں کے کام آنا ہے، نہ کہ صرف اپنی شخصیت کو نمایاں کرنا۔ اگر ہر فرد اپنی زندگی میں ایمانداری اور اصول پسندی کو اپنائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں منافقت کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ذات سے شروع کریں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم دوسروں کے لیے کیا مثال قائم کر رہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بنے تو ہمیں اپنی زندگیوں کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا جن کا ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ تبدیلی کا سفر مشکل ضرور ہے، لیکن یہ سفر ہمیں ایک بہتر اور مضبوط پاکستان کی طرف لے جا سکتا ہے۔