Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qadir Khan Yousafzai
  4. Iran Ki Israel Aur America Se Barah e Raast Jang Kyun Nahi Hoti?

Iran Ki Israel Aur America Se Barah e Raast Jang Kyun Nahi Hoti?

ایران کی اسرائیل اور امریکہ سے براہ راست جنگ کیوں نہیں ہوتی؟

مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورت حال ہمیشہ سے پیچیدہ اور متنازع رہی ہے۔ امریکہ، ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگیاں ایک طویل تاریخ پر مشتمل ہیں، لیکن باوجود اس کے کہ ان تینوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، اقتصادی اور فوجی مفادات کی ٹکرائو کے باوجود، یہ سوال آج بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ان کے درمیان کبھی براہ راست جنگ کیوں نہیں ہوئی؟ ان کشیدگیوں کے باوجود براہ راست تصادم کی وجہ صرف ایک حکمت عملی یا کسی ایک ملک کی مرضی پر منحصر نہیں، بلکہ اس میں مختلف تاریخی، سیاسی، اقتصادی اور سٹریٹجک عوامل جڑے ہوئے ہیں جو ان تینوں ممالک کے تعلقات کو ایک پیچیدہ صورت حال میں جکڑے ہیں۔

ایران اور عراق کے درمیان 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی جنگ کو 20ویں صدی کے سب سے خونریز اور تباہ کن تنازعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس جنگ نے ایران کی معیشت اور فوج کو شدید نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد کی جانیں لیں۔ عراق کے ساتھ ایران کی اس طویل جنگ کی نوعیت اور اس کی جغرافیائی، سیاسی اور معاشی پیچیدگیوں کو سمجھنا اس سوال کا جواب پانے کے لیے اہم ہے کہ ایران نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ کیوں نہیں کی۔ اس جنگ میں ایران کی قیادت نے نہ صرف اپنی سرزمین کا دفاع کیا بلکہ عالمی سطح پر خود کو ایک طاقتور حریف کے طور پر بھی منوایا۔

یہ جنگ اپنے آپ میں ایک سیاسی اور دفاعی ضرورت تھی، جسے ایران نے اپنے تحفظ اور عالمی طاقتوں کی جانب سے حمایت کے فقدان کی وجہ سے منتخب کیا۔ عراق اور ایران دونوں ممالک کے لیے یہ جنگ ایک سیاسی اور دفاعی ضرورت بن چکی تھی، مگر یہ کبھی بھی مکمل طور پر فتح یا شکست کے طور پر نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔ ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کو اپنے دفاع اور قومی خودمختاری کا معاملہ سمجھا، اس کے باوجود عالمی سطح پر اسے کسی بڑے اتحادی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ پھر بھی ایران نے عراق کے ساتھ اس جنگ کو اپنے دفاع کا حصہ سمجھا اور اس میں جیت یا شکست کو محض اسلحے اور طاقت سے منسلک نہیں کیا۔ جب ہم امریکہ اور ایران کے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی تاریخ دشمنی اور تصادم سے بھری ہوئی ہے، لیکن ان کے درمیان براہ راست جنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کئی بار زور دیا اور ایران کے خلاف متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کیں، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک نے براہ راست فوجی تصادم کی بجائے ہمیشہ سفارتی مذاکرات، اقتصادی جنگ اور خفیہ کارروائیوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ میں عالمی سطح پر تباہی کا خطرہ موجود تھا۔ ایران کے پاس ایسے اسلحے ہیں جو امریکہ کی موجودگی کو مشرق وسطیٰ میں شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم ہوتا، تو یہ عالمی سطح پر مختلف اتحادیوں کے مفادات کو متاثر کرتا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے لیے مشکلات پیدا کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے ہمیشہ اپنے مفادات کو سفارتی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اس نے ایران کی جوہری سرگرمیوں پر مسلسل دبائو بنایا۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات بھی ہمیشہ ایک تلوار کی دھار پر رہے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرات مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کئی بار کوشش کی، مگر اس کے باوجود اسرائیل نے کبھی بھی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف براہ راست حملہ نہیں کیا۔

اسرائیل کا ایران کے ساتھ تعلقات میں ایک پیچیدہ توازن ہے۔ اسرائیل ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کرتا ہے، مگر اس کی حکمت عملی ہمیشہ محدود کارروائیوں، جیسے سایبری حملوں اور خفیہ کارروائیوں پر مرکوز رہی ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ اگر اس نے ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کی، تو اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا اور اس کے بعد خطے میں بالواسطہ جنگوں کی ایک نئی لہر چل سکتی ہے۔ یہ تمام عوامل امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے براہ راست جنگ سے بچنی کے لیے جو حکمت عملی اپنائی ہے، وہ ایک طویل المدتی سوچ پر مبنی ہے جس میں پروکسی جنگوں، اقتصادی پابندیوں اور سفارتی چالاکیوں کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ ان ممالک نے کبھی بھی اس امر کو نظر انداز نہیں کیا کہ براہ راست جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر اسٹریٹجک توازن کا شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ ایران کی جوہری صلاحیت ایک اہم فیکٹر ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ سے گریز کیا ہے۔ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے، تو اس کے نتائج اسٹریٹجک توازن کو بگاڑ سکتے ہیں اور یہ ایک نیا خطرہ بن سکتا ہے۔

امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے خلاف اپنے مفادات کو پروکسی جنگوں کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے حامی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور امریکہ نے ایران کے حامی حکومتوں اور گروپوں کے خلاف متعدد کارروائیاں کی ہیں۔ پروکسی جنگوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں براہ راست لڑائی کے بجائے فریقین اپنے اتحادیوں کو کمزور کرنے کے لیے میدان میں اتارتے ہیں، جس سے براہ راست جنگ سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ براہ راست جنگ کا نتیجہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے، بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ایران کی توانائی کے وسائل اور عالمی تجارتی راستوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے، جس سے عالمی معیشت میں کساد بازاری کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اس لیے اپنے مفادات کے حصول کے لیے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔

تاہم اس امر کے تحفظات ضرور ہیں کہ مستقبل میں ایران، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگیاں جاری رہیں گی اور انکے تعلقات میں مزید پیچیدگیاں آئیں گی۔ اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام اور اس کی علاقائی پالیسیوں کے حوالے سے عالمی سطح پر مزید دبا پڑے گا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تینوں ممالک کبھی بھی براہ راست جنگ میں مبتلا ہوں گے۔ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسری حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ان ممالک کے مفادات کو توازن میں رکھ سکے اور براہ راست جنگ سے بچا جا سکے۔

Check Also

Mera Ishq (1)

By Abdullah Rauf