Stock Market Mein Shadeed Mandi Ka Rujhan
اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان

ان دنوں اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سرمایہ کاروں کے 2 کھرب 16 ارب 44 کروڑ 40 لاکھ روپے ڈوب گئے جو کہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ پچھلی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ معاشی اشاریوں میں بہتری، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، سعودی عرب کے ساتھ معاہدے، بجلی کے نرخوں میں کمی کے حکومتی وعدے اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کی توقعات جیسے مثبت عوامل نے گزشتہ ہفتے اسٹاک مارکیٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ کے ایس ای 100 انڈیکس پہلی بار 119,421 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچا، جس نے سرمایہ کاروں میں امید کی لہر پیدا کی۔
تاہم نئے کاروباری ہفتے کے پہلے روز (پیر) کو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی کے نرخوں اور پراپرٹی ٹیکسوں میں ممکنہ کمی نہ کیے جانے کے خدشات نے منفی اثرات مرتب کیے، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں شدید مندی دیکھنے میں آئی۔ سرمایہ کاروں کے 2 کھرب 16 ارب 44 کروڑ 40 لاکھ روپے ڈوب گئے، جبکہ کے ایس ای 100 انڈیکس میں 2 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔
سرمایہ کاروں کی مایوسی کی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور وفاقی بجٹ میں سخت معاشی اہداف مقرر کرنے کی اطلاعات تھیں۔ اس کے علاوہ، خیبر پختونخوا میں سیمنٹ مینوفیکچررز کے لیے رائلٹی میں مجوزہ اضافے نے بھی مارکیٹ میں منفی جذبات کو جنم دیا۔
مارکیٹ میں مجموعی طور پر 31 کروڑ 10 لاکھ حصص کا کاروبار ہوا، جس کی مجموعی مالیت 20 ارب رہی۔ 56.83 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت کم ہوئی، جبکہ کمی کی بنیادی وجوہات میں او جی ڈی سی، اینگرو، ایف ایف سی، پی پی ایل اور ماڑی کمپنیوں کے حصص کی قدر میں کمی شامل تھی۔
علاوہ ازیں جنوری میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سال بہ سال 1.2 فیصد کمی دیکھی گئی، جس نے معیشت کے حوالے سے مزید خدشات کو جنم دیا۔ دوسری طرف، حالیہ ہفتوں میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا جس کے باعث فروری میں غیر ملکی سرمایہ کاری سال بہ سال 45 فیصد کمی کے ساتھ 9 کروڑ 50 لاکھ تک محدود رہی۔
اس تمام تر غیر یقینی صورتحال کے دوران، سونے کی قیمتیں بھی بے قابو ہوگئیں اور فی تولہ سونا 3 لاکھ 18 ہزار 600 روپے تک جا پہنچا۔
اسٹاک مارکیٹ کی حالیہ مندی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی، حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور غیر یقینی اقتصادی حالات کی عکاس ہے۔ اگر حکومت اور مالیاتی ادارے بروقت اقدامات نہ کریں تو سرمایہ کاری کے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو کہ ملکی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔