Jaffar Express Aur Kaab Bin Malik Ka Waqia
جعفر ایکسپریس اور کعب بن مالکؓ کا واقعہ

پاک وطن جب سے قائم ہوا ہے اس کا وجود دشمن کو کھٹکٹتا رہا ہے۔ اللہ کے نام پر قائم کی گئی ریاست اور ہمارا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے یہاں اللہ کا نظام قائم کرنا ہے۔ اس لئے اس کے قیام سے لے کر آج تک اس پاک وطن کو دہشت گردی کا سامنا رہا ہے اور ہم اس سے نمٹتے چلے آ رہے ہیں۔ دین تو قائم نہیں ہو سکا لیکن طاغوتی قوتوں کو اللہ کے نام پر قائم کردہ یہ ملک پھر بھی برداشت نہیں ہے۔ پاک فوج دہشت گردوں سے نمٹتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس میں موجود مسافروں کو یرغمال بنایا گیا۔ پاک فوج نے ہمیشہ کی طرح اس چیلنج کو بخوبی نمٹا اور شہادتوں کا نظرانہ دے کر یرغمالیوں کو بچا لیا گیا۔
دنیا کی تاریخ میں ایک دفعہ پھر پاک فوج نے اس دہشت گردی سے نمٹ کر آپنے آپ کو ثابت کر دیا اب تمام دنیا کی آرمی کی تاریخ میں اس واقع کو بطور مثال پیش کیا جائے گا۔ لیکن ان سب (مومن) صحافیوں کا کیا کیا جائے جو دشمن میڈیا کی زبان بول رہے تھے! جو بھی پاکستان کے نظریہ سے وابستگی کا دعویٰ کرتے تھے ان سب کو اس واقعہ نے بے نقاب کر دیا کہ کون کون دشمنوں کے دوستوں کی صف میں شامل ہیں۔
ایک بات اور بھی ثابت ہوگئی کہ پاک فوج میں کچھ اصلاحات کی ضرورت تو بہرحال ہے لیکن ایک بات دشمن اور دوست سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاک فوج کے جوانوں کی ٹرینگ آج بھی بے مثال ہے چاہے ان کا ہدف کلبھوشن ہو یا جعفر ایکپریس کو یرغمال بنانے والے دہشت گرد۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ کھلے بندوں ریاست کے اجتماعی مفاد کے خلاف غداری کی جاتی ہے اور غدارانِ ملک اکڑتے پھرتے ہیں، ان کے دل میں نہ خدا کا خوف ہوتا ہے۔
مجھے غزوہ تبوک یاد آ رہا ہے جب رجب 9 ہجری کو حضورﷺ نے اس خبر کے بعد کہ رومی سلطنت نے مدینہ پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا ہے۔ اب مدافعت ضروری تھی اس لئے حضورﷺ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا۔ تبوک کے مقام پر جا کر معلوم ہوا کہ اگرچہ رومیوں میں کھچڑی ضرور پک رہی تھی لیکن ان کی طرف سے فوری حملے کا کوئی امکان نہیں۔ اس لئے حضورﷺ نے 20 دن تک تبوک کے مقام پر قیام کیا۔ جنگ تو نہیں ہوئی لیکن اس واقع میں رہتی دنیا تک ہمیں سبق دے دیا گیا کہ سچے مومن کو خریدا نہیں جا سکتا۔
تقریبا 80 آدمی تھے جو پیچھے رہ گئے تھے، جنھوں نے حضورﷺ کو معزرت پیش کی اور حضور ﷺ نے انھیں قبول کر لیا، لیکن ان میں تین صحابہؓ ایسے تھے جن کے لئے وحی کا انتظار کرنا پڑا۔
ایک کعب بن مالکؓ دوسرے بلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ یہ واقع خلوص اور ضبط کا ایسا مرقع ہے جس کا ہر گوشہ بصیرت سامنے لانے کے قابل ہے۔ یہ واقع خود حضرت کعبؓ کی زبان سے اس طرح بیان ہوا ہے۔
"اس سفر میں گھر پر رہ جانا محض ابتلاء تھا نہ ہی ایسا کرنے کا میرا ارادہ تھا اور نہ ہی کوئی عزر تھا بلکہ میں نے اس کے لئے خاص تیاری کر رکھی تھی جس روز لشکرِ اسلام روانہ ہوا، مجھے کچھ کام تھا، میں نے کہا خیر کل چلا جاؤں گا۔ دو تین دن اسی طرح سستی میں گزر گئے اب لشکر اتنی دور نکل چکا تھا کہ جا کر اس سے ملنا بہت مشکل تھا۔ مجھے نہایت صدمہ تھا کہ یہ کیا ہوا؟ میں اسی تزبزب میں رہا کہ اتنے میں رسول اللہ واپس تشریف لے آئے۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ جس طرح اور لوگوں نے حیلے بہانے بنا کر معزرت قبول کرا لی ہے تم بھی ایسا ہی کرو! لیکن میری روح اس تصور سے کانپتی تھی کہ جھوٹ اور وہ بھی رسول ﷺ کے سامنے! میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا ٹھیک ٹھیک بیان کر دیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر میں ٹھہرو اور حکمِ خداوندی کا انتظار کرو"۔
بلا کسی عزر کے ملت کے اجتماعی امور میں عدم شرکت اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کا فیصلہ رسول ﷺ خود نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کوئی شخص ان تینوں سے بات چیت نہ کرے اور نہ ان کے پاس بیٹھے۔ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ اب زندگی اور اس کی تمام جازبیتیں ہمارے لئے وبالِ جان بن گئیں۔ زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ہم پر تنگ ہوگئی۔ میرے دو ساتھی تو گھروں میں بیٹھ کر روتے رہے، لیکن میں باہر نکلتا تھا اور نماز میں شریک ہوتا تھا، لیکن کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا، میں حضور ﷺ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور کن انکھیوں سے حضور ﷺ کی طرف دیکھتا رہتا، لیکن نگاہِ کرم کا میری طرف التفات نہ ہوتا۔ ایک شام میں اپنے چچا زاد بھائی کے باغ میں گیا، انہیں مجھ سے بڑی محبت تھی، میں نے جا کر سلام کیا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا، میں نے ان سے کہا کہ بھائی! میں تم سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ بتاو، کیا میں خدا اور رسول ﷺ کو دوست نہیں رکھتا، انہوں نے اس پر بھی جواب نہ دیا، میں نے پوچھا تو پھر بھی ساکت رہے۔
میں نے تیسری مرتبہ قسم دے کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی جانتا ہے۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ میں واپس چلا آیا، ایک دن میں بازار میں چکر لگا رہا تھا کہ ایک شامی سوداگر میرے پاس آیا اور ملک غسان کا خط مجھے دیا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارا آقا تم سے خفا ہو گئے ہیں اور باقی لوگ بھی تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ تمھارا رتبہ بہت بڑا ہے۔ تم اس قابل نہیں ہو کہ اس طرح چھوڑ دئیے جاو۔ تم یہ خط پڑھتے ہی ہمارے پاس چلے آو۔ یہاں آکر دیکھ لو گے کہ تمھاری قدرومنزلت کس طرح پہچانی جاتی ہے۔
ایک منٹ کے لئے تصور کریں، آج کے دور کے لحاظ سے اگر آپ کو کسی بھی مملکت کا سر براہ دعوت دیتا ہےا اور ہر طرح کی مراعات اور رتبوں کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اس وقت بہت بڑی آزمائش تھی۔ لیکن اگر دل میں ایمان کی حرارت موجود ہو تو یہ آزمائشیں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟
حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ اس خط سے میرے غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی میں نے وہ خط اُسی قاصد کے سامنے جلا دیا اور اس قاصد سے کہا کہ اپنے آقا سے جا کر کہنا کہ تمھاری عنایات سے مجھے اپنے آقا کی ناراضگی لاکھ درجہ بہتر ہے، میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کی طرف سے ایک اور حکم موجود ہے کہ تم اپنی بیوی سے علحیدہ رہو۔ میں نے پوچھا کہ کیا طلاق کا حکم ہے! کہا کہ نہیں صرف علحیدہ رہنے کا! یہ سن کر میں نے بیوی کو میکے بھیج دیا۔ پچاس دن اِسی کرب و الم میں گزر گئے۔ پچاسویں دن میں اسی غم میں اپنی چھت پر بیٹھا تھا کہ میں نے آواز سنی کہ کوئی شخص جبلِ سلح سے بلند آواز میں پکار رہا تھا کہ اے کعبؓ مبارک ہو! آج کا دن تیرے لئے سب سے مبارک ہے۔ میں نے کہا اے رسول ﷺ یہ آپ کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے! فرمایا خدا کی جانب سے۔
یہ واقعہ اس قدر اہم ہے کہ تاریخ کے علاوہ خود قرآن نے اپنے دامنِ حفاظت میں جگہ دی! آیت 9/106 اور 9/107 اور 9/111 میں اس واقعہ کا زکر ہے۔
آج بھی ہمارا دشمن اس طاق میں بیٹھا ہوا ہے کہ کب اپنے مطلب کے لوگوں کو خرید کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت بے نظیر خود بتاتیں ہیں کہ راجیو گاندھی کی فیملی نے ان کا اس وقت بہت ساتھ دیا اور ان کے احسانات کا بدلہ اتارنے کے لئے بے نظیر جب وزیرِ اعظم تھیں تو راجیو گاندھی کے دورہ پاکستان کے دوران کشمیر کے بورڈ اتار دئیے گئے۔
دشمن ہر دور میں اپنے مطلب کے بندے لیتا ہے چاہے جعفر ایکسپریس ٹرین کی دہشت گردی کی رپورٹنگ ہو یا کوئی اور حادثہ، ہر دفعہ دشمن کی زبان بولی جاتی ہے۔ ایمان بہت بڑی قوت ہے، اگر ایمان ہے تو اس کا ڈولنا آسان نہیں اور اگر نہیں ہے تو تیز ہوا کا جھونکا بھی آپ کو اُڑا لے جائے گا۔