Maghrabi Agenda Ya Masriqi Iqdar
مغربی ایجنڈہ یا مشرقی اقدار
میانوالی میں سفاک جہالت نے پیدا ہوتے ہی بیٹی کا قتل کر دیا۔ یہ ہے وہ شیطانی سوچ جس سے صدیوں سے انسانیت لڑتی آئی ہے۔ دین فطرت اسلام نے عربوں کی جہالت کے اندھیروں میں بیٹیوں کا دفاع کیا اور جہالت کی سوچ سے جہاد کیا۔یہ وہ سفاکیت اور جہالت ہے جس سے ہم سب کو مل کر لڑنا تھا۔ عورت کی زندگی اور صحت اور اسکی پرورش کے یہ مسائل تھے جن کے لیے ہم نے اپنے معاشرے میں سدھار لانا تھا۔
مگر چند شہر کی عورتوں اور مغربی میڈیا پرستوں نے پاکستان میں عورت کے حقوق کی جنگ کو صنفی جنگ میں بدل دیا۔ "تو ہے قاتل تو ہے ریپسٹ" جیسے نعرے لگا کر ان تمام مردوں کو ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا جو ان مظالم کے خلاف سب سے پہلے کھڑے ہوتے تھے۔
ہزار بار لکھا اور بار بار لکھا کہ ہمارے معاشرے کے مسائل اور ہیں اور انکا حل بھی کہیں اور ہے۔ ابارشن کی آزادی، میرا جسم میری مرضی کی سوچ، ٹانگیں کھول کر بیٹھنے کی آزادی، اور بوائے فرینڈ بنانے کی آزادی ہمارے معاشرے کی عورت کے مسائل نہیں ہیں، ان پر قوم کی بیٹیوں کو تقسیم نہ کرو۔مگر یونیورسٹیوں میں فن فئیر کے نام پر بچیوں کی نفسیات کو مسخ کردینے والی سوچ کو اس معاشرے کو مغربی بنانے کی اس قدر جلدی ہے کہ وہ کچھ سننے، سوچنے اور سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔
جبری شادی، کاروکاری، جائیداد میں حصے سے محرومی، تعلیم و تربیت سے محرومی، اور غربت کی وجہ سے شادی سے محرومی جیسے مسائل ہمارے معاشرے میں عورت کے اصل مسائل ہیں۔ ان پر کام ہونا چاہیے۔ اور ان پر کام۔ ہو رہا تھا۔۔ پاکستانی بچیاں ڈاکٹرز، پائلٹس، کھلاڑی، اینٹرپرینورز، سیاستدان سب شعبوں میں جا رہی ہیں اور انکو عزت مل رہی ہے۔
ایسی ہی ڈاکٹر، پائلٹ بچیوں کی مثالوں کی وجہ سے پاکستان کے دور دراز کے پسماندہ علاقوں باپ اپنی سائیکلوں پر دس پندرہ کلومیٹر دور اپنی بچیوں کو اسکولوں میں لاتے اور لے جاتے ہیں۔ ان باپوں کے دلوں میں ایک ہی خواہش ہے کہ انکی بیٹیاں بھی پڑھ لکھ کا عزت دار اور خوشحال بنیں اور انکے لیے باعث عزت و فخر ہوں۔
مگر ابارشن، جسم کی مرضی، کچرے میں پڑی بچوں کی نعشیں، اور یونیورسٹی ہاسٹلوں کی کہانیاں اس اندھیرے میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں۔ پسماندگی اور خوف مل کر اپنی ہی اولاد پر ظلم کا باعث بنتے ہیں۔ ہم ایک ایک قدم معاشرے میں عورت کو عزت و تکریم کی طرف لے جاتے ہیں۔۔ جہاں ہر گھر کی بیٹی کو تعلیم، جائیداد، عزت، اور خوشحال زندگی گزارنے کا ویسا ہی حق ملے جو اس معاشرے میں بیٹوں کو حاصل ہو (جو کئی جگہ بیٹوں کو بھی نہیں ہے)۔۔
مگر جسم۔ کی مرضی، ناجائز تعلقات کی حمایت، جنسی آزادی کی وہ طلب جو شائد کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہے، ایسے نعروں سے اخک ایسی تفریق جنم لیتی ہے جس میں یا تو جہالت باقی بچتی ہے یا مکمل بے حسی۔۔ شہروں میں جہاں بے حیائی اب فیشن بن چکی ہے، وہاں شرافت بے حسی کا روپ دھار چکی ہے، اور گاؤں گوٹھ میں جہالت پھر سے لوگوں کو سبق دے رہی ہے کہ پرانی روش ہی ٹھیک ہے۔
این جی اوز، یا برین واشڈ جسمانی مرضی والوں کو تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر باقی سمجھدار عورتوں اور مردوں سے درخواست کر سکتا ہوں کہ پاکستان میں عورت کے اصل مسائل پر آواز اٹھائیے، جذباتیت کی بجائے تحمل اور حیوانیت کی بجائے انسانیت کے اسباق دہرائیے۔۔ مغربی ایجنڈے کی بجائے اپنی سوچ اور اپنے معاشرے کو بہتر کیجیے۔