Imran Khan Aur Long March
عمران خان اور لانگ مارچ
میں حیران و پریشان تھا۔ اتنا کہ دو ہزار چودہ میں اوورسیز سے پاکستان واپسی کے بعد کبھی نہیں ہوا تھا۔ دوستوں نے بہت سمجھایا کہ باہر رہو اچھی جاب ہے، مفت کی روٹیاں توڑو۔ جاب واقعی اچھی تھی، میں جس کمپنی ڈائریکٹر کے ساتھ منسلک تھا وہ میرے استعفے پر کافی دیر مجھ سے بحث کرتا رہا کہ میں پاکستان واپس نہ جاؤں اور ادھر ہی کام کروں۔ مگر میرے تیور دیکھ کر بالآخر اس نے یہی کہا کہ جب بھی تمہارا سعودیہ واپسی کا پروگرام بنے ایک ای میل کر دینا اور تمہارا ویزہ بھیج دونگا۔
ان آٹھ سالوں میں پاکستان میں بدترین لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، ملاوٹ، فراڈ، کاروباری دھوکہ بازی، اپنوں کے بھیس میں آستین کے سانپ، سب کچھ دیکھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آنے سے جتنے بیرون ملک انویسٹمنٹ اکاؤنٹس تھے یکے بعد دیگرے بند کرنا پڑے کہ ایک غیر اعلانیہ ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں کب کی شروع ہو چکی ہیں۔ ان تمام نقصانات اور مایوسیوں کے باوجود دل اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا تھا جتنا 24، 25 مئی کی درمیانی رات تھا۔
میرے سامنے حقیقت آشکار ہو چکی تھی۔ جس پاکستان کو میں اپنی دھرتی اپنا حق سمجھ کر واپس آیا تھا، وہ تو ہزاروں میل دور امریکہ کو بیچ دی گئی تھی۔ اس کے تمام اثاثے، تمام ادارے، تمام انسان اب ایک طاقتور عفریت کے قبضے میں جا چکے تھے۔ میں جس ریاست کی اٹانومی، حق خود داری و خود مختاری کے لیے پر عزم تھا، وہ پوری ریاست گروی تھی۔ اس ریاست کا ایک ایک عہدہ محض ایک ریموٹ کنٹرولڈ مہرہ ثابت ہو رہا تھا۔
جیسے پتلی تماشے میں تماشہ کرنے والا پتلی سے بندھی رسیوں کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتا، اسی طرح اس بار امریکہ بہادر نے بھی کسی سفارتی تکلف کی ضرورت محسوس نہیں کی اور انتہائی بے شرمی سے "میری" ریاست میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کر ڈالیں اور بتا دیا کہ تمہاری حیثیت ایک معمولی اہلکار سے بھی کم ہے۔ جس کو کھڑے کھڑے نوکری سے نکالا جا سکتا ہے۔
آپ میں سے جو پرائیویٹ سیکٹر میں جابز کرتے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ مینیجر یا ڈائریکٹر کو ہٹانے کے لیے کافی خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کے پاس کمپنی کا ڈیٹا ہوتا ہے، اور کسی زیادتی پر وہ قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے، اس لیے اس کو فارغ کرتے وقت کافی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر نچلے درجے کے ملازمین کا اکثر اچانک حساب کر دیا جاتا ہے اور ظالم باس تو اکثر اس حساب میں اس ملازم ہی کی طرف کچھ بقایا جات نکال دیتا ہے۔
بالکل ایسے ہی میرے ملک کی چلتی حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔ اپنی پسند کے مہرے لگا دیے گئے۔ جن کے انٹرویو اس ملک کی ایمبیسی میں پہلے ہو چکے تھے۔ اس ملک کا طاقتور ترین ادارہ فوج ہے اور اس کو طاقتور بنائے رکھنے ہی میں فی الحال پاکستان کی بقا ہے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے سے وہ سویٹزر لینڈ بن سکتے ہیں وہ اس ملک کی تاریخ و حغرافیے کو اپنے ذہن میں پراسیس کرنے سے قاصر ہیں۔
مگر حالیہ سچائیوں میں ایک یہ سچائی بھی سامنے آئی کہ یہ طاقتور ترین ادارہ بھی پرو پاکستان کی بجائے پرو امریکہ سوچ والی لیڈر شپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کا ببانگ دہل اپنے سویلین وزیراعظم اور حکومتی پالیسی کے مخالف جا کر امریکہ کا پسندیدہ بیان دینا اس سچائی پر مہر لگا دیتا ہے۔
ان سچائیوں کے سامنے آنے کے بعد اور عمران خان کے لانگ مارچ شروع کرنے پر میں از حد پریشان تھا۔ پاکستان کی بقا کے لیے۔ جس فصل کو اس کی باڑ ہی کھانے لگے اس فصل کو کون بچا سکتا ہے؟ تمام ریاستی ادارے فوج، عدلیہ، پولیس، حکومت یکسو تھے کہ عمران خان اور اس کے ساتھ کھڑے عوام کا مقابلہ کرنا ہے اور ان کو شکست دینا ہے اور اس نظام کی حفاظت کرنا ہے جو امریکہ کی خوشنودی کے حساب سے سیٹ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی اکانومی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور جو تصادم ہونے جا رہا تھا اس کے نتیجے میں ملک میں فسادات پھوٹ پڑنے کے نوے فیصد امکانات تھے۔ نیوٹرل باجوہ صاحب و عدالت نیم شبی نے حکومت جن کے سپرد کر دی تھی ان کی نظر میں پاکستان کی بقا یا پاکستان کے عوام سے زیادہ قیمتی ان کے اثاثے ہیں اور انتقام جو وہ اپنی حرام زدگیوں پر جوابدہی کے جواب میں پاکستانی عوام سے لینا چاہتے ہیں۔
پنجاب پولیس شریف خاندان کی انویسٹمنٹ ہے۔ تیس سالوں میں جو کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے اب افسر ریٹائرڈ ہو کر اپنے بیٹے لگانے والے ہیں۔ (اس پولیس نے بھی لمبے عرصے کی عوامی نفرت خرید لی ہے) ان حالات میں عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہوتا ہے کہ فوج نیوٹرل ہے مگر رینجرز نہتی عوام پر شیلنگ کر رہی ہے۔ پولیس اور ان کے پالتو غنڈے راہ چلتوں پر ڈنڈے برسا رہے ہیں۔
عدالت کا فیصلہ آنے کے باوجود شیلنگ ہو رہی ہے اور دہشت گردی آپریشن میں استعمال ہونے والی آنسو گیس نہتے عوام، خواتین اور بچوں کے ہجوم پر برسائی جا رہی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے مرحوم بیٹے کی بیوہ کے گھر پر پولیس گردی کی جا رہی ہے اور عدالتیں، اور ریاستی ادارے گنگ خاموش تماشائی ٹی وی پر عوام کی بے حرمتی دیکھ رہے ہیں۔ میں ایسے میں شدید پریشان اس لیے تھا کہ ان حالات میں ملک و عوام کا کون سوچے گا؟
بار بار اپنے ایسے دوستوں سے رابطہ کر کے پوچھ رہا تھا کہ ان حالات میں کسی ملک میں کون سا ادارہ ہوتا ہے جو صورتحال کو بے قابو ہونے سے پہلے روک لیتا ہے۔ مگر کوئی ادارہ، کوئی تھنک ٹینک، کوئی کمیٹی، کوئی پارلیمانی وفد، کوئی بیرون ملک دوست ایسا نظر نہیں آتا تھا جو اس صورتحال میں کردار ادا کر سکے۔
اب یہ تاریخ کا حصہ ہے نہ اس کو فوج جھٹلا سکتی ہے، نہ پولیس، نہ شہباز شریف کی بھکاری امپورٹڈ حکومت کہ پچیس مئی کی صبح رینجرز شیلنگ کر رہی تھی۔ پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی، اور حکومت پاکستانی عوام کو قتل کرنے پر آمادہ تھی باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی تھی کہ عوام کو اس کا آئینی حق احتجاج استعمال کرنے دیا جائے۔
اب یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ یہ سب ادارے ملک و عوام بچانے کے عمل سے باہر ہو چکے تھے۔ جبکہ ان کے مقابل ایک ایسا شخص تھا جس کا اس ملک میں ذاتی اسٹیک زیرو تھا۔ جس کی واحد دولت دو بیٹے جو ملک سے باہر محفوظ تھے۔ جس کی زندگی گواہ تھی کہ اس کو اس ملک سے کچھ نہیں لینا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو اب بھی ایک ڈائری اٹھا کر جہاز میں بیٹھ جاتا تو اس کا کچھ نہ بگڑتا۔
اس شخص کے ساتھ ہزاروں کا ایک ایسا مجمع تھا جو انتہائی غصے میں تھا۔ جو راستے میں آئی تمام رکاوٹیں پار کر کے آیا تھا۔ جس کو گرفتاریاں، آنسو گیس شیلنگ، اور لاٹھی چارج روک نہ پایا تھا۔ وہ شخص چاہتا تو اپنے اقتدار کے حصول کی خاطر چنداشیں حاصل کر لیتا اور صورتحال اس کے لیے سازگار ہو جاتی۔ مگر اس تمام منظر میں جب اداروں کی لپلپاتی زبان اپنے ہی عوام کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی، اس ایک شخص نے عوام، پاکستانی عوام کی جانوں کا سوچا اور اپنی سیاست ان کی زندگیوں پر قربان کر دی۔
اس نے پسپائی کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے "پاکستانیوں " کی جان بچا لی۔ عمران خان جب "میرے پاکستانیوں " کہہ کر تقریر شروع کرتا تھا میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ پاکستانیوں کو اپنی جاگیر یا ملکیت سمجھتا ہے جو غرور سے حق دعویٰ سے "میرے" کہتا ہے۔ مگر تب اندازہ ہوا کہ وہ ان پاکستانیوں کی سلامتی اپنی سیاست سے اوپر سمجھتا ہے اس لیے ان کو میرے کہتا ہے۔ وہ اس کے اپنے ہیں۔
سانحہ ساہیوال پر عمران خان کی خاموشی کو میں آج تک بھلا نہیں سکا۔ مگر لانگ مارچ میں ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالنے پر میں عمران خان کی اس پرانی غلطی کو نظر انداز کرنے کو تیار ہوں کہ تب اس کو بھی میری طرح اداروں سے نیکی کی امید تھی۔ جب تک عمران خان پاکستان میں ہے، یہ ملک اب بھی رہنے لائق ہے۔