Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Guru Aur Chela

Guru Aur Chela

گرو اور چیلا

ایک گرو اور چیلا کسی سفر پر تھے۔ طرح طرح کی زمینوں سے گذرتے وہ ایک ایسے دیس پہنچے جہاں کے لوگوں کی عقل بہت محدود تھی۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ حد سے زیادہ سادگی، بلکہ بیو قوفی ہر معاملے میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کی تمام چیزیں دو آنے سیر تھیں۔ حتی کہ کپڑا، لتا، آنا جانا سواری، سب کچھ دو آنے سیر تھا۔ چیلا بہت خوش ہوا کہ یہاں لوگ بہت بیو قوف ہیں، اس لیے یہاں آسانی سے ترقی کی جا سکے گی۔ وہ کہنے لگا، گرو جی ہماری تپسیا پوری ہوئی، اب ہم یہییں رہیں گے اور روزانہ دو آنے سیر کھانے کھایا کریں گے۔

گرو، جو سیانا تھا، کہنے لگا، میری مانو تو فوراً اس دیس سے نکل چلو۔ ورنہ ہم کسی بہت بڑی مشکل میں پھنس جایں گے۔ یہ لوگ بند دماغوں کے ہیں، یہاں ان کے درمیان رہنے سے جان کو خطرہ ہے۔ چیلا ہنسا (وہی ہنسی جو سنجیدہ پوسٹوں پر کچھ ہنستے ہیں)۔ اور کہنے لگا، گرو جی، آپ کی ساری باتیں گرو سمجھ کر مانتا آیا ہوں۔ مگر آج آنکھوں دیکھی کو جھوٹ اور آپ کی اندیکھی کو سچ کیسے مان لوں؟ ضرور آپ سٹھیا گئے ہیں، میری طرف سے ست سلام، میرا اور آپ کا رستہ جدا۔ (بقول شخصے تم جیسے گرو فیس بک پر بہت ہوتے ہیں )۔

خیر گرو پچھتایا کہ ایسے ملک سے گذرے ہی کیوں؟ اس کا چہیتا چیلا بھی ہاتھ سے گیا۔ گرو سر جھکا کر چلا گیا اور اس دیس سے نکل گیا۔ برسوں بعد گرو واپس کے سفر میں اسی ملک سے گذرا، تو اس کو اپنے چیلے کی یاد آ گئی۔ اس نے ادھر ادھر سے پوچھا مگر کچھ پتہ نہ چلا، اتنی دیر میں شہر میں منادی (اعلان) ہوئی کہ چوک میں جمع ہو جائیں، ایک چور کو پھانسی دی جارہی ہے۔ پھانسی کے لیے رسی چبوترے پر جھول رہی تھی، اتنے میں چار سپاہی ایک ہٹے کٹے آدمی کو لے کر رسی کی طرف چلے۔

وہ ہٹا کٹا آدمی بری طرح چیخ رہا تھا، چلا رہا تھا، اور اپنی جان جانے کے خوف سے اس کا رنگ زرد تھا۔ گرو کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ یہ اس کا وہی چیلا ہے جس کو وہ برسوں پہلے یہاں چھوڑ گیا تھا۔ گرو چبوترے کے قریب ہوا تو چیلا اس کو پہچان کر بھاگا اور اس کے قدموں سے لپٹ گیا کہ گرو جی مجھے بچا لو، میں بےگناہ ہوں۔ گرو نے حال پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا؟ چیلا رو رو کے بتانے لگا کہ میں دو آنے سیر والے ملک میں بہت خوش تھا۔ کھا کھا کر میرا یہ حال ہو گیا کہ مجھ سے چلا تک نہیں جاتا تھا۔

مگر میں خوش تھا، اتنا کھانا زندگی بھر نہیں ملا۔ مگر اس شہر میں ایک چوری ہو گئی۔ یہ لوگ بہت بیوقوف ہیں۔ چور بھی انہی میں سے تھا، وہ بھی بہت بیوقوف تھا۔ چوری کی اور پکڑا بھی گیا۔ اب مقدمہ چلا۔ قاضی بھی انہی میں سے ہے۔ قاضی نے چور کو پھانسی کا حکم سنا دیا۔ جلاد کو پھانسی لگانے کے لیے کہا گیا۔ جلاد نے پچھلے بیس سالوں میں کسی کو پھانسی نہیں دی تھی، وہ ایک پرانی پھانسی والی رسی لے آیا، جس کا پھندا کھلا تھا۔ اب کسی کو پھانسی کا پھندا ٹائٹ کرنا نہیں آتا تھا۔

اس لیے قاضی نے حکم دیا کہ جس کی گردن میں یہ پھندا فٹ آ جائے اسی کو چوری کی سزا دےدی جائے تب بھی سزا مکمل ہو جائیگی۔ گرو جی، میری بدقسمتی اور پیٹو پن کہ میری گردن اتنی موٹی ہو گئی تھی کہ پھانسی کے پھندے کے ماپ پر فٹ آ گئی۔ سو یہ سپاہی مجھے پکڑ کر لے آئے۔ گرو نے افسوس کے ساتھ چیلے کو دیکھا اور کہا، بیٹا یہی وجہ تھی کہ میں نے تمہیں ایسے دیس سے فوری نکل جانے کو کہا تھا۔

جس دیس کے باسی اس قدر احمق ہوں کہ دو آنے سیر بھنڈی اور دو آنے سیر چاندی میں فرق نہ کر سکیں، وہاں ایسا ہونا عام سی بات ہے کہ پھانسی کی رسی چور کو پوری نہ آئے تو جس کی گردن موٹی ہو اسی کو پھانسی پر لٹکا دو۔ یہ پھانسی تمہیں ناکردہ گناہ پر نہیں دی جا رہی۔ تمہارا گناہ یہ ہے کہ تم نے ایسے دیس اور ایسے لوگوں میں رہنے کا سوچا۔

یہ حکایت برسوں بعد یوں یاد آ گئی کہ سپریم کورٹ نے اپوزیشن کو بلا کر پوچھا کہ الیکشن کروانے میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟ ان کا اعتراض سن کر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بلا کر پوچھا، کیا آپ الیکشن کروا سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کا ان کار سن کر سپریم کورٹ زیر سماعت کیس میں اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اسپیکر کی رولنگ خلاف آئین ہے اور چونکہ الیکشن تین ماہ میں نہیس ہو سکتے اس لیے کوئی دوسرا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ الیکشن کمیشن کو بلانے اور اپوزیشن کو نئے الیکشن کا پوچھنے کا تعلق آئین یا خلاف آئین ہونے سے نہیں بنتا۔

اسپیکر کا عمل خلاف آئین ہے تو بھی الیکشن ہوں یا نہ ہوں، خلاف آئین ہی ہے اور اسپیکر کا عمل آئین کے مطابق ہے تو بھی الیکشن ہوں یا نہ ہوں، آئین کے مطابق ہی ہے۔ البتہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کسی آئینی عمل سے الیکشن فوری درکار ہیں تو الیکشن کمیشن تیار ہو یا نہ ہو، الیکشن ہونا چاہئیں۔ چونکہ الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن تیار نہیں ہے، اس لیے جس کی گردن میں رسی فٹ آئے وہی مجرم ہے۔

دو آنے سیر والے دیس سے جس قدر جلد نکل جاؤ وہی اچھا ہے۔ ورنہ جلد یا بدیر تمہاری گردن میں کسی اور کے جرم کی رسی ڈال دی جائیگی اور سارے لوگ "آئین کے تحفظ" پر بہت خوشی سے تالیاں بجائیں گے۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez