Gorastan Ki Yaadein (8)
گوراستان کی یادیں (8)
غالباً انیتا نام تھا اسکا۔ تائیوان سے ماس کام پڑھنے آئی تھی۔ اور ملحد تھی۔ یعنی خدا کو نہیں مانتی تھی۔ بچوں جیسے اشتیاق سے میں اسکے پاس بیٹھ گیا۔ واقعی؟ میں نے کنفرم کرنے کو دہرایا، تم خدا کو نہیں مانتیں؟
نو، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تو یہ دنیا، یہ زندگی، یہ ہم تم؟ سب کیا ہے تمہارے خیال میں؟
یہ سب ویسا ہی ہے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں، جیسا سائنس نے بتایا ہے۔ ہم پیدا ہو رہے ہیں جی رہے ہیں، مر جائینگے۔ اور بس۔
اس نے وضاحت کی اور سر کو ہلکا سا جھکا کر میری دلچسپی کو دلچسپی سے دیکھنے لگی۔
اچھا، میں نے سوچتے ہوئے اچھا کو ذرا لمبا کھینچا۔
تو مرنے کے بعد سب ختم؟ پھر کیا فائدہ اس زندگی کا؟ تم اتنے سال پڑھنے کو لگاؤ گی، پھر شادی، بچے، اور خاوند، کیرئیر اور یہ سب ختم۔ زندگی ختم۔ بس۔ ختم شد؟ میں نے ختم ختم کی گردان کر دی، وہ ہنسنے لگی، جیسے چینی لڑکیاں ہنستی ہیں، باریک تیز آواز کی تھرتھراتی ہوئی بانسری سے نکلی ہو ہنسی۔ مگر یہ موقع مذہبی بحث کا تھا، اس لیے میری توجہ اسکے حلق سے نکلنے والی ہنسی سے زیادہ اسکے دماغ سے نکلنے والے جوابوں پر تھی۔
ہاں ختم ہو گا تو میں ختم ہو جاؤں گی۔ ایک بھرپور زندگی جینے کا موقع تو مل گیا۔ یہ سب جو ہو رہا ہے کافی سے زیادہ زندگی ہے اس میں۔ یہی جی لوں کافی ہے۔ میں اس پر راضی ہوں۔
وہ۔ واقعی راضی نظر آ رہی تھی، مگر میں راضی نہیں تھا۔ مجھے اسکو کسی پچھتاوے، پریشانی اور احساس محرومی میں مبتلا کرنا تھا تاکہ وہ خدا اور مذہب کے بارے میں سوچنے لگے۔
تم اپنی فیملی میں کس سے سب سے زیادہ اٹیچڈ ہو؟ میں نے بالآخر وہ کمینگی کے زہر میں بجھا تیر نکالا جو ایسے موقعوں کے لیے ہی ترکش میں رکھا رہتا ہے۔
میری چھوٹی بہن، آئی لو ہر سو مچ، اس نے آنکھیں میچ کر سو مچ ایاے کہا جیسے اپنی بہن کے سراپے پر واری جا رہی ہو۔
اس میں میری جان ہے، میری بہت لاڈلی ہے وہ، ہی ہی ہی۔ انیتا ہنس مکھ لڑکی تھی، صاف دلی سے اپنا آپ بتا رہی تھی، مگر میں اب دلچسپی سے آگے ایک خرانٹ اور گھاگ تیر انداز کی طرح آخری وار کرنے کو تیار تھا۔
تو انیتا ڈئر! فرض کرو تمہاری اس چھوٹی بہن کی اچانک موت واقع ہو جائے اور وہ اس دنیا سے چلی جائے تو کیا کرو گی تم؟ کیا تم نہیں چاہو گی کہ اگلی دنیا میں تم اس سے مل سکو، اسکو گلے لگا سکو، اس کو پھر سے چوم سکو، پیار کر سکو؟
میں تیر چلا چکا تھا، اسکے چہرے کا رنگ لمحہ بھر کو ہنسی سے تشویش کی طرف پلٹا مگر پھر اس نے سنبھل کر ایک اسکالر جیسی سوچ کے ساتھ جواب دینا شروع کیا۔
دیکھو محمود، میں اسی زندگی کو مانتی ہوں اور اسی تک ہی سوچ سکتی ہوں۔ میری بہن میری جان ہے۔ میں اسکو دیکھ کر خوش رہتی ہوں۔ مگر جب یہ زندگی ختم ہو جاتی ہے تو سب ختم ہو جاتا ہے۔ میں اپنی بہن کے جانے پر شدید دکھ میں رہونگی، اور پھر اسکو سمجھ جاؤنگی اور اپنی زندگی کی ڈگر پر چل پڑونگی۔ مگر ایک دوسری زندگی کے سراب کا شکار نہیں ہونگی۔ مجھے یہ آئیڈیا سوٹ نہیں کرتا۔ اوں ہوں۔
میں نے حیرت سے اسکے چہرے کی جانب دیکھا۔ انسانی عقیدے کی طاقت کا ایک نیا رخ میرے سامنے تھا۔ اسکے چہرے کا اطمینان کسی عابد و زاہد جیسا تھا۔ راضی برضا کا انوکھا رخ۔ خدا کی خدائی پر ایمان مگر خدا کو مانے بغیر۔