Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Gorastan Ki Yaadein (6)

Gorastan Ki Yaadein (6)

گوراستان کی یادیں (6)

ہم ڈاؤن ٹاون چل رہے ہیں، ناسیہؔ نے آخری لیکچر کے بعد اپنی فائل اٹھاتے ہوئے مجھے بتایا۔ تم چلو گے؟ آج ویک اینڈ ہے، کچھ گھومیں پھریں گے۔ ایک گوری یورپی لڑکی کا یہ سوال پاکستانیوں کے لیے ضیاؑالحق کا ریفرنڈم ہوتا ہے، جس کا ہر ممکنہ جواب "ہاں" ہی میں ہوگا۔ مگر زرا یہ ظاہر کرنے کے لیے میں سعودیہ میں چھ سال زاہد خشک ماحول میں نہیں بلکہ یوروپی ساحلوں پر پلا بڑھا ہوں۔

سرسری انداز میں پوچھا کہ کب چلنا ہے، تاکہ میں اپنی مصروفیت چیک کر لوں۔ اس نے سات بجے کا وقت بتایا اور کہنے لگی کہ وہ اوپل کورٹس ہاسٹل کے دروازے پر اتنظار کریگی۔ اس سے پہلے کہ میں اسکو انگلینڈ میں اپنی پہلی باقاعدہ ڈیٹ میں شمار کرتا، وہ دیگر پانچ سات یورپی لڑکیوں کے نام لے کر بولی، وہ بھی چل رہی ہیں، اور میں نے سندیپ کو بھی کہہ دیا ہے۔

سات بجے آٹھ دس یورپی لڑکے لڑکیوں کا یہ گروپ شہر کی جانب چل پڑا۔ یونیورسٹی سے شہر دس منٹ کی ٹیکسی ڈرائیو کے فاصلے پر تھا۔ مگر پیدل چلنے والے راستے سے جاتے تو بیس منٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ سب پیدل جانے کے لیے تیار تھے، سوائے میرے جس کی جیب میں سعودیہ سے کمائے ہوئے ریال، پاؤنڈوں کی شکل میں کود کود کر کہہ رہے تھے، ٹیکسی کروا لیتے ہیں۔

سنی ان سنی کر کے سب پیدل چل پڑے۔ سعودیہ میں گاڑی کا مسلسل استعمال اور عربی و افغانی چاولوں والے کھانے کھا کھا کر میرا وزن ایسی لمبی واک کے لیے قطعاً ناموزوں تھا۔ سو سارا رستہ لڑکیاں چہکتی رہیں، لڑکے سہکتے رہے ہیں اور میں ہانپتا رہا۔ بیس منٹ کا رستہ میری وجہ سے آدھ گھنٹے میں طے کر کے جب ہم شہر میں داخل ہوئے، تو شام بھیگنے لگی تھی۔

میری شرٹ کی طرح میں اس خنکی میں اس کسرت کے سبب پسینے بہا رہا تھا، اور سعودیہ کی پرتعیش زندگی کو یاد کر رہا تھا۔ کہاں آرامکو میں مسلسل ایک سیٹ پر بیٹھنے والی جاب، اور کہاں یہ یونیورسٹی سے ڈاؤن ٹاؤن پیدل جانے والی مشقت خیر خود کو تسلی دی کہ اب کہیں بیٹھ ہی جانا ہے، مگر یہ محض طفل تسلی تھی۔ میں بھول گیا تھا کہ اس گروپ میں میرے علاوہ سب ابھی بیس پچیس سال کی عمر کے جوان تھے۔

جبکہ میں تیس سے اوپر جا چکا تھا۔ سعودیہ میں مسلسل ایک جیسی آرام دہ جاب، اور جم جانے سے گریز نے میرا وزن مطلوبہ حد سے بیس پاؤنڈ زیادہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں کچھ پاؤنڈ زیادہ خرچ کر کے ٹیکسی پر آنے کے حق میں تھا، مگر یار لوگ نہیں مانے، اب حالت یہ تھی کہ میں پسینے اور تھکن کا شکار، گروپ کی دم بنا ہوا تھا۔ اور باقی تازہ دم فوج لیسٹر سٹی کے معروف بازار میں ہر بار کے سامنے رکتے۔

اندر جھانکتے اور مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ ایک دو بارز میں انہوں نے اندر جانے کی کوشش کی، تو دروازے پر کھڑے دربان نے انکا رستہ روک لیا اور بتایا کہ ہاوس فل ہو چکا ہے۔ ان کھلنڈرے نوجوانوں نے بھی شائد یہ بھانپ لیا تھا کہ میں اس مشقت سے گذر رہا ہوں، اس لیے وہ بھی کہیں رکنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے تھے۔

ساری زندگی پاکستان اور چند سال سعودیہ میں گذارنے کی وجہ سے شراب خانے یا ڈانس بار کا کبھی منہ نہیں دیکھا تھا، اس لیے مجھے کسی بھی بار کی اچھائی یا برائی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بالاخر خدا نے میری سن لی اور ہم سب ایک بار میں داخل ہو گئے۔ مجھے اسکی پہلی خوبی یہ نظر آئی کہ یہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ تو بعد میں کنفرم ہوا کہ بار میں جانے کا مقصد ہی دوسرے لوگوں سے میل ملاقات ہوتا ہے۔

تو ایسے بار ہی اٹریکٹ کرتے ہیں، جہاں زیادہ لوگ ہوں۔ پھر لوگوں کا معیار بھی ایک نظر میں دیکھا جاتا ہے، جیسے اسٹوڈنٹ ایسے بارز تلاش کرتے ہیں، جہاں نوجوان زیادہ ہوں، میوزک اچھا ہو، اور یہاں اچھے سے مراد ماڈرن میوزک ہے۔ بار میں دروازے ہی سے لوگ ایسے جڑے ہوئے کھڑے تھے کہ میں ان میں سے گذرتے ہوئے یہ خیال کر رہا تھا کہ اندر جا کر کھلی جگہ ہوگی۔

جہاں آسانی سے بیٹھ سکیں گے، مگر اندازہ ہوا کہ اندر باہر سب ایک سب لوگ کھڑے کھڑے ڈرنک لے رہے ہیں، میوزک پر تھرک رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، ایک دوسرے کی باہنوں میں لٹک رہے ہیں، اور اکا دکا جوڑا وہ کر رہا ہے۔ جو نوے کی دہائی میں ہمارے یہاں سنیما میں دکھایا جاتا تھا تو سیٹیاں چھت پھاڑ دیتی تھیں۔ کچھ جوڑے جو ڈانس کر رہے تھے۔

انکی حرکات سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ کاما سترا اور یوگا کو ملا کر کوئی نئی ٹیکنیک ایجاد کرنے کے چکر میں ہیں۔اتنی بھیڑ میں ہم آٹھ دس لوگ ایک کونے میں اکٹھے ہونے میں کامیاب ہو گئے، بظاہر کوئی ایجنڈہ نہیں لگ رہا تھا، سوائے اسکے کہ سب نے اپنے اپنے لیے ڈرنکس خریدنا شروع کر دیے۔ ناسیہ نے میرا کھلا منہ دیکھ کر تسلی دی، فکر نہ کرو میں تمہارے لیے بھی ڈرنک لے آتی ہوں۔

ادھر ہے کاؤنٹر وہاں سے، اس نے دوسرے کونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ تو ٹھیک ہے، مگر میں سوچ رہا تھا کہ یہاں کوک ملے گی؟ میں نے اپنی جھجھک کو چھپاتے ہوئے کہا، مگر وہ ایک جھٹکے سے سمجھ گئی۔ اچھا اچھا، میں جانتی ہوں، تم مسلم ہو، شراب نہیں پیتے، چلو ٹھیک ہے، میں تمہارے لیے کوک ہی لے آتی ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنے لیے ڈرنک اور میرے لیے کوک لے آئی، اور مجھے کوک دے کر مزے سے اپنے ڈرنک کے لیے چسکے لینے لگی۔

اگلے ڈرنک لیے ناسیہ پھر جانے لگی تو میں نے اپنی کوک کے پیسے پکڑانے چاہے تو گھور کر مجھے دیکھا اور واپسی پر ایک اور کوک گلاس میں بھر لائی۔ میں کوک ہی کو رم سمجھ کر چسکیاں لینے لگا اور اپنے بچپن کے ناول نگاروں کو کوسنے لگا، جنہوں نے انسپکٹر جمشید، کرنل آفریدی، اور علی عمران ایکس ٹو کو کبھی شراب پینے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اور تو اور نواب محی الدین دیوتا والے نے فرہاد علی تیمور سے دنیا بھر کی لڑکیاں"نچوائیں" مگر شراب کا ایک قطرہ حلق سے نہ اترنے دیا میں نے اپنے ساتھ آنے والی سب لڑکیوں اور لڑکوں پر ایک نظر ڈالی۔ لڑکے زیادہ تر وہی دیکھ رہے تھے، جو میں دیکھ رہا تھا۔ مرد کی اس خوبی کا میں قائل ہو گیا، وہ ان معاملات میں صوفی ہوتا ہے، لمحہ موجود میں جو لطف و شہد ہوتا ہے، کشید کرتا رہتا ہے، ادھار کی بازی نہیں کھیلتا۔

سو لڑکوں کو جو نظر آ رہا تھا، وہ اسی پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ اور اس انتظار میں تھے کہ کسی حسینہ کی طرف سے ڈانس کی آمادگی ظاہر ہو تو وہ میدان میں کود پڑیں۔ ناسیہ و دیگر لڑکیوں کو دیکھ کر البتہ میں حیران ہوا۔ وہ سب بار میں موجود مردوں میں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ لڑکے موجود تھے، اور ان میں سے ہر لڑکی چاہتی تو کسی بھی لڑکے کو اشارہ کرتی تو وہ بھاگا چلا آتا۔

ڈانس کرنے، ڈرنک پلانے اور ساتھ لے جانے پر بھی آمادہ ہو جاتا۔ میرے ساتھ کھڑی ان پانچ لڑکیوں میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھی، جو آسانی سے کسی ایمان نہ لوٹ سکتی ہو، مگر میں دیکھ رہا تھا کہ انکی آنکھوں میں مایوسی تھی۔ وہ ایک رات کے ساتھی کی تلاش سے کچھ آگے دیکھ رہی تھیں۔ اس چھوٹے سے کھچا کھچ بھرے ہال میں موجود ایک ایک سنگل لڑکے پر تبصرہ کر رہی تھیں،۔

کچھ یونانی اور کچھ اسپینش میں بڑبڑا رہی تھیں، انکو کوئی بھی ایسا نظر نہیں آ رہا تھا، جس کے ساتھ وہ بے تکلف ہو سکیں۔ انکی باتیں اور انداز مجھے کچھ نہ کچھ سمجھ آ رہا تھا۔ تب یکدم میرے ذہن میں ایک فلیش سا چمکا، اور جیسے بجلی کے کوندنے سے سارا جنگل روشن ہو جاتا ہے، مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ یہ سب لڑکیاں وہاں ایک سیریس بزنس کے لیے جمع ہوئی ہیں۔

ان میں سے ایک بھی اس "تفریح" کے لیے وہاں نہیں آئی تھی، جس کے لیے میں یا دیگر لڑکے وہاں جمع تھے۔ اور وہ سیریس بزنس کسی ایسے بندے سے ملاقات تھی، جس سے وہ ایک سنجیدہ تعلق بنا سکیں۔ اسی لیے انکو کونے میں ناچنے والا ہینڈسم لڑکا پسند نہیں آ رہا تھا، نہ ہی درمیان میں جھومنے والا کم عمر مگر پرکشش لڑکا بقول انکے کوئی لاابالی لگ رہا تھا۔

تو کوئی صرف شب بسری کے لیے دلچسپی لینے والا، اور کوئی ابھی اس عمر کو نہیں پہنچا تھا کہ اس سے کوئی امید لگائی جا سکتی۔ میرا دوسرا کوک ڈرنک ختم ہونے والا تھا، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس بار ناسیہ کا ڈرنک بھی میں خریدوں گا اور اپنے لیے کوک بھی۔ اس لیے ناسیہ کے روکنے کے باوجود میں اسکو دھکیل کر آگے بڑھ گیا۔ کاؤنٹر پر میں نے تین پاؤنڈ ناسیہ کے ڈرنک اور ایک پاؤنڈ اپنی کوک کا بڑھایا۔

تو بارٹینڈر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، سکس پاؤنڈز، سکس پاؤنڈز، ٹو ڈرنکس، میں نے اسے کہا، نو نو، ون ڈرنک، ون کوک، میں سمجھا رہا تھا کہ کوک تو سستی ہوتی ہے، ڈرنک مہنگا ہوتا ہے، تو ایک ڈرنک اور ایک کوک کے پیسے پورے ہیں۔ مگر گورا بارٹینڈر اپنے برٹش ایکسینٹ میں مجھے سمجھا رہا تھا، ون این سیم تھنگ ٹو ڈرنکس۔ تب مجھ پر کھلا کہ بار میں کوک کا کم سے کم ریٹ بھی ڈرنک ہی کے برابر ہوتا ہے۔

میں نے مڑ کر دور کونے میں اداسی سے تھرکتی ناسیہ کی طرف دیکھا، جو شام سے میرے لیے مہنگی کوک خرید رہی تھی، اور مجھے جتایا تک نہیں، جبکہ میں اس کوک کو ایک پاؤنڈ کی سمجھ کر لیے جا رہا تھا۔ واپس جا کر میں نے ناسیہ کو اسکا ڈرنک پکڑایا، اور اپنی کوک کی طرف اشارہ کر کے کہا، تم نے اتنی مہنگی کوک کیوں خریدی، مجھے تو ویسے بھی ایک کوک ہی کافی تھی۔

ناسیہ سے نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا، سنو، یہ میوزک سنو۔ وہ میرا دھیان میوزک کی طرف لگا رہی تھی۔ یورپی لڑکیاں شائد بار میں پیسوں کا حساب کتاب پسند نہیں کرتیں۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad