Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Gorastan Ki Yaadein (3)

Gorastan Ki Yaadein (3)

گوراستان کی یادیں (3)

لیسٹر یونیورسٹی کے نکسن ہاسٹل کے اس قبر نما چھوٹے کمرے میں بستر پر گرتے ہی میں گہری نیند میں چلا جاتا اگر لڑکپن سے صنف نازک کا وجود میرے لیے ہوا نہ بنا رکھا گیا ہوتا، برصغیر میں حوا کو ہوا بنا کر جو اخلاقیات ترتیب دی گئی ہیں، وہ ہم لوگوں کو پوری دنیا میں مختلف مخلوق بنا کر چھوڑتی ہیں۔ اسی لیے انڈین یا پاکستانی دنیا میں جہاں بھی گئے لڑکیوں کو حیران چھوڑ آئے۔

میرے ساتھ والے بستر پر لیٹی جاپانی لڑکی نے کسمسا کر ایک دو بار پہلو بدلا اور پھر اسکی آواز اندھیرے میں دوبارہ سنائی دی، تم پاکستانی بڑے عجیب طریقے سے سوتے ہو۔ کیا؟ کیوں؟ میں نے نیم غنودگی میں جاتے ہوئے پوچھا، شائد دنیا بھر کی عورتوں کو باتیں کرنے کا چسکا ہوتا ہے، چاہے قیامت آ رہی ہو یا نیند۔ اس لیے کہ ایک بستر تمہارے لیے کافی نہیں ہوتا، وہ زرا شوخی سے بولی۔

اب یہی دیکھ لو تمہارے بستر سے میرے بستر کے درمیان اٹھارہ انچ کا فاصلہ ہے۔ مگر تمہارا پاؤں میری ٹانگ کو چھو رہا ہے۔ میرا؟ میں نے نیند، تھکن اور سردی سے سن ہوتے بدن کی انوینٹری چیک کی اور اپنے تمام اعضا کی حاضری پا کر دوبارہ زرا حیرانی سے پوچھا، میرا پاؤں؟ ہی ہی ہی، جاپانی گڑیا کی ہنسی اندھیرے میں گونجی، اور میں جان گیا کہ گھنٹیاں بجنے والی بڑ جو ہمارے تھکے ہوئے شاعروں نے ہانکی ہے۔

وہ ضرور مسلسل "جنسی فاقوں" کا نتیجہ ہوگا، ورنہ شدید نیند اور اندھیرے میں لڑکی کی ہنسی بھی ڈراؤنی ہی لگتی ہے۔ ہی ہی ہی، ہاں تم اپنا پاؤں اپنے بستر پر کر لو، پلیز اور ٹھیک سے سوؤ، مگر میرا پاؤں، بلکہ دونوں پاؤں اور میں خود پورے کا پورا اپنے بستر پر ہوں، میں نے احتجاج کیا، ابھی میری بات آدھی ادھوری ہی تھی کہ دھم سے وہ پوری کی پوری میرے بستر پر۔

بلکہ انگلینڈ کے ہاسٹلز کے چھوٹے چھوٹے بستر کا سائز ذہن میں رکھیں تو سیدھے میرے اوپر آن گری تھی۔ اندھیرے میں اسکی سانسیں اور ہلکی چیخیں مجھے سمجھنے میں مشکل پیدا کر رہی تھیں کہ وہ خوشی سے میرے اوپر چھلانگ لگا آئی ہے کہ دور دیس کا ایک مشرقی شہزادہ اس کے پاؤں کو "لائن مار" رہا تھا یا پھر کچھ اور ایشوز ہیں۔

وہ، وہ، وہ میرے بستر پر کچھ ہے، آ ریٹ، مے بی، آ ریٹ، آ ریٹ، وہ ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگی، اوکے۔ اوکے۔ میں لائٹ آن کرتا ہوں، میں نے اسکو خود سے الگ کرنے اور اسکے ہلکے وجود کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی نن نو۔ نو۔ اس نے سختی سے مجھے کھینچ لیا۔ آئی ایم سکیرڈ۔ جسٹ ہولڈ می۔ ہولڈ می۔ میرا جسم جو سردی سے سن ہو رہا تھا، اب حالات کی نزاکت سے سن ہونے لگا۔

وہ مجھے شریف آدمی بلکہ اسٹوڈنٹ سمجھ کر چوہے سے ڈر کر مجھ سے لپٹ گئی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ میں جوگیوں سنت فقیروں کے اس دیس سے آیا تھا، جہاں ساری عمر نفس کا سر کچلتے رہتے ہیں اور وہ پھنیر سانپ کی طرح ہر موقعے پر پھن پھیلا ڈسنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ میرے دیس میں اندھیرا موقعے کی علامت تھا، اور تنہائی اجازت کا دوسرا نام۔

تھکن ایک نشے کا نام بھی ہے، اور نشے میں انسان کے اعصاب اور اخلاق زرا نرم پڑ جاتے ہیں۔ پھر ایک جوانمرد کے لیے خوفزدہ لڑکی کو دلاسا دینے کا تقاضا تھا کہ میں نے "تسلی دینے کے لیے" اسکو بازوؤں میں لے لیا۔ وہ جیسے اسی لمحے کے لیے کانپ رہی تھی، یکدم شانت ہوگئی، میں نے تسلی کی مقدار بڑھائی کہ ایسے موقعوں پر سخاوت مرد زات پر ختم ہے۔

وہ خاموش رہی، اور میں اسکا بدن سہلاتا سہلاتا غنودگی، تھکن اور انہونی کے نشے میں ڈوبتا گیا۔ برامدے میں شور ہوا، کمرے کا دروازہ دھڑ سے کھلا، او مائی گاڈ، سم ون از سلیپنگ انسائیڈ تیز چیخ نما آواز سنائی دی، دروازے سے آنے والی تیز روشنی میری آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔ میں نے چندھی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی، چالیس سے اوپر کی صحتمند گوری دروازے میں کھڑی مجھے گھور رہی تھی۔

میں نے اردگرد دیکھا، کمرے میں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ میرے بازوؤں میں تکیہ دبا ہوا تھا، وہ، وہ، جاپانی لڑکی میں نے ادھر ادھر دیکھا، اونہہ، مجھے نہیں معلوم تم کس کی بات کر رہے ہو، سب اسٹوڈنٹس یونین بلڈنگ جا چکے، تم ابھی تک سو رہے ہو، چلو چلو۔ جلدی کرو میں آگے سے ہو کر آتی ہوں، مجھے تمام کمرے دو گھنٹے میں صاف کرنا ہیں، گیارہ بج گئے ہیں، چالیس سالہ صحتمند گوری ٹپ ٹپ کرتی آگے چلی گئی۔

میں واپس بستر پر ڈھے گیا، بچپن میں مجھے پتنگ بازی کا بہت شوق تھا۔ ویسا شوق نہیں کہ روزانہ گلیوں میں بھاگتا پھروں، مگر ہوا میں پتنگ اڑا کر اسکی ڈور کو گھنٹوں اپنے ہاتھ میں پکڑے تکھنا میرا پسندیدہ وقت تھا۔ بسنت میں جب لال، نیلی، پیلی پتنگیں ہواؤں میں اڑتیں اور لوگ انکو پکڑتے، اڑاتے اور لوٹتے تو مجھے اسکول آتے جاتے ان کو دیکھنا بہت اچھا لگتا۔

ایسی ہی ایک بسنت پر مجھے خواب آیا کہ ہمارے گھر کی چھت پر بہت ساری پتنگیں آن گری ہیں، جن کو میں نے "لوٹ" لیا اور احتیاط سے اتار کر اندر الماری میں رکھ لیا کہ اب انکو باری باری اڑایا کرونگا اور پورا سال مزے کرونگا، خواب ختم ہوا اور اندھیرے میں اچانک میری آنکھ کھل گئی تو دیکھا کہ نہ چھت ہے، نہ پتنگیں، مگر خواب اور خواہش کا اصرار اس قدر زیادہ تھا۔

اور بچپنے کی عقل اتنی کم کہ دبے پاؤں بستر سے اترا اور اس الماری میں جا کر اندھیرے ہی میں ٹٹولنے لگا کہ شائد یہ خواب نہ ہو، شائد پتنگیں لوٹنے کے بعد مجھے نیند آ گئی ہو، ہاسٹل کے اس بستر پر لیٹے لیٹے بھی میری یہی کیفیت تھی، حالات کہتے تھے کہ یہ خواب ہے، بسنت نہیں مگر دل کا بچپنا کہتا تھا کہ شائد پتنگیں لوٹنے کے بعد مجھے نیند آ گئی ہو۔

اب یہ تو وہ جاپانی لڑکی ہی بتا سکتی تھی کہ الماری میں پتنگیں پڑی ہوئی ہیں یا خالی ہے۔ میں تیزی سے اٹھا، اور اپنا سامان پیک کرنے لگا۔ مجھے یونین بلڈنگ سے اپنا ہاسٹل کا کمرہ الاٹ کروانا تھا۔ اگر آگے چل کر جاپانی لڑکی سے بات ہوئی تو آپ کو ضرور بتاؤنگا کہ خواب کیا اور حقیقت کیا۔

Check Also

Bharat Janoobi Asia Ka Israel Banta Ja Raha Hai

By Asif Mehmood