Doosri Shadi Kaise Hoti Hai?
دوسری شادی کیسے ہوتی ہے؟
گنجان بازار میں چھوٹی سی کپڑے کی دکان پر حاجی صاحب گز سے کپڑا ماپ رہے ہیں۔ کپڑا لینے والی جواں سال زاہدہ کی نظریں والہانہ حاجی صاحب کی خضاب لگی داڑھی پر ٹکی ہیں۔
"رہنے دیں یہ سوٹ بھی، جو میں آپ کو کہہ رہی ہوں، وہ مانیں تو تب ناں"، زاہدہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔
"نہ بھئی، اب اس قدر گنجائش نہیں اپنے حالات میں"، حاجی صاحب نے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا، اور کپڑے کو کاٹ کر سوٹ ایک شاپر میں ڈالنے لگے۔
"گنجائش کیسی؟ میں کون سا آپ سے سارا جہان مانگ رہی ہوں؟ بس مجھے تو آپ کا ساتھ چاہیے۔ آپ جانتے تو ہیں مجھے اتنے عرصے سے۔۔ کبھی کوئی زیادتی کوئی فرمائش کی جو آپ پوری نہ کر سکے ہوں۔ ہوں؟"، زاہدہ نے حاجی صاحب کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔ حاجی صاحب گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پتلی دکان کے دوسرے سرے پر انکا ملازم کپڑے کے تھان لپیٹ رہا تھا۔
"مم مگر، تم جانتی ہو میرے پانچ بچے ہیں، سب کی زمہ داریاں، پھر بیوی کے علاج کے خرچے الگ۔ اور ایک ہی کاروبار ہے میرا یہ کپڑے کا۔ " حاجی صاحب نے ہوشیار کاروباری کی طرح اپنا دکھڑا سنایا، جیسے وہ انکم ٹیکس آفیسر کے سامنے کھڑے ہوں۔
"رہنے دیں حاجی صاحب، جانتی ہوں میں سب۔ دو گھنٹے آپ کی دکان پر بیٹھوں تو بیس ہزار کی بکری ہوتے تو میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ مہینے کے لاکھوں کماتے ہیں آپ۔ اور مجھ بدقسمت کو دو ہزار کا ایک سوٹ بھی گوارا نہیں ہوتا آپ کو۔۔ ایک اپارٹمنٹ کا کرایہ، اور چند ہزار کا خرچہ۔۔ اور کیا مانگتی ہوں میں آپ سے؟ چلیے نکاح کے بعد وہ بھی نہ دیجیے گا، معاف کیا آپ کو۔۔ بس اب تو ٹھیک ہے؟"، زاہدہ نے مصنوعی ناراضگی دکھائی اور منہ بسور کر اٹھنے سے پہلے اپنا سوٹ اٹھانا نہیں بھولی۔
"دیکھو زاہدہ، تم سنجیدہ ہو تو میں سچ بتاتا ہوں کہ مجھے اپنی بیوی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میرے بچے بڑے ہیں۔ وہی میرے سر پر چڑھ بیٹھیں گے۔ چند سال میں بیٹی کی شادی ہوگی تو۔۔ "، حاجی صاحب واقعی سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔
زاہدہ تیر نشانے پر لگتے دیکھ کر واپس بیٹھ گئی۔
"ارے حاجی صاحب، آپ نے زاہدہ کی محبت کو ایویں ہی سمجھ رکھا ہے کیا؟ نہیں ہوگی کسی کو کانوں کان خبر۔۔ نہ آپ کی بیوی کو، نہ بچوں کو، اور نہ ہی کسی اور کو۔ بس میری ایک بہن کو پتہ ہوگا، وہی نکاح کا انتظام کریگی۔ میرے ماں باپ تو ہیں نہیں، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ "
"دیکھو اگر تم چاہتی ہو کہ ہم واقعی ایک رشتے میں آ جائیں تو میری چند شرطیں ہونگی، اب تمہاری مرضی تم ایک بھی نہ مانو۔۔ مگر پھر جان لو کہ میں مجبور ہوں، یہ احتیاطیں مجھے کرنا پڑیں گی"، حاجی صاحب سودا طے ہوتے دیکھ کر سیدھے ہو گئے۔
"آپ کہہ کر دیکھیں، نہ مانوں تو گولی مار دیجیے اسی وقت"، زاہدہ نے دلار سے کہا، وہ خیال ہی خیال میں خود کو حاجی صاحب کی منکوحہ کے روپ میں دیکھنے لگی۔
حاجی صاحب نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولے۔
"دیکھو، تمہارا آگے پیچھے کوئی نہیں مگر میرے کاروبار اور محلے کے سب جاننے والے ہیں، اس لیے کچھ باتیں کرنا ہونگی۔
ایک یہ کہ میرا اصلی نام سوائے نکاح نامے کے کہیں نہیں ظاہر کرو گی۔
دوسرا یہ کہ میں صرف دن میں تمہارے گھر آیا کرونگا۔
تیسرا یہ کہ مجھے بچے نہیں چائییں۔
اور چوتھا یہ کہ کبھی ہم کسی جگہ باہر نکلیں تو تم مجھ سے چند قدم پیچھے چلو گی، تاکہ اگر کوئی جاننے والا مل جائے تو معاملہ خراب نہ ہو۔ "
زاہدہ نے خاموشی سے سب سنا اور بولی، "بس حاجی صاحب، صرف اتنا ہی۔ ارے آپ عورت کی محبت کو نہیں جانتے، اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہے۔ تو میں آپا سے کہہ دوں اگلے اتوار کو مولوی صاحب کو بلا لے؟"
حاجی صاحب نے نظر بچا کر زاہدہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے، "اس اتوار نہیں اگلے مہینے کی پہلی اتوار ٹھیک ہے"۔