Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Bano Aapa, Mubarak Ho

Bano Aapa, Mubarak Ho

بانوآپا، مبارک ہو

بانو آپا! ابھی کچھ عرصہ پہلے آپ ہسپتال کی سفید چادر پر اپنے آخری سفر کے لیے تیار، اشفاق بابا کو ماتھے پر بوسہ دے کر رخصت کر رہی تھیں۔ اور اس عارضی جدائی کی چادر اپنے ریزہ ریزہ وجود کو لپیٹ رہی تھیں کہ، جس جدائی میں آپ نے ہر لمحہ اپنی روح کو اسی جانب کو کھچتے محسوس کرنا تھا، جس سمت کو اشفاق بابا خاموشی اور مکمل رضامندی سے رخصت ہو گئے تھے۔

بانو آپا! مبارک ہو، آج وہ ساعت آ ہی گئی کہ جب آپ اپنے محبوب اور ہم سب کے اشفاق بابا سے پھر ملاقات کو روانہ ہو گئیں۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ ایک انسان کو کیسے محبوب کے عہدے پر فائز کر کے دیوتاؤں کو رشک میں مبتلا کرتے ہیں؟اپنے آپ کو تیاگ کر، اپنی چاہت میں خاکستر ہو کر بھی اپنی ہستی کے ساتھ کیسے جینا ہے؟ آپ نے اس کی تفسیر اپنی زندگی سے دی۔

بانو آپا! آپ نے بہت لکھا، اور آپ کو پڑھنے والوں نے، آپ کو محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا بھی۔ مگر آپ نے اشفاق بابا سے محبت کر کے اور اشفاق صاحب نے محبوب اور جیون ساتھی کو، ایک ہی رشتے میں اکٹھا کر کے ہم جیسے مبتدیوں کو محبت، دوستی، اور ساتھ نبھانے پر پھر سے اعتبار کرنا سکھا دیا۔ آپ کی سب کتابیں اور اشفاق بابا کی سب کہانیاں اپنی جگہ، مگر اپنی زندگیوں سے آپ دونوں نے ہمیں جو محبت کرنا سکھایا ہے، اس کو میری نسل کے لوگ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔

آپ دونوں کو ساتھ دیکھ کر، ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے سن کر، یا آپ کی زندگیوں پر نظر ڈال کر ہم میں سے کوئی بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ ،آپ دونوں میں سے کون زیادہ خوش قسمت تھا؟ مجھے یاد ہے کہ آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں برملا کہا کہ اشفاق صاحب آپ کے محبوب ہیں، اور ممتاز مفتی جو آپ دونوں کا رازدار تھا، ہمیں اس کی تصدیق کر کے بتاتا ہے کہ اشفاق احمد کے منہ سے نکلنے والی ہر بات، بانو قدسیہ کے لیے ایک مقدس حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اپنی محبت سے الوہی رس انھی کو ملتا ہے جو محبوب کی ہر چاہ پر اپنی میں قربان کر دیتے ہیں، یہ سبق آپ نے ہمیں اپنی زندگی سے دیا۔

کئی بار تمغہ صدارت پانے والی، اپنے عہد کی لیجنڈ لکھنے والی، اور فلسفہ محبت و سماجی نفسیات کی شناور ہونے کے باوصف ،آپ جب اپنے محبوب کے سامنے ہوتی تھیں تو محض ایک چاہنے والی بیوی، ایک واری جانے والی ہستی، اور ایک خیال رکھنے والی ساتھی۔ کاش ہم آپ کی بات سمجھ سکیں کہ، محبوب کے لیے فنا ہونا اصل میں امر ہونے کے مترادف ہے۔ 21 سی ماڈل ٹاؤن میں اشفاق صاحب کی گفتگو میں محو ،ایک طالب علم کو جب آپ نے اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چائے کا کپ پکڑایا تھا، تو اس کے کانپتے ہاتھ حیران و ششدر تھے کہ حاکم و محکوم، حقوق و فرائض، تیرے اور میرے کی ساری بحثیں اس چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ بن کر تحلیل ہوچکی تھیں، اور فقط محبت باقی رہ گئی تھی۔

اشفاق صاحب کے جانے کے بعد، آپ نے ان کی رحلت کے آخری لمحات لکھے تھے۔ ہجر کی کوئی بات کہے بغیر، وچھوڑے کا دکھ بتائے بغیر، اپنی زندگی کی قیمتی متاع کو اجل کے حوالے کرنے کی ساعتوں میں بھی آپ نے اشفاق بابا کا وہ مان قائم رکھا، جو ان کو اپنے اگلے سفر کی کئی برسوں کی تیاری کے دوران اپنی شریک حیات سے تھا۔ آپ اشفاق صاحب کے ان تمام سفروں کی گواہ اور گاہے ساتھی رہی ہیں ،جن میں انہوں نے مطلوب کی تلاش میں زادراہ باندھا۔ آپ ہی سے سنا کہ ،اپنے آخری سالوں میں اشفاق صاحب اکیلے ہی تلاش کو نکل جاتے تھے۔

کتنے رسان سے آپ نے کہہ دیا کہ ،شاید ان کے خیال میں آپ اس سفر کے لیے موزوں ہم سفر نہیں تھیں۔ اپنے محبوب کو انجانی منزلوں کے لیے زاد راہ دیتے ہوئے، کب اپنی جھگی میں مطلوب کا گیان آپ کو حاصل ہوگیا، شاید یہ صرف وہی جان پاتے ہیں، جن کو "من چلے کے سودا" کے لبھا کی طرح ربّ خود آ کر ملتا ہے۔ اپنی مرضی سے۔

بانو آپا! آپ کی عارضی جدائی ختم ہوئی۔ راج ہنسوں کا جوڑا جو کچھ سال پہلے بچھڑ گیا تھا، آج پھر مل گیا ہے۔ مگر ہم آپ دونوں کو بہت مس کریں گے۔ ہمارے پاس محبت کی بات کرنے کے بہانے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں، آپ کے جانے سے ایک بہانہ اور کم ہو گیا۔ ہم محبت میں اور غریب ہو گئے۔ رب ِکائنات آپ کو اور اشفاق صاحب کو جنتوں میں تابندہ رکھے، اور ان تمام لمحوں کی آسانیاں اور محبتیں جو آپ دونوں نے ہم سب کو بانٹیں، وہ آپ کے لیے بہشتوں میں میٹھے ٹھنڈے جھرنے بن جائیں۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat