Apni Soch, Apna Eman, Apni Qabar
اپنی سوچ، اپنا ایمان، اپنی قبر
کالج کے زمانے کی بات ہے میرا ایک دوست مجھ سے ناراض ہوگیا۔ ہم چار دوستوں کا ایک گروپ تھا، اس نے کہا کہ میری محمود سے دوستی ختم۔ باقی دوستوں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اسکا ایمان ختم ہوگیا ہے کیونکہ اس کو عذاب قبر پر یقین نہیں جو کہ ایمان کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔
دوستوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایا کہ ایک دن بحث کے دوران میں نے اپنا نکتہ نظر بتایا تھا کہ میرا خیال ہے قادر مطلق ہر بات پر قادر ہے، اس لیے جو عذاب کی شکلیں بتائی جاتی ہیں وہ انسانی ذہن کے سمجھنے کے لیے ہیں، ہو سکتا ہے وہاں اسکی شکل کچھ اور ہو۔
خیر خرابیء بسیار کے بعد اس دوست سے صلح ہوگئی، میں نے اپنے "تجدید ایمان" کے لیے اسکو مزید سمجھانے کی کوشش کی اور اسکو بھی شائد میری بات سمجھ میں آگئی۔
آج میں سمجھتا ہوں کہ میری وہ سوچ تلاش علم میں ایک پڑاؤ تھی۔ میری سمجھ اب اس مقام سے آگے کی منزلیں طے کر چکی ہے۔ مگر اس وقت اس بات کا اظہار ایک شخص کے سامنے، جو مذہب کی تعلیمات کو لغوی معنوں کی حد تک لے کر اس پر سختی سے کاربند ہو، کرنا ایک نادانی تھی۔
آج فیس بک نے ہمارے حلقہ دوستی کو بہت پھیلا دیا ہے، اور ہماری بات آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ اس حلقہ دوستی میں میرے اس باعمل دوست کی طرح کے بہت سے ایسے لوگ ہونگے، جو مذہب کی فلسفیانہ بحثوں کو نہ سمجھ سکتے ہوں، یا انکی طبعیت پر کچھ الفاظ و انداز ناگورا گزریں تو ایسے میں ہماری ذمہ داری تھوڑا بڑھ جاتی ہے۔
دوستو! آپ میں سے ایسے لوگ جو اپنی سوچ کو منطقی سمجھ کر بیان کر دینے پر قادر ہیں، ایک لمحے کو اگر ان لوگوں کا خیال کر لیں، جن پر آپ کی سوچ گراں گزر سکتی ہے، یا جن کی ذہنی کیفیت اس لائق نہیں کہ وہ بھاری اور دقیق موضوعات کو سہار سکیں، تو سوشل میڈیا پر موجود بہت ساری لایعنی بحثیں ختم ہو جائیں۔ ہو سکتا ہے آپ اپنے علم کی تلاش میں ابھی کسی پڑاؤ پر ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ آگے بڑھ جائیں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ہمیشہ اسی مقام پر رہیں۔ دونوں صورتوں میں ایک متنازعہ بات کو بیان کرنا محض فساد کو ہوا دینا ہے۔
یاد رکھیں، اس موجودہ لمحے میں، جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، بہت سے لوگ مذہب میں داخل ہو رہے ہیں، اور بہت سے لوگ مذہبی تعلیمات سے باغی ہو رہے ہیں۔ کوئی اپنا عقیدہ چھوڑ رہا ہے، تو کوئی نیا عقیدہ اپنا رہا ہے۔ کوئی مذہب سے فلاسفی کی طرف جا رہا ہے تو کوئی فلاسفی سے مذہب کی طرف آ رہا ہے۔
رب تخلیق و تحقیق نے انسانوں کی بنت اس طرح سے کی ہے کہ نئے خیالات کا ابھرنا، سوچ کے نئے زاویے کھلنا، تشکیک سے یقین کی طرف مڑنا، اور یقین سے تشکیک کی طرف بھٹک جانا، یہ سب انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔ اگر آپ رب کو مانتے ہیں تو اسکی شان تخلیق کے تنوع کو سجدہ کیجیے، اور اگر آپ انسانیت کو مانتے ہیں تو اپنے جیسے انسانوں کی سوچ کے محدودات کو مدنظر رکھیے۔
رب کریم ہمیں اپنے جیسے انسانوں کو زندہ رہنے اور ہنسنے کھیلنے دینے کی توفیق دے۔ اور کسی عقیدے، الفاظ، سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے سے بچائے۔