Zubani Tashadud Bilakhir Tashadud Hi Hai
زبانی تشدد بالآخر تشدد ہی ہے
زیادہ تر لوگ گھریلو تشدد کو اب بھی جسمانی تشدد کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، یا ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی جسمانی پہلو ہو تو یہ صرف اس صورت میں اہم ہے۔ ایک اور عام قسم کی زیادتی زبانی زیادتی ہے جو جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی بھی ہوسکتی ہے۔ کسی جسمانی طور پر تشدد کا واقعہ کسی شخص کو گہری تکلیف دینے کے لئے نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حربہ ہے جو کسی شخص پر قابو پانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کسی بھی شکل میں گھریلو زیادتی سلوک کا ایک نمونہ ہے جس کا بنیادی مقصد کسی دوسرے شخص پر قابو پانا اور اس کا اقتدار ختم کرنا ہے۔
بدسلوکی کی تدبیریں مختلف ہوسکتی ہیں۔ مجرم زیادہ زبانی دھمکیوں اور زحمتوں، یا نفسیاتی زیادتیوں، یا جسمانی حملوں کا استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن آخر کار مقصد ایک ہی ہے: کسی دوسرے انسان کے اقتدار پر قابو رکھنا اور اختیار ختم کرنا۔ انھیں ہر ممکن حد تک ان کی نچلی جگہ پر پہنچا دینا۔
عام طور پر زبانی زیادتی جسمانی تشدد کا پہلا سٹیج ہے۔ جسمانی تشدد اکثر تب ہوتا ہے جب بدسلوکی کرنے والوں کی زبانی طور پر قابو پانے کی تدبیریں عورت کو "اپنی جگہ" رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ کچھ مجرموں کو کبھی بھی اپنے پارٹنرز پہ انگلی نہیں اٹھانی پڑتی ہے کیونکہ وہ دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے، اپنے پارٹنرز کی تذلیل کرتے ہیں، ان کے حوصلے پست کرتے ہیں یا دھمکیاں دے کر ان پر قابو پا لیتے ہیں۔ زبانی زیادتی سلوک کو کنٹرول کرنے کے کئی ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو معاشرے میں زیادہ شناخت کی ضرورت ہے۔
زبانی زیادتی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ زیادتی کی ایک ایسی شکل ہے جو معاشرے میں اتنی پوشیدہ اور ثابت کرنا بہت مشکل ہے، پھر بھی یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خواتین سمجھتی ہیں کہ یہ انہیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ اگر کسی عورت کو جسمانی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس کی وضاحت کر سکتی ہے کہ ہو کیا رہا ہے، اس کے ثبوت وہ پیش کر سکتی ہے کیوں کہ اس کے ثابت کرنے کے لئے نشانات موجود ہیں۔
زبانی زیادتی جذباتی اور نفسیاتی طور پر بہت زیادہ ناقابل برداشت اثر ڈال سکتی ہے لیکن شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین کو دوسروں کو سمجھانا اور یقین دلانا مشکل تر ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی پولیس کے پاس نہیں جاتا ہے کیونکہ ان کی تذلیل اور تضحیک ہوئی ہے۔ محافظوں کو یہ کہنا مشکل ہے کہ آپ کا ساتھی آپ کو اپنے دوستوں سے الگ کرتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر خواتین اکثر زبانی بدزبانی کی صورتوں میں طویل عرصے تک رہتی ہیں۔ زبانی بدسلوکی کا نشانہ بننے والے بے بسی کے احساس کا اعتراف کرتے ہیں، اس احساس کا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، اور کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرے گا۔
مسلسل کنٹرولنگ اور نقصان دہ سلوک جسمانی زیادتی کی طرح ہی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ زبانی حملوں سے ہونے والے زخم برسوں تک اثر رکھتے ہیں۔ زندگی بھر یہ نفسیاتی داغ لوگوں کو جذباتی اور ذہنی طورپر توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ میں بھروسہ کھو دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اصل قدر کو تسلیم کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔ یہ دماغی صحت کی سنگین پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے اور مسلسل بدسلوکی کے ساتھ زندگی گزارنے سے پیدا ہونے والے اسٹریس کی وجہ سے جسمانی صحت کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔
تصور کیجئے کہ آپ کو ہر موقع پر بیکار، بے وقوف، بدصورت کہا جائے۔ تصور کیجئے کہ آپ جو بھی کام کریں اس پر آپ کو کہا جائے کہ یہ غلط ہے۔ تصور کیجئے اب جو بھی قدم اٹھائے اس پر آپ بے اعتمادی محسوس کریں، یہ جانتے ہوئے کہ آپ کا ساتھی ایک قدم پیچھے آپ کو بےعزت کرنے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے۔
مستقل ذلت، تنقید اور منفی تبصرے آخر کار آپ کی سوچ میں جذب ہو جاتے ہیں۔ انتہائی خوفناک بات یہ ہے کہ ان مستقل تبصروں کے ساتھ زندگی گزارنا آپ کی حقیقت بن سکتا ہے۔ بہت سی خواتین آخر کار ان تبصروں کو اپنی شناخت کے طور پر قبول کرلیتی ہیں۔
ایک گھر میں اس طرح کی زیادتیوں سے نکلنے کے لیے بہت زیادہ اعتماد اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہی وہ خوبیاں ہیں جو زیادتی کرنے والوں کے حملوں کا نشانہ بنتی ہیں جس سے اس طرح کے ماحول کو چھوڑنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی جو چیز لوگوں کو طاقت دیتی ہے وہ یہ جاننا ہے کہ وہ اس ماحول میں اکیلے نہیں ہیں، یہ کہ مدد دستیاب ہے اور صرف یہی جاننا بہت ہے کہ انہیں اس طرح کے گھرانے میں کسی کا تشدد سہنے کی اور دوسروں کی غنڈہ گردی برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زبانی زیادتی آخرکار زیادتی ہی ہے۔ لاٹھی اور پتھر آپ کی ہڈیوں کو توڑ سکتے ہیں لیکن الفاظ آپ کی روح کو توڑ دیتے ہیں۔