Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. M Bilal M
  4. Chand Ko Jaise Dekhta Chakor Hai

Chand Ko Jaise Dekhta Chakor Hai

چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے

کیا آپ کا محبوب بھی چاند ہے؟ بس جی! پھر آہیں بھریں اور محبوب کو اسی طرح دور سے دیکھیئے "چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے"۔ وہ کیا ہے کہ چکور پرندے کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے۔ اور کیا آپ نے کبھی غور سے چاند کو دیکھا ہے؟ ویسے عجب ہی بلیک اینڈ وائٹ محبوب ہے۔ کدو جیا نہ ہووے تے۔ ہے ناں حیرانی کی بات کہ عاشق چکور کے جیسے خوبصورت اور محبوب چاند کی طرح کدو سے اور بلیک اینڈ وائٹ۔

ایک طرف افزائشِ نسل کے دنوں میں چکور جھگڑالو ہوتا ہے تو دوسری طرف ہندی دیومالائی کہانیوں میں اس پرندے کو "شدید محبت" کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔ ویسے قدیم اردو لغت کے مطابق عاشق یا مجنوں کو بھی اشاراتاً چکور کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ پاکستان کا قومی پرندہ شاہین یا عقاب ہے۔ نہ سائیں نہ، پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے۔ کیوں ہے؟ علم نہیں کہ اپنے جھگڑالو ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر محبت کی علامت ہونے کی بنا پر۔ البتہ ہر دو صورتوں میں ٹھیک ہی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتاب نانگا پربت کا ایک باب "روڈ ٹو استور اور چکور ہی چکور" ہے۔ جب وہ استور گئے تھے تب سڑک کچی اور بیابان تھی۔ لہٰذا وہ کہہ سکتے ہیں کہ "روڈ ٹو استور از فل آف چکورز"۔ مگر اب استور روڈ پکی ہو چکی ہے۔ لہٰذا آنکھ میں ڈالنے کو بھی کوئی چکور نہیں ملتا۔ البتہ ہم نے ٹلہ جوگیاں کے راستے پر چکوروں کے غول دیکھے ہیں۔ گویا ہم کہیں گے کہ قلعہ روہتاس کے بعد "سڑک جائے ٹلے، جوگی رُلے، گل کِھلے، مور ملے، چکور ملے"۔

ویسے راستے میں اور ٹلہ جوگیاں پر اب چکور کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بالکل کم ہو جائیں، ہم نے انہیں فلمانے اور تصویریں بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ سفر خاص طور پر ٹلہ کے موروں اور چکوروں کے واسطے تھا۔ راستے میں بھی نظر آئے مگر کیمرے میں نہ سمائے۔ ٹلہ پہنچ کر ساری رات فوٹوگرافی کرتے اور چاند کو دیکھتے گزر گئی۔

ایک آدھ گھنٹہ سونے کے بعد جب طلوع آفتاب کے وقت آنکھ کھلی تو خیمے کا تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ مگر وہاں کوئی مور نہیں تھا، البتہ دیگر پرندوں کے ساتھ ساتھ چکور پھر رہے تھے۔ بس پھر کیمرہ لینز تبدیل کرنے کا تردد بھی نہ کیا اور سرہانے پڑے چھوٹو کیمرے سے ہی ویڈیو اور تصویریں بنانے لگا اور یہ تصویر اسی وقت کی ہے، جب اک "جوگی چکور" تالاب کی برجیوں کے پاس جوگ بھر رہا تھا۔

ماہرین کے مطابق چکور گھاس اور جڑی بوٹیوں والی کھلی چٹانوں پر عموماً سطح سمندر سے دو ہزار سے چار ہزار میٹر کی بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ جبکہ ٹلہ جوگیاں تو تقریباً 960میٹر بلند ہے یعنی چکوروں کے مسکن میں نہیں آتا۔ مگر ٹھہریئے حضور! وہ کیا ہے کہ "مزید زیادہ ماہرین" کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں چکور چار پانچ سو میٹر بلندی سے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں ٹلہ کی راہوں پر جوگ کے ساتھ ساتھ جنگلی مور و چکور بھی ملتے ہیں۔ بلکہ ٹلہ سے نیچے وادیوں میں پاکستان کے دیگر وسائل کی طرح اس قومی پرندے چکور کا بھی بے دردی سے بے دریغ شکار ہوتا ہے۔

چکوروں کے بچے تو آج کل شاید بھرپور جوانی کو نہ پہنچے ہوں، البتہ ساون کی راہ دیکھتے موروں کی نئی نسل ساون دیکھ کر اب جوان ہو چکی ہو گی۔ لہٰذا موسم کچھ بہتر ہوتے ہی، ہم ہوں گے، ٹلہ ہو گا، مور ہوں گے، چکور ہوں گے۔ اور اگر آپ بھی اپنے ہونے کا احساس چاہتے ہیں تو تیاری رکھو۔ جلد ہی ملیں گے ٹلہ کو جاتیں، جوگ کی راہوں پر۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi