Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Zindagi Sirf Isi Dunya Ki Samjhe Baithe Hain

Zindagi Sirf Isi Dunya Ki Samjhe Baithe Hain

زندگی صرف اِسی دنیا کی سمجھے بیٹھے ہیں

قدرت کی خوبصورتی کو دیکھنا اور اس کی حمد کرنا ہر صاحبِ زوق پر فرض ہے۔ میں ناران کی سیر کے دوران بے اختیار اس رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتی رہی۔

ان علاقوں کو بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے، لیکن مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ کوئی بھی حکومت ہو چاہے ن لیگ کی، چاہے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خان صاحب، چاہے پیپلز پارٹی، یہی لوگ پا کستان پر حکومت کرتے رہے ہیں، لیکن ان علاقوں کی ترقی کے لئے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اگر ان علاقوں کی ترقی پر توجہ دی جاتی تو سیاحت کو اور بھی فروغ حاصل ہوتا اور وہاں کے مقامی لوگوں کی حالت بہتر ہوتی لیکن نہیں! یہاں پر حکومت صرف انجوئے منٹ کا نام ہے جب سب ٹریفک روک کر عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر پروٹوکول کو انجوائے کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔

جھیل سیف الملوک پر جاتے ہوئے جیپ والا ہمیں بتا رہا تھا کہ صدر عارف علوی اپنی فیملی کے ساتھ یہاں آیا، اس دن جھیل سیف الملوک جانے والے راستے پر سب ٹریفک روک دی گئی، اس کی فیملی اکیلی جھیل سیف الملوک تک گئی، کیا صدر صاحب سڑکوں کی حالت اور وہاں کے لوگوں کی حالت دیکھ نہ سکے۔ اس جیپ والے نے بہت کچھ بتایا لیکن اس کا ایک جملہ کہ "تبدیلی کا نعرہ ہمارے گلے پڑ گیا" مجھے بار بار یاد آ رہا ہے۔

غلط معاشرہ میں جب تباہی آتی ہے تو چاروں طرف سے چیخوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک سینٹر 12 ملازم رکھ سکتا ہے اور گھر کے چار افراد تا حیات جہاز پر سفر کر سکتے ہیں، بجلی فری! جہاں غریب عوام بجلی کا بِل دینے کے بھی قابل نہیں!

کبھی ججز، کبھی بیورو کریٹ کبھی جرنلز پا کستان کو لوٹتے رہے ہیں لیکن ہمیں بتایا زیادہ تر جرنلز کا ہی جاتا رہا ہے! اس تاریک رات کی صبح کب ہوگئی؟

مجھے قرآن کے دعویٰ پر یقین ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی! ظلم کا لفظی مطلب ہوتا ہے کہ جس جگہ پر جس چیز کو ہونا چاہیے وہ اپنے مقام سے ہٹ جائے! یہ ظلم ہے!

ظلم کا خاتمہ بحر حال ہونا ہی ہوتا ہے، اگر بندہ رب کا رفیق بن جائے تو اس ظلم کا خاتمہ سالوں کی بجائے دنوں میں ہو جائے ورنہ کائناتی رفتار سے تو بہر حال حق کو غالب آنا ہوتا ہے!

پاکستانی عوام کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرہ سے دھوکا کھاتی رہی اور کبھی ان کو انصاف کا چورن زبانی زبانی کھلایا جاتا رہا ہے۔ اور خود یہ طبقہ دولت لوٹتا اور جمع کرتا رہا! عوام کے پیسے پر عیش کرتا رہا اور اب تک کر رہا ہے!

ان لوگوں کو عوام کی کوئی پرواہ حقیقتا نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو صرف افرادی قوت کی جن کے حقوق کوئی نہیں ہیں، ہاں البتہ ان کے ووٹوں کے بل بوتے پر وہ اسمبلی میں جائیں گئے، مجھے یہ سب لوٹ مار دیکھ کر وہ مالِ غنیمت یاد آ جاتا ہے جو مسجدِ نبوی میں لا کر ڈھیر کیا گیا تھا جب ایران فتح ہوا تھا اور جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا تھا اس میں بے تحاشا ہیرے جواہرات تھے اور حضرت سعد بن ابی وقاص جو فاتح ایران تھے انھوں نے کہا تھا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ کسی سپاہی نے اس مالِ غنیمت میں سے ایک سوئی تک اپنے پاس نہیں رکھی۔ اس پر حضرت علیؑ نے کہا کہ عمر! آپ جانتے ہیں کہ آپ کے سپاہ اس قدر ایماندار کیوں ہیں؟

اس لئے کے آپ ایماندار ہیں!

اور یہی حقیقت ہے!

یہاں ایمانداری کی اُمید اس غریب سے کی جاتی ہے جو روٹی تک پوری نہیں کر پاتا اور وہ طبقہ ہمیں لوٹ لوٹ کر کھا رہا ہے! کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟

اس قدر عیش اس قدر دولت جمع کرکے، آخر یہ لوگ کتنا جی لیں گئے؟ بھوک تو صرف دو روٹی کی ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ، اس سے زیادہ آپ کھا ہی نہیں سکتے! زندگی وہی زندگی ہے جب آپ صحت مند ہوں؟ آخر زندگی کا کتنے حصے سے آپ لطف اُٹھا سکتے ہیں؟ بالآخر آپ کو رب کے سامنے منہ دیکھانا ہے؟ سب مانتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد زندہ ہونگے پھر بھی دولت کی ہوس ختم نہیں ہوتی، آخر کیوں؟

میں سورۃ یٰسین پڑھ رہی تھی تو یہ آیات بار بار پڑھتے گئی کہ قّالُو یٰوُیلُنُا مُن بُعُثُنّا مِن مُرقُدنّا۔

اُس وقت یہ بات ہوگئی کہ ہاں آج پتہ چلا کہ واقعی یہ زندگی ہے، ہم تو سو رہے تھے۔ مرقد کے معنی ہوتے ہیں"خواب گاہ" جہاں کوئی سو رہا ہو۔ قرآن نے اس زندگی اور اُس زندگی کے درمیان جو جگہ ہے اٰس کو خواب گاہ کہا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ کہیں کہ ہماری خواب گا ہوں سے کس نے ہمیں جگا دیا؟

جواب ملے گا کہ ھّزا مّا وّعٰدّ الرحمٰن وّ صّدّقّ المُرسّلُونّ یہ وہی ہے کہ جس کے متعلق تمھارا خدا کہا کرتا تھا اور جس کی تصدیق تمھارے رسول کیا کرتے تھے۔ کوئی نئی بات نہیں ہوئی یہ تو وہی کچھ ہے جو تم سے کہا جاتا تھا اور تم تکذیب کیا کرتے تھے۔

یہ سب لو ٹنے والے اور عیش بھری زندگی گزارنے والے کیا سمجھتے ہیں کہ یہ عیش بھری زندگی کبھی ختم نہیں ہوگئی؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہم رب کی بتائی ہوئی زندگی گزاریں تو یہ دنیا بھی جنت کا نمونہ بن جائے اور آخرت بھی!

مومن تو دعا ہی یہ مانگتا ہے کہ ربنا اٰ تِنا وّ فِی الدنیا حّسّنّتہ وّ فِی الا خر تِ حّسّنّت

اور آخرت کی زندگی کا کیا کہنا جہاں میزبان خدا خود ہو وہ کہتا ہے کہ تم تو محدود آرزوئیں رکھتے ہو، ہم لا محدود ہیں۔ اپنی طرف سے وہ کچھ دیں گئے جو تمھارے تصور میں بھی نہیں آسکتا کہا کہ وّ لّدّ ینّا مّزِ ید

پاکستان کو لو ٹنے والے شاید زندگی صرف اسی دنیا کی زندگی سمجھے بیٹھے ہیں!

Check Also

Kon Dekhta Hai

By Nusrat Javed